تحصیل شکر گڑھ کے سرکاری ہسپتال: 'نرسری وارڈ اور تربیت یافتہ عملے کا نہ ہونا نوزائیدہ بچوں کی اموات کا ایک بڑا سبب ہے'

postImg

صبا چوہدری

postImg

تحصیل شکر گڑھ کے سرکاری ہسپتال: 'نرسری وارڈ اور تربیت یافتہ عملے کا نہ ہونا نوزائیدہ بچوں کی اموات کا ایک بڑا سبب ہے'

صبا چوہدری

چک امرو کی پینتیس سالہ شاہین 20 کلومیٹر فاصلہ طے کر کے زچگی کے لئے شکرگڑھ کے ایک نجی ہسپتال آئیں جہاں 20 ہزار روپے فیس کے عوض ان کی نارمل ڈلیوری کی گئی اور دو گھنٹے بعد گھر بھیج دیا گیا۔

شاہین بہت خوش تھیں کہ انہیں زچگی کے لئے آپریشن نہیں کروانا پڑا اور سارا عمل بخیروخوبی انجام پایا۔ تاہم ان کی خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔

جب وہ گھر پہنچیں تو ان کے نومولود بچے کو سانس لینے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ بچے کی جان بچانے کے لئے اہلخانہ اسے 40 کلومیٹر دور نارووال کے سہارا ہسپتال لے گئے جہاں اسے آکسیجن لگائی گئی لیکن بچے نے دم توڑ دیا۔

شاہین کہتی ہیں کہ ''میں زچگی کے لئے نجی ہسپتال اس لیے گئی تھی کہ مجھے وہاں اچھی سہولتیں ملنے کی امید تھی۔ مگر افسوس کہ بچے کا کسی ڈاکٹر نے معائنہ تک نہ کیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہاں نہ تو بچوں کا کوئی ڈاکٹر تھا اور نہ ہی آکسیجن دستیاب تھی۔ اسی لئے انہوں نے ہمیں فوراً ڈسچارج کر دیا۔''

شکرگڑھ شہر کی اکتیس سالہ نازیہ یونس ایک بچے کی ماں ہیں۔ ان کی دوسری زچگی سرکاری ہسپتال میں ہوئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ڈلیوری کے بعد جب وہ ہسپتال سے گھر پہنچیں تو ان کے بچے کی حالت بگڑنے لگی۔ اسے سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ گھر والے اسے فوری طور پر لاہور لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچہ آکسیجن کی شدید کمی کا شکار ہے۔ تاہم کوشش کے باوجود اس کی جان بچائی نہ جا سکی۔

معروف کنسلٹنٹ ڈاکٹر فزا حیدر کہتی ہیں کہ ہسپتالوں میں نرسری وارڈ اور مناسب تعداد میں تربیت یافتہ عملے کا نہ ہونا نوزائیدہ بچوں کی اموات کا ایک بڑا سبب ہے۔

''پیدائش کے فوری بعد بعض بچوں کو آکسیجن، انکیوبیٹر اور وارمر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سے بچوں کو پیدائش کے وقت یرقان ہوتا ہے۔ انہیں فوٹو تھراپی اور بلیو لائٹ تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ہسپتالوں میں نرسری وارڈ اور بچوں کے ڈاکٹر کی موجودگی بہت ضروری ہے۔''

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ہسپتالوں میں نرسری وارڈ کو لازمی قرار دیتا ہے جہاں ایس او پیز کے مطابق آکسیجن، فوٹو تھراپی مشین، سکر مشین، نیبولائزر اور دیگر آلات کی دستیابی یقینی بنائی جانی چاہیئے۔ نرسری میں چائلڈ سپیشلسٹ اور تجربہ کار سٹاف کی موجودگی بھی لازم ہے۔ مگر ان شرائط پر عملدرآمد کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

تحصیل شکرگڑھ کی آبادی سات لاکھ ہے جہاں ہر سرکاری و نجی ہسپتال میں لیبر روم تو موجود ہے لیکن ایک نجی ہسپتال کے علاوہ کہیں بھی نرسری کی سہولت نہیں ہے۔ یہ ہسپتال بھی اس قدر مہنگا ہے کہ عام آدمی اس کا رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

نارووال کی تحصیل ظفر وال کے ہسپتال بھی نرسریوں کے بغیر چل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لیاقت پور تحصیل ہسپتال: 'انتہائی نگہداشت کا یونٹ فعال ہوتا تو جان بچ سکتی تھی'

تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال شکر گڑھ کے ایم ایس ڈاکٹر ریاض کہتے ہیں کہ ''ہمارے ہسپتال میں زچگی کے اوسطاً ماہانہ 210 کیس آتے ہیں۔ ہسپتال میں نرسری کا سامان تو موجود ہے لیکن جگہ نہیں ہے اور سٹاف کی کمی ہے جس کی وجہ سے باقاعدہ وارڈ نہیں بن سکا۔''

اس ہسپتال کی نرس شہزادی نےبتایا کہ نرسری وارڈ نہ ہونے کے باعث وہ زچہ بچہ کو 6 گھنٹے بعد ہی ڈسچارج کر دیتے ہیں۔ اگر کسی بچے کی طبعیت زیادہ خراب ہو تو اسے ڈسٹرکٹ ہسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔

نارووال میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر نوید حیدر تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال شکر گڑھ میں عملے کی کمی کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ہسپتال میں چائلڈ سپیشلسٹ کی تعیناتی عمل میں آ چکی ہے اور نرسری وارڈ بھی جلد کام شروع کر دے گا۔

تاریخ اشاعت 3 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

صبا چوہدری نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ قومی اور بین الاقوامی اشاعتی اداروں کے لیے صنفی موضوعات، انسانی حقوق اور سیاست پر رپورٹ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ارسا ترمیم 2024: مسئلے کا ایک حصہ: محمود نواز شاہ

ارسا (ترمیمی) آرڈیننس 2024 اور اس کے اثرات: نور کاتیار

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال سے فضائی آلودگی میں کتنی کمی آئے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

خیبر پختونخوا: نصاب میں نفرت پڑھا کر محبت نہیں سکھائی جا سکتی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.