تعمیراتی سیکٹر کے 'گرین بلڈنگز' کی طرف آنے کا کیا فائدہ ہو گا؟

postImg

وارث پراچہ

postImg

تعمیراتی سیکٹر کے 'گرین بلڈنگز' کی طرف آنے کا کیا فائدہ ہو گا؟

وارث پراچہ

احمد رضا کھرل، لاہور میں فیض پور انٹر چینج کے قریب طیبہ گارڈن میں رہتے ہیں۔ انہوں نے یہاں پانچ مرلے کا پلاٹ لے کر تین منزلہ مکان بنایا تھا جو گھر کم اور کچن گارڈن زیادہ لگتا ہے۔ برآمدے اور اوپر کے دونوں فلورز کی بالکونیوں میں سجے گملے پھولوں اور سبزی کی بیلوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد 'نیموفلسٹ' یعنی درختوں کے عاشق تھے۔ انہیں بھی صاف ماحول اور سبزہ اچھا لگتا ہے۔

"پندرہ سال پہلے جب گھر بنایا تو اس کے فوراً بعد ہی چھت پر سولر پلیٹیں لگا لی تھیں اور جہاں ممکن ہوا پھول پودے اگا لیے۔ تھوڑی جگہ اور ہوتی تو میں ایک آم اور جامن کا درخت ضرور لگاتا۔"

وہ کہتے ہیں کہ سبزے کی وجہ سے کمروں میں داخل ہوتے ہی فرحت کا احساس ہوتا ہے اور گھر کے درجہ حرارت میں 10 ڈگری تک کا فرق ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنے گھروں کے لیے پودوں اور گرین انرجی کو اہمیت دینا ہو گی ورنہ درخت کاٹ کر عمارتیں بنانے کا شوق شہروں کو ناقابل رہائش بنا دے گا۔

ورلڈ رین فاریسٹس رپورٹ  کے مطابق 2000 ء میں پاکستان کے کل رقبے میں سے 24 لاکھ 18 ہزار 319 ایکڑ (1.3فیصد) اراضی پر جنگلات یا درخت تھے۔ 2020ء تک  ان میں سے تقریباً 23 ہزار 930 ایکڑ ( ایک فیصد) جنگلات ختم ہو چکے تھے۔

اعدادو شمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ نقصان لاہور میں نظر آیا جہاں ان 20 برسوں میں 16.3فیصد درخت کم ہو گئے۔ فیصل آباد میں اس دوران درختوں میں 11.4 فیصد، گوجرانوالہ میں سات اور ملتان میں 1.6 فیصد کمی آئی۔

احمد رضا کھرل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جنگلات پہلے ہی کم تھے، رہی سہی کثر ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے نکال دی ہے جو گھر بنانے کی آڑ میں درخت کاٹ کر ماحول خراب کر رہی ہیں۔ اچھی رہائشی سہولیات دینا ہی مقصود ہے تو سبز عمارتوں (گرین بلڈنگز) کا ماڈل اپنایا جا سکتا ہے۔

گرین بلڈنگ یا سبز عمارت کیا ہے؟

'گرین بلڈنگ' محض وہ عمارت نہیں جس کو ہرا رنگ کیا گیا ہو یا جس پر سبزہ اور ہریالی دکھائی دے رہی ہو۔

امریکی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی  کہتی ہے کہ 'گرین بلڈنگ ڈھانچہ (عمارت کا سٹرکچر) بنانے اور اسے استعمال کرنے کا وہ طریقہ ہے جس میں عمارت کے ڈیزائن سے لے کر تعمیر، تزئین و آرائش اور تعمیر نو تک، ہمیشہ کے لیے ماحول کے لحاظ سے وسائل کا ذمہ دار استعمال کیا گیا ہو۔

"'گرین بلڈنگز کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ اس سے توانائی، پانی اور دیگر وسائل کا استعمال کم لیکن مؤثر ہوتا ہے۔ یہاں رہنے والوں کی صحت کا تحفظ اور ملازمین (کاروباری مرکز کی صورت میں) کی پیداواری صلاحیت میں بہتری یقینی ہوتی ہے جبکہ فضلے اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی آتی ہے۔"

'گرین بلڈنگ' کو پائیدار یا اعلیٰ کارکردگی والی عمارت بھی کہا جاتا ہے۔

یو این کے پروگرام کلائمیٹ ٹیکنالوجی سنٹر اینڈ نیٹ ورک  (سی ٹی سی این) کے مطابق پاکستان میں گرین گیسز کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ انرجی سیکٹر کا رہا ہے جس کا 2018ء میں تخمینہ 44 فیصد لگا یا گیا تھا۔

"تعمیراتی شعبہ دنیا بھر میں زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے اور زیادہ کاربن پیدا کرتا ہے جس کا کاربن کے عالمی اخراج میں حصہ 25 اور 40 فیصد کے درمیان بنتا ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مجموعی عالمی اخراج کا تقریباً آٹھ فیصد سٹیل اور کنکریٹ کی پیداوار سے آتا ہے۔"

اقوام متحدہ کے تعاون سے پاکستان میں گرین بلڈنگز کے حوالے سے اکتوبر 2023ء میں تیار کی جانے والی رپورٹ  کہتی ہے کہ تقریباً 23 کروڑ آبادی ( اس وقت کے اعداد و شمار)  والے اس ملک میں گرین بلڈنگز کی شدید ضرورت ہے جہاں شہر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آبادی کے ساتھ آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے گھروں و تعمیرات کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً اس کے تعمیراتی سیکٹر کی توانائی کھپت 23 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

"پاکستان کا تعمیراتی سیکٹر (رہائشی، تجارتی اور عوامی) دو دہائیوں سے مسلسل فروغ پا رہا ہے جس کی سالانہ کمپاؤنڈ شرح نمو 12.3 فیصد بنتی ہے۔"

گرین بلڈنگ کوڈ کیا ہے

جہاں توانائی کا جتنا زیادہ استعمال ہو گا وہاں سے گرین گیسز کا اتنا ہی زیادہ اخراج ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کے کئی ممالک نے انرجی کا کم سے کم استعمال یقینی بنانے کے لیے بلڈنگ کوڈ (تعمیراتی قوانین) تبدیل کر دیے ہیں یا ان میں شرائط کا اضافہ کر دیا ہے۔

مثال کے طور پر امریکی ریاست ٹیکساس میں 2015ء سے لاگو بلڈنگ کوڈ  (قانون) یہاں تک وضاحت کرتا ہے کہ عمارت کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے رہائش کی تعمیر کے دوران چھت پر لگائے جانے والے میٹیریل کا معیار کیا ہونا چاہیے یعنی اس میں دھوپ یا سورج کی حدت کو منعکس (ریفلیکٹ) کرنے کی کتنی صلاحیت ہو۔

مذکورہ قانون یہاں تک رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ چھت میں انسولیشن ( گرمی یا سردی کا اثر کم کرنے والا میٹیریل ) کی تہہ کتنی ہونی چاہیے۔

پاکستان کا بلڈنگ انرجی کوڈ

قانون کے تحت پاکستان میں بلڈنگ انرجی کوڈز کی تشکیل، پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی)کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اس سے قبل یہاں توانائی کی بچت کی کوششیں نیشنل انرجی کنزرویشن سنٹر نے شروع کی تھیں جو وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی زیرنگرانی یو ایس ایڈ کے تعاون سے بنائی گئی تھی۔

پاکستان کا پہلا انرجی بلڈنگ کوڈ 1990ء میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن 2005ء کے زلزلے کے بعد اس پر نظر ثانی کی گئی۔ تاہم 2023ء میں انجنیئرنگ کونسل نے انٹرنیشنل کوڈ کونسل سمیت ملکی و بین الاقوامی اداروں سے مل کر اپنا بلڈنگ کوڈ جاری کیا تھا۔

پاکستان میں گرین بلڈنگز کی پیشرفت سے متعلق رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں ویسے تو تین قسم کے گھر موجود ہیں جہاں 35 فیصد کچے (زیادہ تر دیہات میں) یعنی گارے مٹی اور سرکنڈہ وغیرہ سے بنے ہوئے ہیں۔ گیارہ فیصد نیم پکے (دیواریں پکی اور چھتیں کچی) جبکہ تقریباً 54 فیصد پکے گھر ہیں۔

دیہات میں بلڈنگ انرجی کوڈ کا نفاذ مشکل ہے البتہ شہروں میں زیادہ بہتر کام کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین انرجی کوڈز سے متعلق سفارش کرتے ہیں کہ گرین بلڈنگ کی تعمیر اور اس میں استعمال ہونے والا تعمیراتی میٹیریل (مواد) پائیدار ہو۔ کول روٖف (ٹھنڈی چھت) کے ساتھ ہیٹنگ (گرم کرنے)، وینٹیلیشن (ہوا گذرنے کا راستہ ) اور ایئر کنڈیشنگ سسٹم میں توانائی کم سے کم استعمال ہونی چاہیے۔

"گرین بلڈنگ کے لیے شمسی پینلز بہت اہمیت رکھتے ہیں جہاں روشنی کے لیے ایل ای ڈی ٹیکنالوجی اور اکوپینسی سینسر کا استعمال ہونا چاہیے۔ عمارت کی کھڑکیاں گرمی اور سردی روکنے کے لیے موثر ہوں۔"

"آٹومیشن کے ساتھ بجلی کی کھپت اور بلڈنگ کی مانیٹرنگ ضروری ہے، پانی کی فٹنگ کا نظام موثر ہونا چاہیے جو آبی وسائل کے تحفظ کو یقینی بنائے۔"

گرین بلڈنگز کو اپنانے میں امریکا کو 'ورلڈ لیڈر' مانا جا تا ہے۔امریکی گرین بلڈنگ کونسل کے "لیڈرشپ ان انرجی اینڈ انوائرمنٹل ڈیزائن" (ایل ای ای ڈی/ لیڈ) پر کامیاب عملدرآمد کی وجہ سے اسے فروغ ملا۔ اب  گرین بلڈنگ کے ضمن میں 'لیڈ' دنیا بھر میں معیار بن چکا ہے۔

گرین بلڈنگز کی تعمیر میں یورپی یونین اور چین کے بعد بھارت میں بھی کسی حد تک پیشرفت ہوئی ہے۔

یورپی یونین نے توانائی کی بچت کے لحاظ عمارتوں کو ' اے' سے 'جی' تک کا لیبل دے رکھا ہے لیکن بہت سے رکن ممالک سی لیبل کے کارکردگی کا میعار ہی اپنا رہے ہیں۔

پاکستان میں گرین بلڈنگز کا کل رقبہ (جسے فی الحال لیڈ سرٹیفائیڈ عمارتیں کہا جاتا ہے) ایک کروڑ ساڑھے 32لاکھ مربع فٹ بنتا ہے جو حوصلہ افزا رحجان ہے۔ ملک میں 2014ء میں صرف 10 لیڈ سرٹیفائیڈ عمارتیں تھیں جو 2023ء میں 60 ہو چکی تھیں۔ ان عمارتوں میں ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس بھی شامل ہیں۔

گرین بلڈنگ کے مالی فوائد

بیشتر سٹڈیز  سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی تعمیر کی نسبت گرین بلڈنگ پر پانچ سے 15 فیصد اضافی اخراجات آتے ہیں جو تین سے پانچ سال میں ہی پے بیک (پورے) ہو جاتے ہیں۔

گرین بلڈنگز کے رہائشیوں کو یوٹیلیٹی بلوں کی مد میں 15 سے 20 فیصد فائدہ ہوتا ہے جبکہ کمرشل سیکٹر میں گرین بلڈنگز بنانے سے یہاں آپریٹنگ اخراجات روایتی عمارت کی نسبت 18 سے 37 فیصد کم ہوتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ عمارت کی چھت اور دیواروں میں صرف انسولیشن (سردی اور گرمی روکنے کا میٹیریل لگانا یا خلا چھوڑنا) سے ہی توانائی کے استعمال میں 29.77 فیصد کمی آتی ہے۔

"پاکستان کی کنسٹرکشن مارکیٹ 79 فیصد رہائشی اور 21 فیصد کمرشل عمارتوں پر مشتمل ہے۔ امکان ہے کہ 2025ء میں پاکستانی ریئل اسٹیٹ کا حجم دو کھرب 90 ارب ( 290 بلین) ڈالر تک پہنچ جائے گا۔"

مالی فوائد کو دیکھا جائے تو گرین بلڈنگز سے پاکستان نہ صرف انرجی کی مد میں اربوں ڈالر بچا سکتا ہے بلکہ کاربن گیسز کے اخراج میں کمی کر کے ماحول کو بھی صاف رکھا جا سکتا ہے۔

عدنان کھتری صحافی ہیں اور ایک عرصے سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی وہاں محکمہ توانائی سے مل کر کام کرتی ہے اور ہر نئے منصوبے کے ماحولیاتی اثرات پر نظر رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

قیمتی جنگل ہاوسنگ سوسائٹی میں تبدیل ہو رہا ہے

"ہمارے ہاں بے شمار نجی ہاؤسنگ سکیمیں جو بظاہر اشرافیہ کے لیے بنائی جاتی ہیں، وہ بھی ماحول دوست نہیں ہیں۔ ایسی عمارتیں تعمیر کی جانی چاہئیں جو سورج کی گرمی کو کم سے کم جذب کریں اور جہاں گھروں میں  اے سی، مائیکرو ویو اوون، واشنگ مشین تک تمام ہوم اپلائنسز سمارٹ اور ایکو فرینڈلی ہوں۔"

ماہر ماحولیات مریم شبیر، سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہائی رائز بلڈنگز کو گرین بلڈنگ بنانا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے۔

وہ تجویز کرتی ہیں کہ پاکستان میں چین کی طرز پر کثیر منزلہ عمارتوں کو رواج دینا چاہیے جس میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہراول دستے کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ حکومت ان کو مراعات دے تو رہائشی منصوبوں کو گرین بلڈنگز میں بدلا جا سکتا ہے۔

"ہاوسنگ سکیموں میں شجرکاری اور ماحول دوست ہائی رائز بلڈنگز کے ہر اپارٹمنٹ میں پودے لگا کر درجہ حرارت کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسی تعمیرات کو قصبوں تک میں لاگو کیا جا نا چاہیے جس کے لیے عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے۔"

ہارٹیکلچر کی ماہر ماریہ عبید بتاتی ہیں کہ دنیا میں لوگ گھروں کے ساتھ ملٹی سٹوری فلیٹس میں بھی کچن گارڈننگ کرتے ہیں مگر یہ ہر آدمی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔

"گھروں میں ایسے پودے لگانے چاہئیں جو ہمارے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں۔ سدا بہار، چمپا، سیاہ جیٹروپا، پیپسیکن اور کروٹن ایسے پودے ہیں جو پورا سال پھولوں سے لدے رہتے ہیں۔ دیسی سدا بہار پر دو رنگوں جبکہ امپورٹڈ پر 18 رنگوں کے پھول  کھلتے ہیں۔"

گرین بلڈنگز میں پیشرفت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بلڈنگ انرجی کوڈز پر وزارت موسمیاتی تبدیلی کام کر رہی ہے تاہم یہاں گرین بلڈنگز کے طریقوں کو اپنانے میں کئی رکاوٹیں ہیں جن میں زیادہ ابتدائی لاگت، پائیدار تعمیراتی مواد تک محدود رسائی اور ہنر مند لیبر کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔

"یہاں ماحول دوست عمارتوں کے فروغ کے لیے ریگولیٹری فریم ورک یعنی انرجی کوڈز کی تیاری، عوامی بیداری، پائیدار مواد تک رسائی اور لیبر کی تربیت سمیت کئی کوششیں کرنا ہوں گی۔"

رپورٹ کہتی ہے کہ گرین بلڈنگز کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے مالی مراعات اور نچلی سطح تک کوڈزکے نفاذ کی نگرانی کرنا ہو گی۔ اس میں مقامی حکومت کی شمولیت اہم ہوگی۔

تاریخ اشاعت 30 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.