سینگل میں بجلی کی سہولت صرف برائے نام موجود ہے حالانکہ اس کے آس پاس ایک نہیں بلکہ تین بجلی گھر موجود ہیں۔ اس گاؤں میں چوبیس گھنٹوں میں سے تقریباً چار گھنٹے بجلی آتی ہے اور اس کی وولٹیج اتنی کم ہوتی ہے کہ اس سے کپڑے دھونے کی مشینیں اور دوسرے برقی آلات نہیں چلائے جا سکتے۔
سینگل گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں گلگت-چترال شاہراہ پر واقع ہے۔ حال ہی میں اس کے پہلو سے گزرنے والے قدرتی نالے پر ڈیڑھ میگا واٹ کا ایک نیا بجلی گھر بنایا گیا ہے لیکن اس کے فعال ہونے کے باوجود یہاں بجلی کی فراہمی کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ اس نالے پر پہلے بھی دو بجلی گھر قائم ہیں (جن میں سے ایک کسی فنی خرابی کی وجہ سے غیر فعال ہے) لیکن جب نئے بجلی گھر کی تعمیر شروع ہوئی تو مقامی لوگوں میں امید پیدا ہوئی کہ اب انہیں چوبیس گھنٹے بجلی ملا کرے گی۔ تاہم ان کی توقع کے برعکس یہ منصوبہ ان کے لیے فائدے کا باعث بننے کے بجائے ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے نالے کا رخ موڑ کر ان کی زرعی زمینوں کو پانی سے محروم کر دیا گیا ہے۔
اس صورت حال سے پریشان مقامی لوگوں نے بجلی گھر کے فعال ہونے کے فوراً بعد ہی احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 8 جنوری 2022 کو وہ بڑی تعداد میں اس کے سامنے جمع ہوئے اور اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے لگے۔ ان کے احتجاج کے دوران سرکاری انتظامیہ نے ان کے نمائندوں سے مذاکرات بھی کیے لیکن ان کے بے نتیجہ رہنے کے بعد مظاہرین نے خود کارروائی کرتے ہوئے پانی کا رخ بجلی گھر سے واپس اپنی زمینوں کی جانب موڑ دیا جس سے بجلی کی پیداوار رک گئی۔
مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیاں طے پانے والا معاہدہ۔
اس احتجاج کے تیسرے دن گلگت ڈویژن کے کمشنر وقار احمد کی سربراہی میں انتظامیہ نے مظاہرین کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیے جن کے بعد انہیں ان کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کی تحریری یقین دہانی کرائی گئی۔ لیکن ابھی مظاہرین نے اپنا احتجاجی کیمپ پوری طرح سمیٹا بھی نہیں تھا کہ مقامی پولیس نے اس میں موجود سات افراد کے خلاف توڑ پھوڑ، کار سرکار میں مداخلت اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
نتیجتاً مظاہرین نے احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ موخر کرتے ہوئے ایک قریبی پولو گراؤنڈ میں دھرنا دے دیا۔ اس دھرنے میں ہر طبقے اور ہر عمر سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگوں نے شرکت کی۔ اس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی جن کی پڑھائی میں متوقع حرج کے پیش نظر منتظمین نے انہیں مفت ٹیوشن اور انٹرنیٹ جیسی تدریسی سہولیات بھی مہیا کیں اور اپنے احتجاج کو بھی 'فکری نشست' کا نام دے دیا۔ اس دھرنے میں موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ مقدمے کا اندراج سراسر ناانصافی ہے۔
مقدمے کا سامنا کرنے والوں میں شامل 75 سالہ نظرب خان بھی یہی کہتے ہیں۔ وہ سینگل میں مڈل تک تعلیم حاصل کرنے والے پہلے فرد ہیں لیکن کوئی نوکری کرنے کے بجائے وہ مال مویشی پال کر روزی کماتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "مظاہرین نے نہ تو کوئی سڑک بند کی اور نہ ہی کسی طرح کی توڑپھوڑ میں ملوث ہوئے'' بلکہ انہوں نے انتہائی پرامن طریقے سے اپنے مطالبے حکومت کے سامنے رکھے۔
سینگل اور اس کے نواحی علاقے سے منتخب ہونے والے گلگت بلتستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈوکیٹ بھی نظرب خان کی بات کی توثیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں نے اپنے اظہار رائے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے پرامن طریقے سے اپنے مطالبات پیش کیے۔ اس لیے، ان کے مطابق، ''ان مظاہرین کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کا استعمال ان کی آواز چھیننے کے مترادف ہے''۔
تاہم پولو گراؤنڈ میں دیے گئے دھرنے کے تیسرے روز انتظامیہ نے مظاہرین کے نمائندوں سے دوبارہ مذاکرات کیے اور مقدمہ واپس لے لیا۔ جواب میں مظاہرین نے احتجاج ختم کرتے ہوئے بجلی گھر کا پانی بحال کر دیا۔
مظاہرین نے سینگل کے پولو گراونڈ میں پرامن احتجاج کیا۔
رواج بمقابلہ قانون
گلگت بلتستان میں بہت سے معاشی اور معاشرتی امور پرانے وقتوں سے رائج مقامی قوانین کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ ان میں پانی کی تقسیم اور مشترکہ زمینوں کا چراگاہوں کے طور پر استعمال بھی شامل ہیں۔ ان قوانین کے تحت بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے استعمال کیے گئے نالے کا پانی گلگت بلتستان میں راجاؤں کے دور حکومت سے ہی مقامی لوگوں کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ سینگل کے رہنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے آبا و اجداد نے وادی پونیال کے راجہ کو مالیہ ادا کر کے اس پانی کی ملکیت حاصل کی تھی لہٰذا اس پر ان کا حق فائق ہے۔
اسی گاؤں کے رہنے والے عنایت بیگ مقامی لوگوں کے قانونی حقوق کے لیے سوشل میڈیا پر آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اس علاقے میں رواجی قوانین کی حیثیت مسلم ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ انہی قوانین کے تحت مقامی لوگوں نے نالے کا پانی خریدا تھا جسے ان سے چھینا نہیں جا سکتا''۔
لیکن ان حقوق کو نظر انداز کر کے 17-2016 میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دور حکومت میں گلگت بلتستان کی آٹھ لاکھ کنال بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے اقوام متحدہ سے منسلک ادارے انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈویلپمنٹ کے تعاون سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت سینگل کے پاس بہنے والے نالے کا رخ تبدیل کر کے اسے بنجر زمینوں کی طرف موڑا گیا اور اس پر بجلی گھر بھی بنائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں
مہمند کے پتھر پیسنے کے کارخانوں میں مہلک گرد کے شکار مزدور: کسی کو بہرِسماعت نہ وقت ہے نہ دماغ۔
مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ نالے کے پانی پر ان کی ملکیت تسلیم کی جائے اور بجلی کی تقسیم کا فارمولا بناتے وقت سینگل اور اس کے قریبی دیہات کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ ان کے احتجاج کے نتیجے میں ان کے یہ مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں اور سرکاری انتظامیہ کے ساتھ طے پانے والے ان کے معاہدے کی رو سے انہیں یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ مقامی بجلی گھروں میں گریڈ ایک سے پانچ تک کی تمام اسامیوں پر مقامی لوگ ہی بھرتی کیے جائیں گے۔
اگرچہ سینگل کے باسی اس معاہدے سے مطمئن ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کی خلاف ورزی کی صورت میں وہ دوبارہ احتجاج شروع کر دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے 30 سالہ ٹیکسی ڈرائیور محمد نعیم، جو اپنا کام کاج چھوڑ کر مظاہروں میں شریک رہے ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ معاہدے پر عملدرآمد سے ان کی بجلی اور پانی کی ضروریات پوری ہو جائیں گی لیکن ساتھ ہی وہ خبردار کرتے ہیں کہ "اگر حکومت اس معاہدے سے منحرف ہوئی تو ہم دھرنا دے کر گلگت چترال روڑ کو اس وقت تک بند کر دیں گے جب تک ہمیں ہمارا حق نہیں مل جاتا''۔
تاریخ اشاعت 14 فروری 2022