دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

postImg

فہیم اختر

postImg

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

فہیم اختر

سہیل احمد، گلگت بلتستان (جی بی) کے ضلع دیامر میں واقع گاؤں 'داریل کھنبری' کے رہائشی  اور ٹمبر کی خریدو فروخت کا کام کرتے ہیں۔ وہ یہاں مقامی کاشتکاروں و زمینداروں پر مشتمل کمیونٹیز سے درخت خریدتے ہیں اور لکڑی ملک کے مختلف شہروں میں بیچتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات جی بی نے دیامر کے لیے 2013ء میں ایک ورکنگ پلان دیا تھا جس کے تحت جنگل مالکان کو اپنے نجی جنگلات سے سرکاری قوانین و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے لکڑی(ٹمبر) کاٹنے کی اجازت دی گئی تھی۔

"ہم نے جنگل سے لکڑی کاٹنے کے لیے باضابطہ سرکاری فیس جمع کرائی اور محکمہ جنگلات سے 50 ہزار سی ایف ٹی(کیوبک فٹ) دیار کی کٹائی کا اجازت نامہ حاصل کیا۔درخت کاٹ لیے تو اس کی فروخت و ترسیل سے پہلے ہی حکومت نے مذکورہ ورکنگ پلان پر عملدرآمد روک دیا۔"

اب ٹمبر کا کٹا ہوا سٹاک پڑا ہے اور سہیل احمد اسے بیچنے کے لیے 11 سال سے حکومتی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔

"یہی ہماری روزی روٹی ہے۔ ہم کئی بار حکومت اور محکمہ جنگلات کو درخواستیں دے چکے ہیں مگر کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ ضلعے سے باہر ٹمبر کی ترسیل کا معاملہ تعطل کا شکار ہے جس سے ہمارا مسلسل نقصان ہورہا ہے۔"

صرف سہیل احمد ہی نہیں اس ضلعے کے درجنوں کاشت کار اور ٹمبر کے تاجر یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف اگر ٹمبر کی کٹائی کا قانونی طریقہ کار طے نہ ہو یا ترسیل کی اجازت نہ ملے تو اصول و قواعد کے برعکس درختوں کی اندھا دھند کٹائی ہوتی ہے جس کی ترسیل کا محکمہ جنگلات کے پاس ریکارڈ بھی نہیں ہوتا۔

جی بی کے جنگلات اور ورکنگ پلان

محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و ماحولیات کی سرکاری ویب سائٹ  کے مطابق گلگت بلتستان کا کل رقبہ 69 ہزار 683 مربع کلو میٹر ہے جس میں سے دو ہزار 492 مربع کلو میٹر(3.58 فیصد) علاقے میں قدرتی جنگلات ہیں جبکہ لگ بھگ 427 مربع کلومیٹر اراضی پر باغات اور مصنوعی جنگل یا درخت لگائے گئے ہیں۔

یوں مجموعی طور پر جی بی کا 4.1 فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔

جی بی کے قدرتی جنگلات میں سے 71 فیصد نجی ملکیت ہیں مگر ان کا انتظام و نگرانی (مینیجمنٹ) بھی پہلے 1952ء کے معاہدے (الحاق پاکستان) اور اب جی بی فاریسٹ ایکٹ 2019 کے تحت محکمہ جنگلات کے سپرد کی گئی ہے۔

سرکار کی ملکیت جنگلات 'محفوظ علاقے' قرار دیے گئے ہیں جہاں مالکانہ حقوق صرف حکومت کے پاس ہیں لیکن یہاں کے مقامی رہائشیوں کو قانون کے تحت کچھ حقوق اور رعایتیں (ایندھن کی لکڑی لینا، جانور چرانا وغیرہ ) دی گئی ہیں۔

جی بی کے نجی جنگلات کا انتظام بھی محکمہ جنگلات کے پاس ہے جو یہاں سے ٹمبر کی کٹائی یا درختوں کی کاٹ چھانٹ وغیرہ کے لیے مختلف اوقات میں قانونی طریقہ کار اور ضوابط تشکیل دیتا ہے جسے 'فاریسٹ ورکنگ پلان' کہا جاتا ہے۔

فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ جی بی کے مطابق جنگلات کے ضلع وار تناسب کو دیکھا جائے تو دیامر کے جنگلات صوبے کے مجموعی جنگلاتی وسائل کا 30 فیصد بنتے ہیں جو تمام کے تمام (100 فیصد) نجی ملکیت ہیں۔

 دیامر، گلگت بلتستان کا بڑا ضلع ہے، یہ مشرق میں خیبرپختونخواہ کے ضلع اپر کوہستان جبکہ مغرب میں ضلع گلگت سے ملتا ہے۔ 1952ء میں اس ضلعے کے دو سب ڈویژنوں داریل اور تانگیر کے جنگلات کو عوامی قرار دے کر ان کا انتظام محکمہ جنگلات کے سپرد کیا گیا تھا۔

تاہم 1970ء میں پورے ضلع دیامر کو محکمہ جنگلات کے دائرہ اختیار میں دے دیا گیا اور 1993ء میں حکومت نے یہاں جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔

بار بار نئے ورکنگ پلانز اور معطلی

وفاقی حکومت نے جی بی میں نجی جنگلات سے لکڑی کاٹنے کے لیے 2000ء میں پہلی بار فاریسٹ ورکنگ پلان متعارف کرایا جو 10 برس کے لیے تھا لیکن محض دو سال بعد ہی پلان پر کام روک دیا گیا۔ اس وقت جی بی میں محکمہ جنگلات براہ راست وفاقی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی نگرانی میں کام کر رہا تھا۔

گلگت بلتستان کو جب صوبائی حیثیت (امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر جی بی 2009ء) دی گئی تو جنگلات کا شعبہ 'جی بی کونسل' کے سپرد کر دیا گیا۔ جس میں چھ ارکان کی نامزدگی کا اختیار جی بی اسمبلی اور چھ کا انتخاب وزیراعظم پاکستان کی صوابدید پر چھوڑا گیا جو کونسل کے سربراہ اور چیئرمین بھی تھے۔

دیامر کے لیے 2013ء میں ایک نئے ورکنگ پلان کی منظوری دی گئی مگر اس پر بھی عمل نہ ہو سکا۔

لوک سجاگ کے پاس دستیاب سرکاری دستاویز(سیکرٹری جنگلات کی وزیراعلیٰ جی بی کو بھیجی گئی سمری) بتاتی ہیں کہ 19 مئی 2016 کو سابقہ ورکنگ پلان پر نظرثانی کر کے اس کی جی بی کونسل سے دوبارہ منظوری لی گئی جس میں پلان کی مدت دس سے بڑھا کر 30 سال کر دی گئی۔

اس ورکنگ پلان میں طے کیا گیا کہ جب تک پہلے سے کٹی ہوئی قانونی یا غیر قانونی لکڑی کو ٹھکانے نہ لگا لیا جائے تب تک نئے درخت نہیں کاٹے جائیں گے۔

ٹمبر (تعمیراتی لکڑی) سے مستفید ہونے والوں کو جنگل میں دوبارہ درخت لگانے کا بھی پابند بنا دیا گیا۔

اگرچہ دستاویز میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2017ء اور 2020ء کے درمیان بیشتر قانونی اور غیر قانونی ٹمبر ٹھکانے لگا دی گئی تھی تاہم سہیل احمد اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دوران ٹمبر کی نقل و حمل ہی نہیں ہوئی تھی۔

اسی اثنا میں وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان گورنمنٹ آرڈر 2018ءکے نفاذ کا اعلان کردیا جس کے تحت فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری جی بی کونسل سے گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل ہو گئی۔

جی بی اسمبلی نے 2020ء میں جنگلات کی دیکھ بھال کے لیے فاریسٹ ایکٹ منظور کیا جس میں طے گیا گیا کہ حکومت کو سرکاری یا پرائیویٹ جنگلات سے غیرقانونی طور پر کاٹی گئی لکڑی پر معافی(کسی قسم کی ایمنسٹی سکیم) دینے کا کوئی اختیار نہیں ہو گا۔

اس قانون کے مطابق غیر قانونی طور کاٹی گئی لکڑی حکومت اپنے قبضے میں لےکر اسے تلف کرے گی یا آگ لگادے گی۔ اس موقع پر ڈویژنل فاریسٹ آفیسر یا کم از کم گریڈ 17 کا افسر لازمی موجود رہے گا۔

وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن(20-2015ء) اور خالد خورشید (23-2020ء) کے ادوار حکومت میں بھی ورکنگ پلانز کی منظوری دیدی گئی مگر محکمہ جنگلات کے اعتراضات کے باعث ان پر عمل نہ ہوسکا۔

 سنگین خامیوں سے بھرپور پلان، جنگل کٹائی کا منصوبہ

وزیراعلیٰ خالد خورشید کے دور میں جب ورکنگ پلان پر کام ہو رہا تھا تو اس وقت کے فاریسٹ سیکرٹری سمیر احمد سید نے وزیراعلیٰ کو سمری بھیجی تھی جس میں ورکنگ پلان کے لیے جنگلات کا 90ء کی دہائی کا ڈیٹا استعمال کرنے کی شدید مخالفت کی گئی تھی اور اس پلان میں لگ بھگ 18 سنگین خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

انہوں نے وزیراعلیٰ کو لکھا تھا کہ دیامر کے جنگلات کے ایک تہائی صدی پرانے اعداد و شمار آج درست نہیں ہو سکتے ہیں لہٰذا جنگلات کی سائنسی بنیادوں پر دوبارہ اسیسمنٹ کی ضرورت ہے۔

"پلان میں جنگلات کی بڑھوتری کی شرح 1.4 فیصد ظاہر کی گئی ہے جبکہ کٹائی کےلیے شرح 14 فیصد رکھی گئی ہے جو جنگلات کے تحفظ اور ماحولیاتی اصولوں کے خلاف ہے۔"

انہوں نے واضح کیا تھا کہ مجوزہ پلان پر عملدرآمد سے تین لاکھ 25 ہزار بالغ درخت کاٹے جائیں گے جس سے نا صرف قومی اور عالمی میڈیا میں چیخ و پکار مچ جا ئے گی بلکہ یہ پلان پاکستان کے ماحولیاتی اہداف اور بین الاقوامی وعدوں کے بھی برعکس ہوگا۔

تاہم موجودہ وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان جو خود دیامر کے رہائشی ہیں کی حکومت نے مقامی لوگوں کے اصرار پر تین نومبر 2024ء کو پھر ایک ایسے فاریسٹ ورکنگ پلان کی منظوری دے دی ہے جس پر سابق سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات کے تمام اعتراضات برقرار ہیں۔

وزیراعلیٰ کے ترجمان فیض اللہ فراق کا دعویٰ ہے کہ یہ(ورکنگ پلان) جنگلات کو بچانے کا پلان ہے۔ صرف وہی درخت کٹے گا جو فطری عمر پوری کر چکا ہے اور اس کٹائی کی اجازت بھی باقاعدہ سروے کے بعد دی جائے گی۔

انہوں نے جنگلات کے اعدادو شمار پر سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا تاہم اس توقع کا اظہار کیا کہ دیامر کے لوگوں کی دیرینہ خواہش کے مطابق بہت جلد فاریسٹ ورکنگ پلان پر عملدرآمد اور ٹمبر کی ترسیل کا عمل شروع ہوگا۔

سید عبدالوحید، جی بی کے سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ قدرتی آفات، غیر قانونی کٹائی، آگ لگنے کے واقعات اور خشک سالی کے باعث جنگلات میں جہاں کمی آئی ہے وہیں قدرتی عمل اور بڑے پیمانے پر شجرکاری کے نتیجے میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جنگلات میں کمی اور اضافے کی شرح کو ماپنا یا دوبارہ اسیسمنٹ ناگزیر ہے۔

 وہ بتاتے ہیں کہ دیامر میں لگ بھگ 345 کمپارٹمنٹس (وہ جنگل یا شجرکاری کا مسلسل علاقہ جس کے اطراف خالی رقبہ، ندی،سڑک یا پہاڑ حدود بناتے ہوں) کی نشاندہی ہوئی ہے جہاں درختوں کا معیار اور فی ایکڑ تعداد مقررہ اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہاں کٹائی کی اجازت نہیں ہو گی۔

"ہم نے مرحلہ وار کمپارٹمنٹس میں درختوں کے پرانے اور نئے حجم کے اعدادوشمار تقابلی جائزے کے ساتھ پیش کردیے ہیں۔ کٹائی کی حتمی منظوری کابینہ دیتی ہے تاہم جہاں سابقہ اور نئے حجم میں 30 فیصد سے زیادہ فرق آئے گا اس جنگل کو پلان میں شامل نہیں کیا جائے گا۔"

وہ کہتے ہیں کہ جس جنگل میں کٹائی کی اجازت ملے گی وہاں متعلقہ ڈسٹرکٹ فاریسٹ افسر موجود ہوں گے جو طے شدہ شرح کے مطابق ہی درخت کاٹنے کی اجازت دیں گے۔ کہیں ضرورت پڑی تو وہاں تصدیق کےلیے دوبارہ ٹیم بھیج دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آزاد کشمیر کے سرسبز جنگلات کا تیزی سے خاتمہ

ان کا کہنا تھا کہ دیامر میں پہلے سے کٹی ہوئی پانچ لاکھ کیوبک فٹ (سی ایف ٹی) ٹمبر موجود ہے جس میں سے ابھی تک قانونی یا غیر قانونی مقدار کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکا۔ تاہم اندازہ یہی ہے کہ اس میں غیر قانونی لکڑی زیادہ ہوگی۔

"ترسیل کی منظوری ملنے کی صورت میں سب سے پہلے ٹھیکیدار کو ٹمبر کا حصہ دیا جائے گا جو انہوں نے عوام سے خریدی ہے۔ اس ٹمبر کو بھی جنگل (متعلقہ کمپارٹمنٹ)کی شرح میں شمار کرلیا جائے گا۔"

حکومت سے پہلے نجی جنگلات کے تحفظ کا نظام

ڈاکٹر عبدالسلام، دیامر کی وادی داریل کے علاقے منیکال کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1993ء سے پہلے ضلعے میں گاؤں کی سطح پر نوجوانوں کی کمیٹیاں بنی ہوئی تھیں جن کا کام جنگل کی دیکھ بھال کرنا ہوتا تھا۔

 "یہ نظام اتنا موثر تھا کہ اگر کوئی حقدار ( جنگل کا حصے دار) بھی بغیر اجازت درخت کاٹتا تھا تو اس پر جرمانہ کیا جاتا تھا جو اسے ہر حال میں ادا کرنا پڑتا تھا۔ یہ کمیٹیاں صرف جنگل کی کٹائی ہی نہیں بلکہ گھاس چرائی، شکار، مال مویشی اور ایندھن تک کے معاملات دیکھتی تھیں۔"

"کمیٹیوں کی زیرنگرانی درختوں کی کٹائی کا پورے گاؤں کو فائدہ ہوتا تھا اور سب کو آمدنی سے حصہ ملتا تھا۔ لیکن جنگل سے تعمیراتی لکڑی کاٹنے پر حکومتی پابندی کے بعد یہ کمیٹیاں غیر فعال ہو گئیں۔"

ان کہ کہنا ہے کہ مقامی کمیٹیاں ختم ہونے کا فائدہ ٹمبر مافیا کو ہوا اور غیر قانونی کٹائی شروع ہوگئی۔ اب جو بھی صحتمند درخت نظر آتا ہے کاٹ لیا جاتا ہے جبکہ متعلقہ محکمہ کے پاس اتنی افرادی قوت ہی نہیں کہ جنگلات کی درست نگرانی کر سکے۔

تاہم قدیم روایات کے باعث آج بھی مقامی طور پر ایسی جگہ سے کٹائی پر مکمل پابندی ہے جہاں درخت سیلاب و قدرتی آفات کا روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 9 جنوری 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فہیم اختر گلگت بلتستان کے مقامی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے میڈیا اور کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.