گلگت بلتستان میں آٹے کی راشن بندی میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟

postImg

کرن قاسم

postImg

گلگت بلتستان میں آٹے کی راشن بندی میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟

کرن قاسم

پریشان حال آصفہ علی مسلسل اپنے دوپٹے کے پلُو سے اپنے آنسو صاف کر رہی ہیں۔ انہیں یہ پریشانی کھائے جا رہی ہے کہ ہر ماہ دو بار ملنے والے 20 کلوگرام آٹے کے تھیلے سے وہ کیسے اپنے گھر کے 11 افراد کی ضروریات پورا کر پائیں گی؟

گیارہ سال قبل جب آصفہ کے شوہر کا انتقال ہوا تو اس وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔ جب سے وہ اپنے آٹھ بچوں، ساس اور سسر کی کفالت کر رہی ہیں۔ وہ ایک مقامی نجی سکول میں ’خالہ‘ کی پوسٹ پر کام کرتی ہیں جس سے ملنے والے قلیل تنخواہ پر اس کنبے کا انحصار ہے۔

گلگت شہر کے مجینی محلہ کی رہائشی آصفہ کو گذشتہ ایک سال سے گلگت بلتستان کے لیے مختص کوٹے کا آٹا بر وقت نہیں مل رہا۔ ان کے مطابق محکمہ خوراک کی جانب سے مقرر کردہ آٹا ڈیلر ہر پندھرواڑے 20 کلوگرام کا تھیلہ تھما دیتے ہیں ’’وہ بھی بعض اوقات کڑی دھوپ اور بعض اوقات شدید سردی میں لمبی قطاروں میں کئی گھنٹے انتظار کے بعد۔‘‘

گلگت شہر کے علاقہ جوٹیال کے باسی شیر نبی کہتے ہیں کہ پہلے انہیں ہر ماہ 80 کلو سبسڈائزڈ آٹا ملتا تھا جسے گھٹا کر اب 40 کلو کر دیا گیا ہے جو ان کی گھریلو ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔

"فی خاندان آٹے کی فراہمی نصف کر دی گئی ہے"

گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کا آغاز 1972ء میں ہوا جس کا اعلان اس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ لیکن پچھلی تقربیاً ایک دہائی سے اس نے تنازع کی سی صورت اختیار کر لی ہے جس میں آئے روز شدت آتی جا رہی ہے۔
وفاقی وزراتِ امورِ کشمیر اور گلگت بلتستان کے ایک اہلکار کے مطابق دور افتادہ علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ سبسڈی دراصل ٹرانسپورٹ پر دی گئی تھی۔ ’’اس طرح ڈیڑھ لاکھ ٹن سالانہ گندم کا کوٹہ گلگت بلتستان کے لیے مختص کر دیا گیا جو انہیں اُسی ریٹ پر دیا جاتا تھا جس ریٹ پر پنجاب کی آٹے کی مِلوں کو دیا جاتا تھا۔‘‘

سنہ 2000ء تک گللگت بلتستان کے باشندوں کو گندم آٹھ روپے فی کلو کے حساب سے دی جاتی رہی جبکہ پنجاب میں آٹے کی مِلوں کے لیے بھی یہی نرخ مقرر تھا۔ لیکن 2010ء-2011 ء تک گندم کا نرخ بڑھتے بڑھتے 24.37 روپے فی کلو تک جا پہنچا لیکن گلگت بلتستان میں اس کی فی کلو قیمت آٹھ روپے ہی رہی۔

یہی وجہ ہے کہ 2012ء میں وزارتِ امورِ کشمیر اور گلگت بلتستان نے فی کلو گندم کا ریٹ آٹھ روپے سے بڑھا کر 11 روپے کر دیا گیا اور دو سال بعد اسے 14 روپے فی کلو کر دیا۔

سال 2014ء میں ہی حکومت نے گندم کے نرخ میں مزید دو روپے فی کلو اضافہ کا اعلان کیا تو لوگ چُپ نہ رہے اور اسی سال اپریل کے مہینے میں گلگت بھر میں عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت احتجاجوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔

عوامی ایکشن کمیٹی تحریک میں تمام مکاتب فکر، سیاسی جماعتوں اور حتیٰ کہ ماضی میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی فرقہ ورانہ تنظمیوں نے بھی ایک پلیٹ سے حصہ لیا۔

یہ احتحاج اتنے مؤثر تھے کہ وفاقی حکومت کو گندم کا ریٹ دوبارہ 11 روپے فی کلو پر لانا پڑ گیا۔ سنہ 2014ء میں وفاقی حکومت کو گندم کی سبسڈی کی مد میں پانچ ارب روپے سالانہ دینا پڑتے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دورِ حکومت میں گلگت بلتستان کے لیے گندم کی سبسڈی کے لیے آٹھ ارب روپے مختص کر رکھے تھے لیکن گذشتہ سال اپریل میں قومی اسمبلی میں عدمِ اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں بننے والے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی مخلوط حکومت نے اپنی حکومت کے قیام کے ایک ماہ بعد ہی اس سبسڈی کو نصف کر دیا۔

اس کی وجہ سے ایک بار پھر گلگت بلتستان کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہروں کا  سلسلہ چل نکلا جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کو سبسڈی کو چھ ارب روپے سالانہ کرنا پڑا۔

اس طرح گللگت بلتستان کو ہر ماہ آٹھ ہزار 582 بوری کم دی جانے لگی جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں مطلوبہ ضرورت سے 34 لاکھ 32 ہزار کلو آٹے کا ماہانہ کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیر نبی کہتے ہیں کہ پہلے انہیں سبسڈائزڈ ریٹ پر ہر ماہ 80 کلو آٹا ملتا جو اب گھٹ کر 40 کلو پر آ گیا ہے۔

جوٹیال کے آٹا ڈیلر شبیر شاہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے انہیں 200 افراد کی لسٹ دی گئی ہے جنہیں ہر ماہ رعایتی نرخ پر آٹا دیا جاتا ہے ’’لیکن مجھے ہر ماہ حکومت کے سول سپلائی کے ادارے کی طرف سے 20 کلو کے صرف 180 تھیلے ملتے ہیں۔ میں باقی ماندہ 20 افراد کو رعایتی آٹا کہاں سے دوں؟‘‘

گلگت بلتستان کے محکمہ خوراک میں تعینات فوڈ ڈائریکٹر اکرام محمد کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے مطابق 1972ء میں جب یہ سبسڈی شروع کی گئی تو گلگت بلتستان کی آبادی چھ لاکھ سے بھی کم تھی اور 2017ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً 15 لاکھ ہے۔

"گلگت بلتستان میں سالانہ تقریباً دو لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن گندم کی طلب ہے لیکن فی الوقت وفاقی حکومت ہمیں سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار میٹرک ٹن گندم فراہم کی جارہی ہے۔اس طرح ہمیں تقربیاً سالانہ 70 ہزار میٹرک ٹن گندم (تقریباً 32 فی صد) کی کمی کا سامنا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں گندم پر سبسڈی کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ ٹرانسپورٹ کی مد میں اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے گندم کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے ’’جس کو کچھ لوگ غلط رنگ دے رہے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ بھی گندم کے نرخ میں اضافہ کا ایک اہم محرک ہے۔

’’مثال کے طور پر کچھ ماہ قبل پنجاب سے گندم کے ٹرک کا کرایہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے تھا جو اب ایک لاکھ 50 ہزار تک جا پہنچا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں رعایتی نرخ پر آنے والی گندم کو مقامی آٹے کی مِلوں میں پیس کر ڈھائی ہزار آٹا ڈیلروں کے ذریعہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ ’’اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے ڈیلر شپ ختم کر کے پورے گلگت بلتستان میں 170 سیل پوائنٹ قائم کیے جائیں گے جس سے سبسڈائزڈ آٹے کی ترسیل میں شفافیت آئے گی اور ہر گھرانے کو آٹا وقت پر ملے گا۔‘‘

آٹا کہاں جا رہا ہے؟

گندم سبسڈی میں کٹوتی کے حوالے سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے امور کے وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت نے مشکل معاشی صورتِ حال کے باوجود گندم سبسڈی کی مد میں گلگت بلتستان کی گرانٹ میں دو ارب کا اضافہ کیا ہے۔

دلچسپی کی بات ہے کہ وفاقی وزیر دو ارب روپے اضافہ کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اسی گرانٹ میں چار ارب روپے کٹوتی کی بات کو گول کر جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گندم کی خریداری میں سرگرم ذخیرہ اندوز: ملک کے اندر آٹے کی قیمتوں میں آضافے کا خدشہ۔

کائرہ کہتے ہیں کہ سبسڈی کا آٹا مافیا کے ہاتھوں لگ چکا ہے جس کے باعث نہ عوام کو بر وقت آٹا دستیاب ہو رہا ہے اور نہ اچھی کوالٹی کا آٹا مل رہا ہے۔

گلگت بلتستان کے محکمہ خوراک کے اعداد و شمار قمر زمان کائرہ کے اس الزام کو تقویت دیتے ہیں۔

ان اعداد و شمار کے مطابق گندم کی طلب اور رسد 32 فیصد کا فرق ہے لیکن آصفہ علی اور شیر نبی جیسے شہریوں کے کوٹے میں 50 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ باقی ماندہ 18 فیصد آٹا کہاں جاتا ہے؟

دوسری طرف گلگت بلتستان حکومت کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے گندم کی سبسڈی میں کٹوتی کی گئی ہے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ ’’اگر ہماری حکومت کے ساتھ یہ رویہ جاری رہا تو رمضان المبارک کے مہینے میں یہاں مکمل قحط پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘

شاید اسی خدشہ کے مدِ نظر رکھتے ہوئے اس سال ماہِ رمضان کے آغاز سے دو روز قبل وفاقی کابینہ کی اکنامک کوارڈینیشن کمیٹی نے گلگت بلتستان کو مارچ اور اپریل کے مہینے کے لیے 25 ہزار میٹرک ٹن گندم کی منظوری دی ہے۔

تاریخ اشاعت 29 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کرن قاسم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ گزشتہ 11 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.