اوائلِ جوانی سے کھیتی باڑی کرنے والے 60 سالہ عظمت شیر کا کہنا ہے کہ پچھلی چار دہائیوں میں دورانِ کاشت کاری انہیں کبھی بھی اتنی مشکلات کا سامنا نہیں ہوا جتنا انہیں اس سال کرنا پڑا ہے۔
وہ شغالی بالا نامی دیہی علاقے میں رہتے ہیں جو پشاور سے شمال کی جانب وارسک ڈیم کو جانے والی سڑک کے ساتھ واقع ہے۔ ان کے مطابق نومبر 2021 میں جب انہوں نے اپنی چار ایکڑ زمین پر گندم کی فصل کاشت کرنا شروع کی تو انہیں اس کے لیے مطلوبہ مقدار میں نہ تو پانی دستیاب تھا اور نہ ہی یوریا اور ڈی اے پی کھادیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گاؤں کے پاس سے گزرنے والی نہر سے ایک ڈیزل انجن کے ذریعے پانی نکال کر اپنی اراضی کو سیراب تو کر لیا لیکن بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ کھادوں کا انتظام نہ کر سکے۔ لہٰذا انہیں اپنی فصل ان کے بغیر ہی کاشت کرنا پڑی جس سے ان کی "فی ایکڑ پیداوار آدھی رہ گئی"۔
ان کے بقول عام طور پر وہ ایک ایکڑ اراضی سے 60 من (دو سو 40 کلوگرام) سے 70 من (دو سو 80 کلوگرام) گندم حاصل کرتے ہیں لیکن اس دفعہ ان کی اوسط پیداوار صرف 30 من (ایک سو 20 کلوگرام) فی ایکڑ رہی۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ فصل سے کوئی منافع کمانے کے بجائے اس پر اٹھنے والے اخراجات بھی پورے نہیں کر پائے۔
پشاور کے مقامی کسانوں کی تنظیم اتحاد زمینداران کے سربراہ ارباب محمد جمیل بھی عظمت شیر کی بات کی تائید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال جب گندم بوئی جا رہی تھی تو بیشتر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاشت کاروں کو اس کے لیے درکار کھادیں کسی قیمت پر بھی نہیں مل رہی تھیں۔ ان کے مطابق ان کھادوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے "فصل کی پیداوار پر بہت برا اثر پڑا ہے"۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ زراعت میں شعبہ توسیع کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر کام کرنے والے جان محمد اس بات کی توثیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سال صوبے میں گندم کی پیداوار ان کی توقع اور تخمینے سے کم رہی ہے۔ ان کے مطابق ابتدائی طور پر اس کی پیداوار کا صوبائی ہدف 16 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا تھا لیکن "کھادوں کی عدم فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کم کر کے 12 لاکھ 80 ہزار ٹن کر دیا گیا"۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سال کھاد کی قلت ہی گندم کی پیداوار میں کمی کا سبب نہیں بنی بلکہ اس کے سِٹے پر حملہ کرنے والے کیڑوں نے بھی اس کا "بہت بڑا حصہ تباہ کر دیا"۔ ان کے مطابق کاشت کاروں نے ان کیڑوں کو تلف کرنے کے لیے بیش قیمت دوائیاں تو ضرور چھڑکیں لیکن وہ ان سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکے کیونکہ "بازار میں دستیاب ایسی زیادہ تر دوائیاں ناقص تھیں"۔
بحران در بحران
خیبر پختونخوا کی مجموعی آبادی تین کروڑ 55 لاکھ ہے جسے، صوبائی محکمہ خوراک کے مطابق، ہر سال 50 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اس میں سے صرف 25 فیصد کے قریب گندم صوبے کے اندر پیدا ہوتی ہے جبکہ باقی ماندہ کا انتظام وفاقی حکومت کے ادارے، پاسکو، کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ہر سال پنجاب سے لاکھوں ٹن گندم خرید کر ایسے علاقوں میں اس کی فراہمی یقینی بناتا ہے جہاں یا تو اس کی کاشت ہی نہیں کی جاتی یا اس کی پیداوار مقامی ضرورتوں سے کم رہتی ہے۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں قائم آٹے کی ملوں کے مالکان بھی اپنے طور پر پنجاب سے گندم خریدتے ہیں۔ لیکن ان ملوں کے مالکان کی صوبائی تنظیم، فلورملز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا، کے صدر صابر بنگش دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سال صوبہ پنجاب کے محکمہ خوراک اور پاسکو دونوں نے مجموعی طور پر اپنی ضرورت سے 10 لاکھ ٹن زیادہ گندم خریدی ہے جس سے مارکیٹ میں اس کی قلت ہو گئی ہے اور نتیجتاً اس کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔
ان کے مطابق اس وقت "گندم کی 50 کلو گرام کی بوری کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے" حالانکہ اس سال اپریل-مئی میں اس کی سرکاری قیمتِ خرید دو ہزار پانچ سو روپے فی 50 کلوگرام تھی۔ گندم کی قیمت میں اس اضافے کے باعث پشاور میں اچھے معیار کا آٹا تقریباً ایک سو روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے جبکہ اِس سال مئی میں اس کی قیمت 75 روپے فی کلوگرام تھی۔
صابر بنگش کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال اتنی سنگین ہے کہ اس کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں آٹا بنانے کی صنعت ایک بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔ ان کے بقول "اس وقت صوبے میں آٹا بنانے کی کل دو سو 20 ملیں رجسٹرڈ ہیں لیکن گندم کی قلت اور اس کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ان میں سے 60 بند ہو گئی ہیں اور ان میں کام کرنے والے چار ہزار کے لگ بھگ مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں"۔
تاہم خیبرپختونخوا کے وزیر خوراک محمد عاطف خان کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت ان مسائل سے آگاہ ہے۔ اس لیے، ان کے مطابق، وہ نہ صرف اگلے سال سرکاری طور پر 14 لاکھ ٹن اضافی گندم خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے (تاکہ صوبے میں اس کی قلت پیدا نہ ہو) بلکہ وہ کم آمدنی والے طبقات کو آٹے کی خرید پر اربوں روپے کی مالی امداد بھی فراہم کر رہی ہے تاکہ ان کے لیے 20 کلو گرام والے آٹے کے تھیلے کی سرکاری قیمت نو سو 50 روپے پر برقرار رکھی جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے گزشتہ مالی سال (22-2021) کے صوبائی بجٹ میں 34 ارب روپے کی رقم رکھی گئی تھی جبکہ "23-2022 کے مالی سال میں اس کے لیے تقریباً 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں"۔
تاریخ اشاعت 13 اگست 2022