کھاد کی قیمت پر پانچ ہزار روپے کی حکومتی امداد لینے کی خاطر رانا محمد سجاد کو چار ہزار روپے خرچ کرنا پڑے۔
جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں کے گاؤں کالاویری میں 22 ایکڑ رقبے پر کاشت کاری کرنے والے محمد سجاد نے اس سال 16 ایکڑ کپاس اور چار ایکڑ گنا کاشت کیا جس میں انہوں نے ڈی اے پی کھاد کی 20 بوریاں استعمال کیں۔ پنجاب حکومت کے اعلان کے مطابق ان بوریوں میں سے نکلنے والے واؤچر دکھا کر وہ 20 ہزار روپے نقد امداد لینے کے حقدار تھے لیکن تین ماہ کوشش کرنے کے باوجود وہ قانونی طریقے سے ان واؤچروں کی سرکاری تصدیق کرانے میں ہی کامیاب نہ ہو سکے جس کے نتیجے میں انہیں امدادی رقم بھی نہیں مِل سکی۔
لیکن قربانی کی عید سے کچھ دن پہلے محمد سجاد کے ایک دوست نے انہیں ایک ایسا واٹس ایپ گروپ دکھایا جس میں کچھ لوگ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ کچھ رقم لے کر کسانوں کو اس امداد کی فراہمی یقینی بنا سکتے ہیں۔ محمد سجاد نے بعدازاں اس گروپ میں شامل اپنے علاقے کے ایک شخص سے رابطہ کیا تو اس نے انہیں کہا کہ وہ بوریوں سے نکلنے والے سارے واؤچروں پر لکھے ہوئے نمبر اور اپنا شناختی کارڈ نمبر اسے بھیجیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ان واؤچروں کی فی الفور سرکاری تصدیق کرا کے انہیں رقم کی ادائیگی کرا دے گا لیکن اس کام کے لیے انہیں چار ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔
محمد سجاد پہلے تو ہچکچائے لیکن کچھ دن بعد انھوں نے پانچ واؤچروں کے نمبر، اپنا شناختی کارڈ نمبر اور چار ہزار روپے اس شخص کو بھیج دیے۔ چند ہی گھنٹوں میں انہیں فون پر پیغام آیا کہ پانچ ہزار روپے ان کے بنک اکاؤنٹ میں موصول ہو گئے ہیں۔
اب وہ اپنے بقایا واؤچروں کو بھی اسی طرح استعمال کر کے امدادی رقم وصول کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
رانا سجاد کی طرح پنجاب بھر کے لاکھوں کسان امداد کی وصولی کے لیے یہ غیرقانونی راستہ اختیار کر رہے ہیں کیونکہ، ان کے مطابق، قانونی راستہ بہت پیچیدہ ہے۔ صوبے کے ہر ضلعے میں ایسے فیس بک اور واٹس ایپ گروپ موجود ہیں جو کسانوں سے رقم لے کر ان کے واؤچروں کی تصدیق کرا رہے ہیں اور ان پر واجب الادا رقم کسانوں کے اکاؤنٹ میں بھجوا رہے ہیں۔
کچھ کسان اس کوشش میں دھوکہ دہی کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی سے تعلق رکھنے والے محمد یونس ملک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس شخص کو انہوں نے واؤچروں کے نمبر اور تین ہزار روپے ادا کیے تھے وہ ایسے غائب ہوا ہے جیسے وہ کبھی موجود ہی نہیں تھا۔ان کے مطابق "اس کا فون بند ہے اور وہ واٹس ایپ پر بھی جواب نہیں دے رہا"۔
تاہم واؤچروں کی تصدیق کا کام کرنے والے ایک شخص کا اپنی شناخت صیغہِ راز میں رکھنے کی شرط پر کہنا ہے کہ وہ کوئی جعل سازی نہیں کر رہا بلکہ کسانوں کو اس "ذلت" سے بچا رہا ہے جو "انہیں محکمہ زراعت کے ہاتھوں سہنا پڑتی ہے"۔ اس کے مطابق اس کے علاقے میں درجن بھر ایسے واٹس ایپ گروپ موجود ہیں جن کی مدد سے اسے واؤچروں کی تصدیق کرانے کے خواہش مند کسان آسانی سے مِل جاتے ہیں۔
لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ غیر قانونی تصدیق کا یہ کاروبار محکمہِ زراعت کے ملازمین کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر چند روز قبل جب بھکر کے علاقے بہل میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایسے ہی ایک گروہ کو گرفتار کیا تو اس کے پاس امدادی واؤچروں اور موبائل فونوں کی سِموں کے ساتھ ساتھ واؤچروں کی تصدیق کرنے والی مشین بھی پائی گئی جو در حقیقت محکمہِ زراعت کی ملکیت تھی۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے صوبائی محکمہِ زراعت کے ایک اعلیٰ عہدیدار تسلیم کرتے ہیں کہ اس کام میں ان کے محکمے کے بعض لوگ ملوث ہیں۔ اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ان کا کہنا ہے کہ بعض اہلکاروں کو اس وجہ سے نوکری سے نکالا بھی گیا ہے "لیکن کچھ لوگ ابھی بھی باز نہیں آ رہے"۔
پنجاب کے محکمہ زراعت کے شعبہ توسیع کے ڈائریکٹر جنرل انجم علی بٹر بھی کچھ علاقوں سے جعل سازی کی شکایات ملنے کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جب ان کے محکمے نے اس کاروبار میں ملوث سرکاری اہل کاروں کے خلاف عدالتی کارروائی کی تو انکشاف ہوا کہ جس کمپیوٹر ایپ (app) کے ذریعے امداد کی فراہمی کا نظام چلایا جا رہا ہے اسے ہیک (hack) بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس انکشاف کی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ "ایسا ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے اس ایپ کو ہیک کر لیا ہو اور وہ اس کا غلط استعمال کر رہے ہوں"۔
تاہم انجم علی بٹر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایپ بنانے والے ادارے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کو ان تمام معاملات سے آگاہ کر دیا ہے جس کے بعد ایپ میں بہتری لائی جا رہی ہے۔
جعل ساز کیوں اتنے کامیاب ہیں؟
محمد سجاد نے 20 اپریل 2021 کو کھاد کی بوریوں میں سے امدادی واؤچر نکالے اور فون کے ذریعے ان کے نمبر محکمہ زراعت کی ہیلپ لائن پر بھیج دیے۔ انہیں جواب میں پیغام مِلا کہ "آپ یہ سہولت استعمال نہیں کر سکتے، آپ سے دوبارہ رابطہ کیا جائے گا"۔
اس کے بعد وہ اپنے ضلعے میں محکمہ زراعت کے دفتر گئے جہاں انہیں بتایا گیا کہ کھاد پر امداد کی فراہمی کا طریقہ کار بدل چکا ہے۔ اب ہر کاشت کار کو ہیلپ لائن پر واؤچر نمبر بھیجنے کے علاوہ محکمے سے واؤچروں کی تصدیق بھی کرانا ہو گی جس کے دو طریقے ہیں: یا تو کسان ایک سرکاری فارم بھر کر اس پر اپنے گاؤں کے نمبردار کے دستخط کروائیں، اس کے ساتھ اپنی زمین کی ملکیتی فرد اور اپنے شناختی کارڈ کی نقل لگائیں اور یہ سارے کاغذ محکمہِ زراعت کے دفتر میں جمع کرا دیں اور یا پھر اپنے علاقے کے ایک ایسے فیلڈ آفیسر سے رابطہ کریں جس کے پاس موبائل فون جیسی ایک مشین ہوتی ہے جس پر وہ خود کار طریقے سے تصدیق یا تردید کر دیتا ہے کہ آیا متعلقہ کسان امدادی رقم کا مستحق ہے یا نہیں۔
محمد سجاد نے شروع میں پہلا طریقہ اختیار کیا اور متعلقہ فارم بھر کر اسے تمام ضروری دستاویزات سمیت محکمے کے دفتر میں جمع کرا دیا لیکن دو ماہ تک انہیں کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ اس دوران وہ کئی بار محکمہِ زراعت کے ضلعی دفتر بھی گئے لیکن وہاں کسی نے ان کی بات نہ سنی۔
پہلے طریقے کی ناکامی کے بعد محمد سجاد اپنے گاؤں کے قریب محکمہِ زراعت کی طرف سے لگائی گئی ایک تصدیقی مشین پر گئے جہاں انہوں نے آزمائشی طور پر ایک واؤچر کی تصدیق کرائی اور ایک ہزار روپیہ وصول بھی کیا لیکن اگلے دن جب انہوں نے اس مشین کی مدد سے پانچ مزید واؤچروں کی تصدیق کرانا چاہی تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کے رہائشی ایک کسان نے بھی پہلا طریقہ اختیار کیا لیکن محکمے کے افسران نے ان کے واؤچر اصلی ماننے سے انکار کر دیا اور انہیں بتایا کہ انہوں نے "یہ واؤچر دوسرے کاشت کاروں سے خریدے ہیں اس لیے ان پر امدادی رقم نہیں مل سکتی"۔ بعد ازاں انہوں نے واٹس ایپ کے ذریعے ایک شخص سے رابطہ کیا جس نے سات ہزار روپے کے عوض ان کے 25 واؤچروں کی محکمانہ تصدیق کرا دی اور یوں انہیں 25 ہزار روپے مِل گئے۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے محکمہِ زراعت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایسے مسائل کی وجہ سے کھاد پر ملنے والی حکومتی امداد کا صرف 30 فیصد ہی اس کے حق داروں تک پہنچ رہا ہے "جبکہ باقی رقم مختلف قسم کے جعل سازوں کی جیب میں جا رہی ہے"۔
انجم علی بٹر کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت کسانوں کو امداد کے حصول میں پیش آنے والے ان مسائل سے آگاہ ہے اور ان کے خاتمے کے لیے امداد کی فراہمی کا طریقہِ کار ہی تبدیل کر رہی ہے۔ نئے طریقہِ کار کے تحت کسان کارڈ جاری کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے "کاشت کاروں کو جلد از جلد ایک ایسے دائرہِ کار میں لایا جائے گا جس کی بدولت انہیں براہِ راست امداد مل سکے گی"۔
اس طریقہِ کار کے تحت بہت سے کسانوں کو کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں اور ہر ضلعے میں کچھ کھاد ڈیلروں کے پاس ایسی مشینیں رکھ دی گئی ہیں جو خود کار طریقے سے کسان کارڈ کی تصدیق کرتی ہے۔ اس تصدیق کے بعد موقع پر ہی کھاد کی قیمت میں کمی کی صورت میں کاشت کار کو امدادی رقم کی ادائیگی ہو جاتی ہے۔
براہِ راست امداد کے دعووں کی حقیقت
ضلع چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ کے ایک کاشت کار کچھ روز پہلے اپنے علاقے کے ایک ایسے کھاد ڈیلر کے پاس گئے جس کے پاس کسان کارڈ کی براہِ راست تصدیق کرنے والی سرکاری مشین نصب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے ڈی اے پی اور ایس او پی کھاد کی خریداری پر امدادی رقم کا مطالبہ کیا تو "ڈیلر نے پہلے تو مختلف حیلے بہانے کیے لیکن پھر وہ اس شرط پر ڈی اے پی کھاد پر امدادی رقم دینے پر رضامند ہوا کہ وہ ہر بوری کی قیمت پر دو سو روپے اضافی وصول کرے گا"۔ گویا کاشت کار کو ایک ہزار روپے کی امدادی رقم کی بجائے آٹھ سو روپے ہی وصول ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں
کورونا وبا کے اثرات یا کھاد کمپنیوں کی مَن مانی: ڈی اے پی کی قیمت ایک سال میں دگنی ہو گئی۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈیلر نے ایس او پی کھاد پر براہِ راست امدادی رقم دینے سے صاف انکار کر دیا اور انہیں کہا کہ اس کی وصولی کے لیے انہیں پرانے طریقے کے مطابق واؤچروں کے نمبر محکمہِ زراعت کی ہیلپ لائن پر ہی بھیجنا ہوں گے۔ لیکن کاشت کار کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ نمبر ہیلپ لائن پر بھیجے تو انہیں جواب موصول ہوا کہ "آپ کے واؤچر استعمال شدہ ہیں"۔
ان کی نظر میں اس پیغام کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اب واؤچر کھاد کی بوریوں کے اندر ہونے کے بجائے ان کے بیرونی حصے کے ساتھ سِلے ہوتے ہیں لہٰذا "ڈیلر یہ نمبر استعمال کر کے امدادی رقم اپنی جیب میں ڈال رہے ہیں"۔
انجم علی بٹر تسلیم کرتے ہیں کہ ڈیلر کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے چند روز میں انہوں نے 11 ڈیلروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں امدادی رقم کی ادائیگیاں روک دی ہیں۔
لیکن وہ کسانوں کو بھی ہدایت کرتے ہیں کہ اگر انہیں امدادی رقم سے متعلق کوئی بھی شکایت ہو تو وہ اس کا اندراج فوری طور پر محکمہِ زراعت کے قریبی دفتر میں کرائیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس شکایت کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف "تحقیقات کی جائیں گی اور اگر وہ قصور وار قرار پائے گئے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 2 اگست 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 17 مئی 2022