"ملتان میں عورتوں کے لیے پِنک بس سروس کے اعلان کی خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ اس سروس کے نام پر ہمیں بیوقوف بنایا گیا۔"
یہ ملتان کی رہائشی صدف بتول کے خیالات ہیں جنہیں اپنی ملازمت کے سلسلے میں روزانہ شہر میں سفر کرنا پڑتا ہے۔
18اگست 2023ء کو ڈپٹی کمشنر عمر جہانگیر نے پِنک بس سروس کا افتتاح کیا۔ فی الوقت یہ سروس شہر کے صرف ایک روٹ پر دستیاب ہے۔ یہ صبح آٹھ بجے چونگی نمبر نو سے نادر آباد پھاٹک سواریاں لے جاتی اور دوپہر ایک بجے لے آتی ہے۔ اس سروس کے لیے نئی کے بجائے سرخ رنگ کی زیراستعمال بسیں لائی گئی ہیں۔
صدف کا کہنا ہے کہ دن میں صرف دو گھنٹے کے لیے 15 کلومیٹر پر محیط محض ایک روٹ پر بس چلانے سے شہر کی عورتوں کو سفری سہولت نہیں ملتی۔ ملتان میں خصوصاً ملازمت پیشہ عورتوں اور طالبات کے لیے ٹرانسپورٹ مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ رش کے اوقات میں سیٹ نہ ملنے پر انہیں بس سٹاپ پر طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
25 سالہ تنزیلہ سلیم کا تعلق ملتان کے علاقے محمود کوٹ سے ہے۔ وہ گزشتہ چار سال سے نجی بینک میں ملازمت کر رہی ہیں۔ بینک جانے کے لیے انہیں روزانہ 18 کلومیٹر فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ کم کرایے کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ میٹرو اور سپیڈو بس سروس پر سفر کرتی ہیں مگر رش کے باعث ڈیڑھ گھنٹے کا سفر عموماً کھڑے ہو کر طے کرنا پڑتا ہے۔
میٹرو بس میں خواتین کے لیے مخصوص حصے میں بیٹھنے کے لیے صرف 12 نشستیں ہوتی ہیں لیکن رش کے اوقات میں 35 سے 40 عورتیں سفر کر رہی ہوتی ہیں۔ اس صورت حال میں تنزیلہ کو اپنی جگہ خود بنانا پڑتی ہے اور دوران سفر دھکے بھی کھانا پڑتے ہیں۔ مرد اور لڑکے عورتیں کے لیے مختص حصے میں بھی گھس آ تے ہیں۔ سوار ہوتے یا اترتے وقت خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
تنزیلہ نے بتایا کہ جب وہ پسینے سے شرابور ہو کر اور مردوں کی بری نظروں کا سامنا کرنے بعد دفتر پہنچتی ہیں تو ان کی توانائی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
ملتان کے نجی ہسپتال میں ملازمت کرنے والی کائنات ملک کام پر جانے کے لیے رکشہ استعمال کرتی ہیں۔ان کے مطابق اکیلی عورت کے لیے رکشے میں سفر کرنا کسی اذیت سے کم نہیں۔
رکشہ ڈرائیور پیٹرول اور گیس کی قیمتوں کو جواز بنا کر عموماً زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں۔ بعض ڈرائیور گھورتے اور نازیبا اشارے کرتے یا فحش گانے چلاتے ہیں۔ سڑک سے گزرنے والے لوگ بھی رکشے میں بیٹھی خاتون کو گھورتے ہیں۔
کالج یا یونیورسٹی جانے کے لیے کئی لڑکیاں ان رکشوں سے سفر کرتی ہیں جن میں سواریاں مختلف مقامات پر اترتی اور چڑھتی ہیں۔
ان رکشوں پر روزانہ یونیورسٹی جانے والی طالبہ ماریا نے بتایا کہ ایک صبح وہ رکشے میں سوار تھیں کہ راستے میں دو مرد بھی ساتھ بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نے انہیں بری طرح چھوا جس پر وہ غصے کے عالم میں فوراً رکشے سے اتر گئیں۔ رکشہ ڈرائیور نے سواری کم ہوتے دیکھی تو باجی باجی کہہ کر واپس بلانے لگا ۔ میں نے ان دونوں مردوں کو رکشے سے اتارنے کا مطالبہ کیا جس پر اس نے برے انداز میں جواب دیا کہ اتنا نخرہ ہے تو ہمارے رکشوں میں سفر ہی کیوں کرتی ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ اس واقعے سے انہیں اتنی شرمندگی محسوس ہوئی کہ وہ تین دن تک نہ گھر سے باہر نکلیں اور نہ یونیورسٹی گئیں۔
2017ء میں حکومت نے 28 ارب روپے سے ملتان میٹرو بس سروس کا آغاز کیا تھا۔ اس کے ساڑھے 18 کلومیٹر طویل روٹ پر 21 سٹیشن ہیں جن کے آس پاس متعدد سرکاری و نجی سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کی بڑی تعداد میٹرو بس پر سفر کرتی ہے۔
میٹرو بس عملے کے مطابق اس پر روزانہ قریباً دو لاکھ افراد سفر کرتے ہیں جن میں نصف تعداد عورتوں کی ہے۔ اس روٹ پر 35 بسیں چلائی گئی تھیں تاہم افتتاح کے موقع پران کی تعداد بڑھانے کے اعلان پر چھ سال بعد بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس دوران سواریوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ کر دو لاکھ ہو گئی ہے۔ جن علاقوں میں میٹرو نہیں جاتی وہاں 100 فیڈر بسیں چلتی ہیں
ویمن یونیورسٹی ملتان کی طالبات کی بڑی تعداد میٹرو بس پر سفر کرتی ہیں۔ یونیورسٹی ترجمان کے مطابق ادارے میں اس وقت سات ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں اور اس کے پاس صرف 12بسیں ہیں جن میں سے چار خراب ہیں۔
شیزا سلمان اس یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دیکھ بھال نہ ہونے سے کئی بار یہ پرانی بسیں راستے میں ہی بند ہو جاتی ہیں اور طالبات کو وہیں اتار دیا جاتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر شیخ رفیق قریشی نے بتایا کہ ملتان شہر میں لڑکیوں کے نو سرکاری کالج ہیں جن میں مجموعی طور پر 10 ہزار سے زیادہ طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان کے لیے محض چھ بسیں فراہم کی گئی ہیں جن پر بمشکل دو سے تین سو طالبات سفر کر پاتی ہیں۔ باقی طالبات نجی بسوں پر آتی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
فیصل آباد: 37 لاکھ آبادی کے شہر میں چنگ چی رکشہ واحد 'پبلک ٹرانسپورٹ' رہ گئی
ملتان کے ڈپٹی کمشنر عمر جہانگیر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نئی بسوں کی فراہمی معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ممکن نہیں۔ پرانی بسوں کی مرمت کے لیے بھی فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ پِنک بس سروس کے لیے نئی بسیں نہیں آ سکیں۔ تاہم شہر میں اس سروس کے لیے بسوں کی تعداد جلد بڑھا دی جائے گی۔
ان حالات میں اپنی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والی عورتیں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے عورتوں کے لیے ڈرائیونگ سکول قائم کیا گیا ہے جہاں ڈرائیونگ سیکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں لائسنس بھی بنا کر دیاجارہا ہے۔
لائسنس برانچ کے انچارج راؤ امجد نے بتایا کہ رواں سال جنوری سے اگست کے دوران 312 خواتین نے ڈرائیونگ لائسنس بنوائے۔ ستمبر 2023ء تک لرنر لائسنس بنوانے والی 200 خواتین نے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے درخواستیں دیں۔ مجموعی طور پر ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والی عورتیں کی تعداد دو ہزار ہو چکی ہے اوردوسال میں نوجوان لڑکیوں میں موٹر سائیکل چلانے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 3 اکتوبر 2023