لوگ 'فراسی'کی تصویریں تو بناتے ہیں مگر خریدتا کوئی نہیں: سندھ کا دم توڑتا قدیم ثقافتی ہنر

postImg

رضا آکاش

postImg

لوگ 'فراسی'کی تصویریں تو بناتے ہیں مگر خریدتا کوئی نہیں: سندھ کا دم توڑتا قدیم ثقافتی ہنر

رضا آکاش

پینسٹھ سالہ آمی مہیری ضلع بدین کے ایک چھوٹے سے علاقے کڑیو گھنور کے گاؤں کھتھڑ میں رہتی ہیں۔ یہ گاؤں کبھی 'فراسی' بنانے کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن اب آمی یہاں اس کام کی واحد ماہر ہیں جو پینتالیس سال سے اس صدیوں پرانے فنی ورثے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کام میں ان کی بہو اور بیٹی بھی ان کا ساتھ دیتی ہیں۔

فراسی ایک نادر قسم کا 'بچھونا' ہے جو عام طور پر مہمانوں کے لیے چارپائی پر بستر کے نیچے بچھایا جاتا ہے۔ لیکن اس کی آرائشی اہمیت بھی ہے اور لوگ اسے غالیچے یا قالین کی طرح اپنے کمروں میں سجاتے ہیں۔

سندھ کے قدیم فنون اور روایتی دستکاری کی ترقی کے ادارے (سٹکو) کے سیکرٹری عبدالحمید آخوند بتاتے ہیں کہ فراسی بنانے والے 'مہیری' اور 'جت' قبائل میں والدین یہ ثقافتی تحفہ بیٹیوں کو جہیز میں بھی دیتے ہیں۔

''فراسی کا فن بہت مشکل اور مشقت طلب ہے۔ اس میں سب سے پہلے اونٹ کے بالوں (مرس) اور بھیڑ کی اون کو جمع کیا جاتا ہے اور انہیں صاف کر کے ان کی ڈھیریاں بنائی جاتی ہیں۔ گھر کے مرد ان ڈھیریوں دھاگہ بناتے ہیں جس میں کئی روز لگتے ہیں۔ پھر ان دھاگوں کو ببول اور بیر کے درخت کی گوند (لاکھ) سے رنگ دیا جاتا ہے اور ان سے فراسی بُنی جاتی ہے۔''

فراسی پر مختلف طرح کے رنگین پھول اور ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ ہر رنگ اور ڈیزائن کے لیے الگ ریشمی دھاگے اور پشم استعمال کی جاتی ہے۔ فراسی بنانے کے لیے استعمال ہونے والے فریم اور دیگر سامان بھی کاریگر خود لکڑیوں اور رسیوں سے تیار کرتے ہیں جنہیں مقامی زبان میں ارٹ، گڑت، مکڑی، گھوڑی، پیزگ، ایس، جھل وغیرہ کہا جاتا ہے۔

 فراسی کی تین اقسام ہوتی ہیں جنہیں فراسی، آدھی فراسی اور کھرڑی کہا جاتا ہے۔ کھرڑی صرف اونٹ اور بھیڑ کے بالوں سے بنائی جاتی ہے جبکہ فراسی اور آدھی فراسی میں اونٹ یا بھیڑ کے بالوں کے ساتھ رنگین ریشمی دھاگے بھی شامل ہوتے ہیں۔

 ایک فراسی بنانے میں دو ماہر خواتین کو تین سے چھ ماه لگ جاتے ہیں۔ فراسی اپنی بناوٹ کے لحاظ سے بہت مضبوط ہوتی ہے اور سو سال تک نہ تو پھٹتی ہے اور نہ ہی کے رنگ یا ڈیزائن میں کوئی فرق آتا ہے۔

کھتھڑ گاؤں کے حسن مہیری بتاتے ہیں کہ ان کی اہلیہ فراسی بنانے کی ماہر تھیں۔ بےنظیر بھٹو شہید کے دور حکومت میں انہوں نے لندن  کی ایک عالمی ثقافتی نمائش میں سندھی ثفاقتی ورثے کی نمائندگی کرتے ہوئے فراسی کا سٹال لگایا تھا۔ اس نمائش میں فراسیوں اور اس فن کو بیحد سراہا گیا مگر حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اس لیے مایوس ہو کر ان کی اہلیہ نے یہ کام چھوڑ دیا۔

''پہلے کھتھڑ، بجاری شریف، خانانی جت، باگھلی، سنھڑو مہیری، بھائی خان مہیری، سکھیو مہیری اور خیرو نوندانی سمیت علاقے کی بیس بستیوں میں چھ سو سے زیاده خواتین فراسی بنانے کا کام کرتی تھیں۔ مگر بہتر اجرت نہ ملنے کے باعث اکثر نے یہ کام چھوڑ دیا ہے اور اب اس علاقے کے دو دیہات میں مجموعی طور پر صرف چھ خواتین ہی  فراسی بنانے کا ہنر جانتی ہیں۔''

عبدالحمید آخوند کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے ایک فراسی کی قیمت 10 سے 30 ہزار روپے تک ہوتی تھی، مگر مہنگائی کے باعث اس کی لاگت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ اب کاریگر فراسی کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے تک طلب کرتے ہیں جس سے اس کی فروخت میں کمی آئی ہے۔

<p> ایک فراسی بنانے میں دو ماہر خواتین کو تین سے چھ ماه لگ جاتے ہیں<br></p>

 ایک فراسی بنانے میں دو ماہر خواتین کو تین سے چھ ماه لگ جاتے ہیں

آمی مہیری اس فن کے زوال کا سبب یہ بتاتی ہیں کہ فراسی بنانے والی خواتین مسلسل بیٹھ کر کام کرنے سے گھٹنوں اور کمر کے درد میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ دھول اور آنکھوں پر دباؤ پڑنے سے نظر کمزور ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں اس کام سے دور بھاگتی ہیں اور اسے سیکھنا نہیں چاہتیں۔

آمی بھی اب مایوسی کا شکار ہیں اور اس کام کو جاری رکھنا نہیں چاہتیں۔

''میری والدہ، نانی، دادی اور ان کی پشتیں اسی ہنر سے وابستہ تھیں۔ اب لوگ ہمارا کام دیکھتے، اس کی تصویریں بناتے اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن فراسی کوئی نہیں خریدتا جبکہ باتوں سے پیٹ کی آگ نہیں بجھتی۔''

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوادر کی دوچ گر خواتین: 'کبھی کبھی نیند میں خیال آتا ہے کہ انگلی میں سوئی چبھ گئی ہے اور اس میں سے خون نکل رہا ہے'۔

عبدالحمید اخوند نے بتایا کہ ان کے ادارے کا کام قدیم اور زوال پذیر دستکاری کو بچانا ہے جس کے لیے انہوں نے مختلف اضلاع میں ڈسپلے سنٹر بنائے ہیں اور ہنرمندوں کو دستکاری کا سامان بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سٹکو نے نمائشوں میں فراسی کی ہنرمندوں کو ہمیشہ مدعو کیا ہے اور ان کے کام کی نمائش بھی کی ہے۔ تاہم دستکاری کی مارکیٹنگ سٹکو کا نہیں بلکہ سندھ سمال انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔ اگر حکومت اس قدیم ہنر کو بچانے اور فراسی کی عالمی مارکیٹ میں فروخت کے لیے اقدامات کرے تو فراسی کی کاریگروں کو تنگ دستی اور مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

تاریخ اشاعت 18 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضا آکاش خانانی بدین سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ گذشتہ پندرہ سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ساحلی علاقوں کے مختلف ماحولیاتی، سماجی، انسانی و ثقافتی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.