سرگودھا کے راحیل جوزف بی ایس فزکس کے طالب علم ہیں۔ وہ پرائمری سکول سےلے کر یونیورسٹی تک اپنے مسلمان کلاس فیلوز کی طرح اسلامیات کا مضمون بھی پڑھتے رہے ہیں جبکہ محکمہ تعلیم نے اس دوران مسیحیوں اور دیگر غیرمسلم طلبہ کے لئے اسلامیات کی جگہ اخلاقیات کا مضمون متعارف کروا دیا تھا۔
راحیل بتاتے ہیں کہ جب وہ پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے تو اسلامیات کے استاد نے انہیں اسلام قبول کرنے کے دعوت دی تھی جس پر وہ خاموش رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سکول میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ان جیسے دیگر طلبہ کو بھی اساتذہ کی جانب سے اسلام قبول کرنے کے لئے کہا جاتا تھا۔
پچیس سالہ راحیل انسانی حقوق کے کئی قومی و بین الاقوامی اداروں کے لئے کام کر چکے ہیں اور اس وقت بھی ایک حکومتی پروگرام کے برانڈ ایمبیسڈر ہیں۔
وہ اسلامیات کا مضمون پڑھنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ انہیں کسی ادارے میں اس کا متبادل مضمون اخلاقیات پڑھانے والا استاد ہی نہیں ملا اور وہ خائف تھے کہ اسلامیات نہ پڑھنے پر اصرار کر کے وہ سب کی نظروں میں آ کر کسی امتیازی سلوک کا ہدف بن سکتے تھے۔
تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کا مضمون 2007ء میں شامل کیا گیا۔ اس سے پہلے جنرل ضیاالحق کی حکومت نے 1979ء میں متعارف کرائی جانے والی تعلیمی پالیسی میں اسلامیات کے مضمون کو گریجوایشن تک لازمی قرار دے دیا تھا۔ جس کے بعد مذہبی اقلیتوں کے طلبہ کو یہ مضمون باامر مجبوری پڑھنا پڑھتا تھا۔
ان طلبہ کی مشکل میں مزید اضافہ 2022ء میں اس وقت ہوا جب واحد قومی نصاب کی پالیسی کے دوسرے مرحلے میں انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کے لئے ترجمہ قرآن کا مضمون بھی شامل کر لیا گیا جبکہ غیرمسلم طلبہ کو اخلاقیات کا مضمون پڑھانے کے لئے کئے جانے والے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔
پالیسی میں اخلاقیات پڑھنے والے طلبہ کو ترجمہ قرآن کا امتحان چھوڑنے کا آپشن دیا گیا اور نمبروں کے فرق کو پورا کرنے کے لئے اخلاقیات کے مضمون میں حاصل کردہ نمبروں کی نسبت سے انہیں اضافی نمبر دینے کی پالیسی بنائی گئی۔
تاہم تعلیمی اداروں میں اخلاقیات پڑھانے کا انتظام نہ ہونے کے سبب اس مضمون میں اقلیتی طلبہ کے نمبر بہت کم آتے ہیں، نتیجتاً انہیں ترجمہ قرآن کے متبادل ملنے والے اضافی نمبر بھی اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔
سرگودھا کی 20 سالہ جمیلہ شہر کی ایک نجی یونیورسٹی میں بی ایس کیمسٹری کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مسیحیوں کے ایک نجی سکول میں حاصل کی تھی جہاں انہیں اسلامیات کے بجائے مسیحی مذہبی عقائد (Catechism) پڑھنے کا موقع ملا۔
ان کا کہنا ہے کہ سبھی مسیحی طلبہ کو ایسے سکولوں میں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا اس لئے وہ سرکاری اداروں میں اسلامیات کا مضمون اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ وہاں اخلاقیات کو کوئی استاد ہی نہیں ہوتا۔
ایم فل سوشل ورک کی طالبہ اور ایک نجی سکول کی ٹیچر کرمل سلیم اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں گیارہویں جماعت میں اخلاقیات کا مضمون اختیار کرنے کا آپشن دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اسلامیات ہی پڑھی کیونکہ سکول میں انہیں اخلاقیات پڑھانے والے اساتذہ میسر نہیں تھے اس لئے وہ اسلامیات پڑھتی آئی تھیں اور اسی لئے کالج میں بھی یہی مضمون اختیار کیا۔
کرمل بتاتی ہیں کہ جن سکولوں اور کالجوں میں اخلاقیات کا مضمون آفر کیا جاتا ہے وہاں اس کی کلاسیں برائے نام ہی ہوتی ہیں۔
"عام طور پر اخلاقیات کا کوئی علیحدہ شعبہ یا استاد نہیں ہوتے اس لئے طلبہ کو اپنی مدد آپ کے تحت پڑھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے نمبر بہت کم آتے ہیں"۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق سرگودھا میں مسیحی برادری کے لوگوں کی آبادی 66,000 ہے۔ 2018ء میں سرگودھا بورڈ میں 1837 غیرمسلم طلبہ نے امتحان دیا جن میں صرف 429 یعنی 23 فیصد نے اخلاقیات کا مضمون چنا جبکہ باقی 77 فیصد نے اسلامیات کا امتحان دیا۔
پنجاب کے سماجی معلومات نظام 'ایس آئی ایس پنجاب' سے حاصل ہونے والی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ سرگودھا کے تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کا مضمون پڑھانے کے لئے استاد کی اسامی وجود ہی نہیں رکھتی۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے اخلاقیات کے اساتذہ کو بھرتی کرنے کی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔
اس خلا کو پُر کرنے کے لئے اسلامیات یا آرٹس کے کسی استاد کو یہ مضمون پڑھانے کی عارضی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔
اگر گزشتہ دس سال کے عرصہ میں کالجوں کے لیکچرار کی اسامیوں کے لئے شائع کئے گئے اشتہاروں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی اخلاقیات کے اساتذہ کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
سرگودھا میں ایک چرچ اور سکول چلانے والے مسیحی مذہبی رہنما فادر تھامس سمجھتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو نوعمری میں اسلامیات پڑھنے پر مجبور کرنا ان کی مذہبی شناخت و آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں
یکساں قومی تعلیمی نصاب: 'اقلیتی طلبا مسلمان طلبا سے بالکل کٹ جائیں گے'۔
"ایسے طلبہ مذہبی کتب کے مواد کی حساسیت سے واقف نہیں ہوتے اس لئے کسی نادانستہ غلطی پر ان کےخلاف توہین مذہب کا الزام عائد ہونے کا خدشہ رہتا ہے"۔
فادر تھامس اخلاقیات کے نصاب پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مضمون میں عالمی اخلاقی اصولوں کی ترویج کے بجائے زیادہ تر اسلامی اخلاقی تصورات کا پرچار کیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب کی اخلاقیات و اقدار کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی۔
وہ تجویز دیتے ہیں کہ اخلاقیات کے نصاب کو مزید بہتر بنا کر اسے بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے اور اسے مسلم طلبہ کے لئے بھی لازمی قرار دیا جائے جس سے معاشرے مں عدم برداشت کی فضا کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
تاریخ اشاعت 12 جون 2023