35 سالہ فائزہ رؤف دس سال تک شوہر کا تشدد برداشت کرتی رہیں اور اس دوران ان کے چار بچے بھی ہو گئے۔ لیکن جولائی 2022 کو پیش آنے والے ایک ایسے ہی واقعے کے بعد ان کی ہمت جواب دے گئی اور وہ شوہر کے خلاف شکایت لے کر تھانے پہنچ گئیں۔ ان کے بقول اس روز شوہر نے انہیں بچوں کے سامنے اس قدر مارا پیٹا کہ ان کے جسم پر جگہ جگہ نشان پڑ گئے، ہونٹوں سے خون رسنے لگا اور دانت بھی ہلنے لگے۔
فائزہ رؤف کا تعلق شیخوپورہ کے علاقے رحمان گارڈن سے ہے انھوں نے مینجمنٹ سائنسز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ 11 سال پہلے ان کی نثار احمد نامی شخص سے پسند کی شادی ہوئی تھی لیکن شادی کے چند ہی روز بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کے شوہر کی پہلے بھی ایک شادی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ سب کچھ اس لیے برداشت کر لیا کہ وہ اپنے والدین کو کسی صدمے میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
دس سال میں اس کے ہاں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ لیکن اس عرصہ میں وہ متواتر شوہر کے تشدد کا نشانہ بنتی رہیں۔ اب چونکہ ان کے بچے بھی بڑے ہو رہے تھے، اس لیے وہ ان کو اس ماحول سے دور رکھنے کی خواہاں تھیں۔ اسی لیے انہوں نے آخری مرتبہ بدترین تشدد سہنے کے بعد ہسپتال سے اپنی میڈیکل رپورٹ بنوائی اور تھانے پہنچ گئیں۔
ان کی درخواست پر تھانے میں درج کی جانے والی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ فائزہ کی میڈیکل رپورٹ میں چہرے اور جسم پر تشدد کے نشانات واضح ہیں۔
ان کا مقدمہ فیملی کورٹ کی جج صائقہ یونس کی عدالت میں کئی ماہ تک زیر سماعت رہا اور اسی دوران ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی۔ عدالت نے مقدمے کا فیصلہ فائزہ کے حق میں دیا اور شوہر کو بچوں کی کفالت کے لیے پچاسی ہزار روپے ماہانہ ادائیگی کا حکم جاری کیا۔
اب فائزہ اپنے بچوں کے ساتھ والدین کے گھر پر رہتی ہیں۔ ان کے تین بچے سکول جاتے ہیں جبکہ ایک بچی ابھی دو سال کی ہے۔ فائزہ کا عزم ہے کہ اب وہ اکیلے ہی اپنی بچوں کی کفالت کریں گی اور اس مقصد کے لیے وہ نوکری کی تلاش میں ہیں۔
شیخوپورہ کے ضلعی اینٹی ویمن ہراسمنٹ سیل کی رپورٹ کے مطابق رواں سال خواتین پر تشدد کے 1503 مقدمات درج ہوئے۔ ان مقدمات میں 2983 افراد ملوث تھے جن میں سے پولیس نے 1629 افراد کو گرفتار کیا جبکہ 507 بے گناہ قرار پائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ان مقدموں میں سے 603 کے چالان عدالت میں جمع کروائے جا چکے ہیں جن میں سے 540 زیر تفتیش ہیں جبکہ 360 مقدمات مسترد کر دیے گئے۔
خواتین پر تشدد کے متعدد مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل رانا عمیر اقبال کے خیال میں یہ وہ مقدمات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں یعنی جن کی شکایات کا متعلقہ تھانوں میں اندراج ہوا ہے جن میں فیملی کورٹس سے رجوع کیا گیا ہے۔
جبکہ اس سے کہیں زیادہ واقعات ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اس کی وجہ ہمارا معاشرتی نظام ہے جس میں گھر بچانے کی خاطر خواتین تشدد کو مقدر اور شوہر کے گھر کو اپنا جینا مرنا مان لیتی ہیں۔
"ہمارے معاشرے میں بیٹی کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ شوہر ہی اس کا سب کچھ ہے اس لیے وہ اپنا گھر بچانے کے لیے تشدد برداشت کرتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ بیٹیاں اپنے والدین کی عزت کی خاطر اور انہیں پریشانیوں سے بچانے کے لیے بھی شکایت نہیں کرتیں۔"
عمیر اقبال کے مطابق وہ تشدد کے ایسے بہت سے مقدمات کے شاہد ہیں جن میں خواتین نے اپنے شوہر یا دیگر رشتہ داروں کی جانب سے وحشیانہ تشدد پر ان کے خلاف قانونی کارروائی آگے بڑھانے سے انکار کیا۔
حال ہی میں قصبہ جنڈیالہ شیر خان کے ایک گاؤں میں سسر کے ہاتھوں بہو پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ تحقیق پر یہ بات سامنے آئی کہ ملزم کا نام لطیف احمد ہے جو اپنی بہو کو صرف اس لیے تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ اسے وقت پر کھانا نہیں ملا تھا۔
جس خاتون پر تشدد ہوا اس کا نام شازیہ بی بی ہے اور نو سال قبل اس کی شادی جنڈیالہ شیر خان کے رہائشی ساجد سے ہوئی جو روزگار کے سلسلے میں جنوبی افریقہ مقیم ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق متاثرہ خاتون کا شوہر بھی معمولی باتوں پر متعدد بار بیوی پر تشدد کر چکا ہے اور شازیہ پر سسر کا تشدد کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ روزانہ کا معمول ہے۔
یہ وائرل ویڈیو متاثرہ خاتون کے دیور عابد نے گھر کی دوسری منزل پر کھڑے ہوکر بنائی اور اپنے رشتہ دار کو بھیجی تو اس نے اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔
جیسے ہی یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو پولیس حرکت میں آئی اور متاثرہ خاتون سے رابطہ کرکے قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا لیکن پھر شازیہ کی ایک اور ویڈیو آئی جس میں وہ اپنے سسر کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس سب معاملے کو اپنی ہی غلطی قرار دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
اس نے کہا بیوی کو مارنا ہمارا خانگی معاملہ ہے اور پولیس واپس چلی گئی: گھریلو تشدد کے خلاف قانون کب لاگو ہو گا؟
شیخوپورہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بطور ماہر نفسیات خدمات سرانجام دینے والی ڈاکٹر صوبیہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کی سب سے بڑی وجہ تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔ کیوں کہ مرد خود کو عورت سے اعلیٰ سمجھتے ہوئے اپنا حکم چلانا چاہتا ہے اور جب کبھی ذہنی الجھنوں کا شکار خاتون اکتاہٹ کا اظہار کرئے تو مرد غصے میں آکر اس پر تشدد کرتا ہے۔
ان کے بقول معاشی حالات بھی بہت اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کا ماحول خوشگوار نہیں رہتا اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ معاشرے میں عورت صرف جسمانی ہی نہیں، ذہنی تشدد اور اذیت کا شکار بھی رہتی ہے۔ شادی کے بعد اس کا ماحول رہن سہن اگر ماضی جیسا نہ ہو تو اس کو مشکل ہوتی ہے۔اکثر اوقات مجبوری میں اسے وہ کام کرنا پڑتا ہے جو اس کا ذہن تسلیم نہیں کرتا یوں وہ ذہنی ازیت کا شکار رہتی ہے۔
'تنظیم برائے پائیدار سماجی ترقی' نامی این جی او کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر ایک گھنٹے میں ایک خاتون کو جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، ہر آدھے گھنٹے میں ایک خاتون کے اغوا کا واقعہ پیش آتا ہے اور روزانہ نو خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
تاریخ اشاعت 20 اکتوبر 2023