"میں بس سے اتر کر سڑک کے اس پار جانے کے لیے ٹریفک رکنے کا انتظار کر رہا تھا. ایسے میں مجھے ایک مذہبی نعرہ سنائی دیا۔"
یہ کہنا تھا ماہ دیو (فرضی نام) کا، جو ہیں تو عمرکوٹ کے رہائشی لیکن پچھلے چھ برسوں سے کراچی میں رہتے ہیں۔
"ایسا لگا کہ منی بس کے پیچھے ایک مجمع ہے جو نعرے لگا رہا ہے۔ مجھے خوف محسوس ہونے لگا اور میں نے سوچا کہ پھر سے کچھ ہونے والا ہے۔"
لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ بس چلنے لگی تو انہوں نے دیکھا کہ چند مرد اور خواتین ہیں جو اسی بس سے اتر کر اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا خوف حیرانی میں بدل چکا تھا، وہ سوچ رہے تھے کہ انہیں ایسا کیوں اور کیسے محسوس ہوا؟
یہ بیس ستمبر کی شام کی بات ہے۔
اس سے ایک دن پہلے عمرکوٹ کے رہائشی، توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہنواز کو میرپورخاص پولیس نے ایک مبینہ جعلی مقابلے میں قتل کر دیا تھا، اور مشتعل لوگوں نے ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔ اس واقعے نے نہ صرف ماہ دیو بلکہ پورے سندھ کو خوفزدہ بلکہ سن کر دیا تھا۔
دوسرے دن ہزاروں کے تعداد میں سوشل میڈیا صارفین، بشمول دانشور، "ایفی ڈیوٹ" کے ساتھ وضاحتیں دینا شروع ہو گئے کہ ان کے اکاؤنٹ سے کسی بھی قسم کا توہین آمیز مواد شیر کیا جائے، تو وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر شاہنواز کمبہر کا ماورائے عدالت قتل
اب تو یہ واضح ہو چکا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز، خود ایک وڈیو بیان میں توہین آمیز پوسٹ کے تردید کر چکے تھے، لیکن پولیس نے انہیں کراچی سے پکڑ کر میرپورخاص کے تھانہ سندھڑی کے قریب مبینہ جعلی مقابلی میں قتل کر دیا۔ اس پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے پولیس افسران کو پھولوں کے ہار بھی پہنائے گئے۔
بعد میں سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں اس پولیس مقابلہ کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈاکٹر شاہنواز پر توہین مذہب کا جو مقدمہ درج کیا گیا، وہ بھی مشکوک ہے اور یہی غلطی ان کے قتل کا سبب بنی۔
تین دن کے بعد سول سوسائٹی نے جرات کا مظاہرہ کیا اور عمرکوٹ جا کر ڈاکٹر شاہنواز کی نماز جنازہ پڑھی، ان کی قبر پر پھول چڑھائے اور صوفی راگ کی محفل سجا کر مذہبی جنونیت کو رد کیا۔ لیکن اس کی بھی شاید ایک قیمت تھی جو عمرکوٹ کے باسیوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
سول سوسائٹی کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد مذہبی جماعتوں کے لوگ میدان میں آ گئے اور عمرکوٹ میں انہوں نے بھرپور پاور شو کیے، جس کے باعث وہاں کے لوگوں، خاص طور پر ہندو برادری میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا۔
اب بھی خوف کا ماحول ہے
ڈاکٹر شاہنواز کے واقعے کو تقریباً ایک ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، لیکن عمرکوٹ میں اب بھی خوف و ہراس کا ماحول ہے۔
عمر کوٹ پاکستان کا وہ واحد ضلع ہے جہاں 54 فیصد آبادی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں صدیوں سے ہندو اور مسلمان مذہبی ہم آہنگی سے رہتے آئے ہیں۔
دیوالی اور ہولی ہو یا عید، سبھی مل کر مناتے ہیں، ایک دوسرے کو شادی بیاہ کی دعوتیں دیتے ہیں۔ عید الضحیٰ پر مسلمان، ہندو بھائیوں کے احترام میں گائے کی قربانی نہیں کرتے لیکن موجودہ صورتحال نے سب کو خوفزدہ کر دیا ہے۔
اشفاق لغاری ایک صحافی ہیں، جو پہلے دن سے اس واقعے کو رپورٹ کرتے آئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ عمرکوٹ کی سب سے بڑی پہچان مذہبی رواداری ہے۔ عمرکوٹ کی جامع مسجد کی تعمیرات کے لیے سب سے زیادہ چندہ ہندو برادری نے دیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر شاہنواز کمبہر کے قتل کے بعد جو جلاو گھیرا اور شہر میں خوف کا ماحول پیدا کیا گیا، اس سے ہندو مسلم کے مابین مذہبی ہم آہنگی کی فضا بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس نے ہندو برادری پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
"وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک رواداری کے کلچر کا قتل ہوا ہے۔
نہ دیپ جلے، نہ مٹھایاں، نہ پٹاخے
عمرکوٹ اور تھرپارکر ایسے اضلاع ہیں جہاں ہولی اور دیوالی کی تیاریاں تقریباً ایک ماہ پہلے شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس بار عمرکوٹ میں ہر طرف سناٹا ہی سناٹا ہے۔ نہ تو مٹھائی کی دکانیں سجی ہیں، نہ ہی پٹاخوں اور موم بیتیوں کے ٹھیلے لگے ہیں۔ گھروں اور مندروں میں دیپ بھی بجھے بجھے سے ہیں۔
کچھ لوگ بہرحال اپنے محلوں یا گھروں کے اندر پٹاخے اور موم بتیاں بیچ رہے ہیں۔
تنو مل مٹھائی کی دکان چلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر کم از کم پندرہ دن پہلے دیوالی کی خریداری شروع ہو جاتی تھی، مٹھائیاں اور پٹاخے وغیرہ بکنا شروع ہو جاتے تھے۔
" اب ایک دو روز ہی بچے ہیں لیکن، گاہک دیکھنے میں نہیں آ رہے۔"
دلیپ کمار مولچندانی میونسپل کمیٹی کے کونسلر ہیں، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے دیوالی کی تیاریوں میں دیر ضرور ہوئی ہے، کئی افراد جو شہر سے باہر رہتے ہیں وہ بھی ابھی تک دیوالی منانے کے لیے واپس اپنے گھروں کو نہیں لوٹے۔
"لیکن ہم انتظامیہ سے رابطے میں ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ دیوالی پرسکون طریقے سے گذر جائے گی۔"
ماہ دیو کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے افراد بازار تو جاتے ہیں لیکن وہ ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔
"ہر کوئی اس خوف میں مبتلا ہے، ہم تو ہندو ہیں، لیکن مسلمان بھی ڈرتے ہیں کہ کوئی ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کا قصہ نہ چھیڑ دے اور کوئی اس کے ماورائے عدالت کے قتل کے خلاف بول دے تو کیا ہوگا؟"
خوف کے ماحول میں دیوالی کیسی؟
پچھلے چھ برس میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ماہ دیو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ہولی یا دیوالی منانے کے لیے عمرکوٹ نہ گئے ہوں۔ لیکن اس بار وہ دیوالی کراچی میں منائیں گے۔ ماہ دیو اکیلے نہیں ہیں، کئی نوجوان جو ملازمتوں کی وجہ سے عمرکوٹ سے باہر رہتے ہیں وہ اس بار خوف کے باعث عمرکوٹ نہیں جا رہے۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب میں توہین مذہب کے واقعات: کیا کسی پولیس افسر کے خلاف کارروائی یا فسادی کو سزا ہوئی؟
ماہ دیو بتاتے ہیں کہ ان کے گھر کے کسی بھی فرد نے نئے کپڑے نہیں لیے، صرف بچوں کے لیے خریداری کی گئی ہے۔
"آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عمرکوٹ میں کیسا ماحول ہے، دیوالی کیسی ؟ میرا دل نہیں کرتا کہ عمرکوٹ جاؤں، نہ ہی میرے والدین مجھے آنے کے لیے کہتے ہیں۔"
امید کی کرن
ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کے بعد اب عمرکوٹ میں کئی احتجاج ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی بھی تنظیم یا سول سوسائٹی نے ہندو برادری کے ساتھ دیوالی منانے کا اعلان نہیں کیا۔
سندھو نواز گھانگھرو سندھ رواداری کمیٹی کی بانی ممبر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس بار دیوالی عمرکوٹ میں منانے کا پروگرام بنایا تھا، تاہم ماحول ایسا ہے کہ کوئی حتمی پروگرام نہیں بن سکا۔
"لیکن ہمارے کچھ لوگ ضرور جائیں گے اور ہندو بھائیوں کے ساتھ دیوالی منائیں گے۔"
پروفیسر اللہ جڑیو مہران عمرکوٹ کے رہائشی ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ یہاں کہ ہندو اور مسلمان صدیوں سے رواداری کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام انسانیت اور رواداری کا درس دیتا ہے، اور اس موقع پر ہم یقیناً ہندو برادری کے محافظ بنیں گے اور ان کے ساتھ دیوالی منائیں گے۔
دوسری جانب، ایس ایچ او عطا محمد لغاری تھانہ سٹی کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے سے ہی اعلیٰ حکام کی جانب سے ہدایات دی گئی ہیں کہ دیوالی کے موقعے پر سکیورٹی سخت کی جائے۔
" نفری اور موبائلوں کا گشت بڑھا دیا ہے۔ یہاں کے لوگ امن پسند ہیں اور یہاں ہندو مسلمان اپنے تہوار مل کر مناتے ہیں۔ انشااللہ دیوالی امن سے گزر جائے گی۔"
تاریخ اشاعت 29 اکتوبر 2024