بیالیس سالہ محمد ادریس ہفتے میں دو مرتبہ نارووال شہر نہ جائیں تو ان کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
سیالکوٹ کی تحصیل ظفروال کے علاقے پرانا چونڈہ روڈ کے رہنے والے ادریس تین بچوں کے باپ اور پیشے کے اعتبار سے الیکٹریشن ہیں۔ 2010 میں ان کی صحت خراب رہنے لگی۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے دونوں گردے خراب ہو چکے ہیں جن کا ڈائلیسیز کروانا بہت ضروری ہے۔ چونکہ یہ سہولت انہیں اپنے علاقے میں دستیاب نہیں ہے اسی لیے وہ تیرہ سال سے ہر ہفتے دو مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر نارووال آتے جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے گردے تبدیل کروانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ان کا آپریشن کامیاب نہیں ہو سکا۔ اب ان کی صحت پہلے سے زیادہ خراب رہنے لگی ہے اسی لیے ڈاکٹروں نے انہیں ہفتے میں تین مرتبہ ڈائلیسیز کروانے کا کہہ دیا ہے۔
انہیں ڈائلیسیز کی سہولت اور ادویات حکومت کی طرف سے مفت ملتی ہیں لیکن ہفتے میں تین مرتبہ نارووال اپنے خرچے پر جانا ہوتا ہے جبکہ ان کے موجودہ مالی حالات میں اس کی گنجائش نہیں نکلتی۔
ادریس بتاتے ہیں کہ پہلے ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ آیا کرتی تھیں مگر اب وہ محنت مزدوری کر کے گھر چلا رہی ہیں اس لیے وہ تنہا نارووال جاتے ہیں۔
شکر گڑھ کے گاؤں اخلاص پور کی پچیس سالہ طاہرہ ملک غیر شادی شدہ اور دو سال سے گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے انہیں ڈائلیسیز کروانا لازمی ہے جس کے لیے وہ ہفتے میں دو مرتبہ نارووال آتی ہیں۔
"میرے والد محنت مزدوری کرتے ہیں جن کی آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ اس لیے نارووال آنے جانے کا کرایہ میں خود مزدوری کرکے پورا کرتی ہوں۔ کرایہ جمع نہ ہو تو ڈائلیسسیز کروانے نہیں آتی۔ ایسے میں صحت تو خراب ہوتی ہے مگر میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا؟''
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ کی آبادی سات لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن اتنی بڑی آبادی کے اس شہر میں صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ڈاکٹر محمد ریاض محمود تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال (ٹی ایچ کیو) شکرگڑھ میں بطور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کام کرتے ہیں۔انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ ٹی ایچ کیو میں نہ تو ڈائلیسیز یونٹ ہے اور نہ ہی یہاں کوئی نیفرالوجسٹ تعینات ہے۔
"گردوں کے مریضوں کو علاج معالجے کے لیے لاہور جانا پڑتا ہے جبکہ ڈائلیسیز کروانے والے مریض ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال نارووال کا رخ کرتے ہیں۔ شکرگڑھ کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی ڈائلیسیز کی سہولت نہیں ہے۔''
ڈاکٹر طارق شاہین ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال نارووال میں ڈائلیسیز وارڈ کے انچارج ہیں۔
انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ ان کے پاس ڈائلیسیز کروانے والے مریضوں میں سے 65 فیصد کا تعلق شکرگڑھ سے ہے جبکہ 20 فیصد ظفروال اور صرف 15 فیصد مریض نارووال سے آتے ہیں۔
ڈاکٹر طارق کے مطابق یہ پنجاب کا واحد ڈائلیسیز وارڈ ہے جہاں 12 مشینیں دن رات کام کر رہی ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں ڈائلیسیز کی سہولت صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک ہی ہوتی ہے۔
"دس مشینیں جنرل ڈائلیسیز کے لیے، ایک مشین ہیپاٹائٹس بی اور ایک ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے لیے مختص ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ ہر سال ہزاروں مریض ڈائلیسیز کروانے اس ہسپتال میں آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹی ایچ کیو ہسپتال شکرگڑھ اور ظفروال میں بھی ڈائلیسیز یونٹ بنا دئیے جائیں تو مریضوں کو درپیش بہت سی مشکلات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ہفتے میں دو تین مرتبہ کا سفر نہ صرف مریضوں کی جیب پر بھاری پڑتا ہے بلکہ ان کی صحت پر برا اثر ہوتا ہے اور ہنگامی حالات میں مریضوں کی جان بھی جا سکتی ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر محمد طارق کہتے ہیں کہ ضلعے میں صنعتیں اور روزگار کے موقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو محنت مزدوری کے لیے لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد، کراچی اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔
"فیکٹریوں اور کارخانوں میں نامساعد حالات میں کام کرنے والے مزدور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ گردوں کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔''
تاہم وہ آلودہ پانی کو گردوں کی خرابی کا سبب نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ شکرگڑھ کے سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں میں پینے کے پانی کے متعدد ٹیسٹ کروائے گئے ہیں اور ان میں آرسینک کی مقدار اس حد تک موجود نہیں کہ وہ گردوں کو خراب کرے۔
شکرگڑھ کے رہائشی عبدالغفار ڈاکٹر طارق کی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سکولوں اور ہسپتالوں میں پانی کا ٹیسٹ کروانا اچھی بات ہے لیکن محکمہ صحت رہائشی علاقوں میں فراہم کیے جانے والے پانی کے ٹیسٹ کیوں نہیں کرواتا؟
ان کا کہنا ہے کہ گردوں کے امراض میں مبتلا مریض عموماً معاشی طور پر بہت زیادہ کمزور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ مہنگا ترین علاج معالجہ ہے اور ایک بار ڈائلیسیز کروانے پر چھ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔
''پنجاب حکومت کو شکرگڑھ اور ظفروال میں ڈائلیسیز کی سہولت فراہم کرنی چاہیے"۔
یہ بھی پڑھیں
اسی آلودہ پانی میں عمر بہتی جا رہی ہے: نارووال کے شہری آلودہ پانی کے استعمال سے ہسپتالوں کا رخ کرنے لگے
ایسوسی ایشن آف ہیومن رائٹس کے ضلعی نائب صدر میاں محمد رفیق بتاتے ہیں کہ ''ڈی ایچ کیو میں پچھلے 14 سال سے نیفرالوجسٹ کی اسامی خالی ہے جبکہ مریضوں کو درست تشخیص اور علاج کے لیے لاہور جانا پڑتا ہے"۔
انہوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ٹی ایچ کیو ہسپتال شکرگڑھ اور ظفروال میں ڈائلیسیز وارڈ بنائے اور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں نیفرالوجسٹ کی خالی سیٹ پر تعیناتی کرے۔
ڈپٹی کمشنر اور چیئرمین ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی محمد اشرف نیفرالوجسٹ کی عدم موجودگی کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ کوئی بھی نیفرالوجسٹ نارووال آنے کو تیار نہیں ہے۔
"پورے پاکستان سے اگر کوئی نیفرالوجسٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال نارروال میں آنا چاہتا ہے تو ہمیں اطلاع دے، ہم اسے فوری طور پر جاب لیٹر دینے کے لیے تیار ہیں"۔
تاریخ اشاعت 22 مارچ 2023