آئندہ سال کے آغاز میں متوقع عام انتخابات کے پیش نظر دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا کے شمال میں واقع ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے اضلاع میں بھی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ تاہم اس مرتبہ سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کو بہت سے خدشات نے گھیر رکھا ہے۔
2023 کی مردم شماری کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں اور حد بندیوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد ضلع شانگلہ کی آبادی میں اضافے کے باعث وہاں ایک صوبائی حلقے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس طرح سابقہ حلقہ پی کے 24 سے تحصیل چکیسر اور پی کے 23 سے یونین کونسل رانیال اور یونین کونسل کوز کانا کو تحصیل بشام کے ساتھ ملا کر ایک تیسرے نئے حلقہ میں شامل کر دیا ہے۔ یہ نیا حلقہ تحصیل بشام، تحصیل چکیسر اور تحصیل الپوری کی دو یونین کونسلوں پر مشتمل حلقہ پی کے 29 شانگلہ ٹو کے نام سے جانا جائے گا جس کی آبادی دو لاکھ 60 ہزار ہے۔
نئے حلقے کی تشکیل سے متعدد سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت اور متوقع امیدوار پریشان دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے سابقہ پی کے 23 اور موجودہ پی کے 28 شانگلہ ون میں اپنا ووٹ بینک بنا رکھا تھا، تاہم اب تحصیل چکیسر کی شمولیت سے ان کو انتخابات سے قبل نئے حلقے میں مہم چلانے اور لوگوں کی حمایت کے حصول کا چیلنج درپیش ہو گا۔
قبل ازیں پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی اور سابق صوبائی کابینہ کے رکن شوکت علی یوسفزئی کو حلقہ 28 میں جیت کے لیے فیورٹ امیدوار سمجھا جا رہا تھا کیونکہ اس حلقے میں انہوں نے بہت سارے ترقیاتی کام کروائے تھے اور بہت سے لوگوں کو نوکریاں بھی دلوائیں۔ لیکن اب اگر وہ نئے حلقے یعنی پی کے 29 سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو اُن کے لیے شاید یہ نشست جیتنا اتنا آسان نہ ہو۔
شوکت یوسفزئی یہ الزام لگاتے ہیں کہ نئے حلقے کے اضافے اور اس کی حدی بندی میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صوبائی صدر امیر مقام کا ہاتھ ہے جنہوں نے خود یہاں سے الیکشن لڑنے کے لیے حلقے میں تبدیلی کرا دی۔
شوکت یوسفزئی کے بقول امیر مقام کو یہ خوف لاحق تھا کہ وہ انہیں ہرا نہیں سکیں گے اس لئے الیکشن کمیشن سے مل کر نیا حلقہ بنوایا اور بشام کو چکیسر سے ملا دیا ہے۔
"میں نے سابقہ پی کے 23 میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے ہیں اور وہاں ایک مضبوط ووٹ بینک بنایا ہے جس سے الیکشن میں میری جیت یقینی تھی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ چکیسر میں بھی لوگ مجھے سپورٹ کریں گے۔"
اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی ملاکنڈ ڈویژن کے صدر اور متوقع امیدوار ڈاکٹر افسر الملک نے بتایا کہ یونین کونسل کوز کانا اور رانیال سب تحصیل کانا ان کی مٹھی میں ہے، یہاں سے ہمیشہ انہیں بڑی تعداد میں ووٹ ملا ہے۔ تاہم ان دو یونین کونسلوں کو بشام کے ساتھ ملا کر اُن کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
ڈاکٹر افسرالملک بھی یہی الزام عائد کرتے ہیں کہ امیر مقام نے الپوری اور کانا کو تقسیم کیا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ خود پی کے 28 سے صوبائی نشست پر میدان میں اُترنے والے ہیں۔
افسر الملک کو خدشہ ہے کہ کانا تحصیل بشمول کوز کانا اور رانیال یونین کونسل سے وہ بڑی تعداد میں ووٹ لے کر پی کے 28 کی نشست جیت سکتے تھے جہاں سے وہ پہلے بھی ایم پی اے رہ چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخ 27 اکتوبر سے پہلے دونوں یونین کونسلوں کے حوالے سے اعتراضات جمع کرائیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدر امیر مقام حلقوں کی حد بندی اور نئے حلقے کے اضافہ پر مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شانگلہ کی خوش قستمی ہے کہ اسے صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں کے ترقیاتی فنڈز ملیں گے اور اس پسماندہ علاقے میں ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہو گا۔
وہ حلقوں کی نئی تقسیم کو سیاستدانوں سے زیادہ عوام کا فائدہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تقسیم درست ہے اور جغرافیائی لحاظ سے سارے علاقے ایک دوسرے سے مل گئے ہیں اور تحصیلیں بھی ایک ہوگئی ہیں۔
جعمیت علماء اسلام (ف) کے سابق اُمیدوار عماد احمد خان بھی نئے حلقے کی تشکیل کو اپنے لئے موزوں قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الپورئی میں ان کا اتنا ووٹ بینک نہیں تھا جتنا وہ چکیسر سے حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ وہاں پر ان کے رشتہ دار اور عزیز بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔
پی ٹی آئی تحصیل پورن کے چیئرمین اور پی کے 24 سے سابق امیدوار عبدالمولا بتاتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں ان کے حلقے سے چکیسر نکل جانے کے باعث یہاں انتخابی مہم چلانا آسان ہو گا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ چکیسر دور دراز اور مشکل علاقہ تھا جہاں سے بہت سارے مقامی اُمیدوار ہوتے ہیں اور ان کے لیے وہاں سے ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ اب انہیں صرف پورن اور مارتونگ تحصیل میں پہ انتخابی مہم چلانے پڑے گی جہاں ان کے بقول وہ آسانی سے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
اسی حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سابق ایم پی اے فیصل زیب بھی مطئمن دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے خیال میں یہ بہت بڑا حلقہ تھا، تحصیل چکیسر کے الگ ہو جانے سے اُن کے آسانی پیدا ہوگئی ہے، وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ شانگلہ میں حلقوں کے اضافے سے ترقیاتی فنڈز میں بھی اضافہ ہوگا اور علاقہ ترقی کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں
کوہستانی خواتین کی مقامی انتخابات میں عدم دلچسپی: 'مردوں کی حمایت کے بغیر ان کا سیاست میں آنا ممکن نہیں'۔
حلقہ بندیوں کے دوران ضلع اپر، لوئر کوہستان اور کولئی پالس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی اور انہیں 31، 32 اور 33 حلقہ نمبر دیےگئے ہیں۔
اسی طرح ضلع تورغر کی حد بندی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی جبکہ ضلع بٹگرام میں پی کے 34 الائی میں تھاکوٹ، بشکوٹ، ہوتل، دیشان اور پشوڑہ کی ولیج کونسلیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ اس سے پہلے یہ حلقہ 35 بٹگرام کا حصہ تھے۔
بٹگرام کے علاقوں کو الائی میں شامل کرنے پر مقامی لوگوں کواعتراض ہے۔ اس کے برعکس بٹگرام کی سیاسی جماعتیں اس فیصلے پر خوش ہے۔
الائی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے زبیر خان بتاتے ہیں کہ ان کے حلقے کی نئی حدود متعین کیے جانے سے علاقے کے عوام کو الائی آنے اور انہیں وہاں جاکر انتخابی مہم چلانے میں مشکلات ہوں گی۔
ضلع شانگلہ میں فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کے سابق کوآرڈینیٹر، علی بھاش خان نے بتایا کہ ان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ حلقوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو اور عوام کی فلاح کے لیے زیادہ فنڈز ملیں اور ایم پی اے اُسی علاقے میں قریبی آبادیوں سے تعلق رکھتے ہوں تاکہ عوام کی اُن تک رسائی آسان ہو۔
وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے بعد نئی حلقہ بندیوں اور حدبندیوں کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔
تاریخ اشاعت 13 اکتوبر 2023