روہڑی میں دریائے سندھ کے کنارے آغا قادر داد چھوہارا مارکیٹ پاکستان میں کھجور کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اس جگہ تین سو دکانیں اور گودام ہیں اور یہاں سے ہر سال بہت سی اقسام کی ہزاروں ٹن کھجور اندرون و بیرون ممالک بھیجی جاتی ہے۔ لیکن آج کل اس منڈی اور یہاں کے تاجروں اور مزدوروں کے حالات کچھ اچھے دکھائی نہیں دیتے۔
منڈی میں جا بجا گندے پانی کے جوہڑ اور غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ ہر طرف پھیلے کیچڑ اور بدبو کے باعث اس جگہ سے گزرنا بھی محال ہے۔ یہاں کاروبار کرنے والے سنجے کمار کہتے ہیں کہ منڈی کی حالت پہلے بھی کچھ اتنی اچھی نہیں تھی لیکن پچھلے سال آنے والے سیلاب نے اس جگہ اور یہاں ہونے والے کاروبار کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ سیلاب کے بعد منڈی میں مہینوں پانی کھڑا رہا جس سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔
آغا قادر داد مارکیٹ میں کاروبار اور مزدوری کرنے والے نجم علی، منیر جتوئی، حاجی مظہر الدین اور دیگر کا کہنا ہے کہ بارشوں کی وجہ سے کھجور کا دانہ تباہ ہو گیا اور درختوں میں کیڑا لگ گیا ہے جس کی وجہ سے پیداوار نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ان حالات میں کام ٹھپ ہو گیا ہے اور وہ روزانہ منڈی سے خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں۔
جب کھجور کی فصل اتاری جاتی ہے تو ہزاروں مزدوروں کو روزگار ملتا ہے جو پیڑ سے کھجور کے خوشے اتارنے سے لے کر اس کو سُکھانے، اس سے چھوہارا بنانے اور پیکنگ تک بہت سے کام کرتے ہیں۔ یہ کھجور کو سُکھانے کی چٹائیاں بُننے والے سینکڑوں مزدوروں کے لیے بھی روزگار کے حصول کا موقع ہوتا ہے جن کے چولہے اس سال بجھے رہے ہیں۔
سنجے کمار کہتے ہیں کہ بارشوں اور سیلاب سے کھجور کی فصل کو تو نقصان پہنچا ہی تھا لیکن اس سے بھی بڑا نقصان واہگہ بارڈر کے راستے کھجور کی برآمد بند ہونے سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے چھوہارا خریدنے والے بڑے ملکوں میں بھارت بھی شامل ہے لیکن 2019 میں واہگہ کے راستے کاروبار بند ہونے کی وجہ سے کھجور برآمد کرنے والے تاجر اور ان کے لیے کام کرنے والے ہزاروں مزدور سخت پریشانی سے دوچار ہیں۔
واہگہ بارڈر بند ہونے سے کھجور کی سالانہ برآمد کم ہو کر 30 فیصد تک ہی رہ گئی ہے
''پہلے ہمارا 90 فیصد کاروبار واہگہ کے راستے ہوتا تھا۔ روہڑی کے ریلوے جنکشن ہونے کی وجہ سے کھجور باآسانی لاہور پہنچ جاتی تھی جہاں واہگہ بارڈر کے راستے اسے کم خرچ اور مختصر وقت میں سرحد پار پہنچایا جا سکتا تھا لیکن اب ہمیں دبئی کے راستے کاروبار کرنا پڑتا ہے جو ناصرف بہت مہنگا پڑتا ہے بلکہ واہگہ کے مقابلے میں اس راستے سے 35 تا 50 فیصد مال ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔''
کھجور کے برآمد کنندہ عبدالرشید میتلو کا کہنا ہے کہ دبئی کے راستے چھوہارے کی برآمد پر اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ پہلے جو تاجر برآمد پر ایک لاکھ روپے خرچ کرتا تھا اب اسے دس لاکھ روپے تک خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ ماضی میں واہگہ بارڈر سے روزانہ دو سے تین سو تک ٹرک پندرہ سے بیس ہزار بوری کھجور لے کر انڈیا جاتے تھے لیکن اس برس یہ برآمد 30 فیصد سے بھی کم رہی۔ ایک تو بارشوں کی وجہ سے فصل ویسے ہی کم ہوئی ہے اور اوپر سے برآمد محدود ہو جانے کی وجہ سے تاجروں کو بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اس منڈی سے کھجور برآمد کرنے والے کنور لال اور راج کمار وادھوانی نے بتایا کہ ایک طرف تو انہیں بارشوں اور سیلاب نے تباہ کیا اور گوداموں میں پڑی ہوئی کھجور خراب ہوئی دوسری جانب واہگہ بارڈر بند ہونے سے تاجروں کی حالت اور بھی پتلی ہو گئی ہے۔ پانچ لاکھ کی کھجور برآمد کرنے پر پانچ ہزار اور ایک کروڑ کی کھجور باہر بھیجنے پر 5 لاکھ ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ اگر اس میں کمی کر دی جائے تو کھجور کی برآمد بڑھ جائے گی۔
سکھر چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر گرداس وادھوانی کہتے ہیں کہ 2020 میں برآمد پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کر دی گئی تھی۔ بعد میں ڈالر بھی 270 روپے تک پہنچ گیا اور واہگہ بارڈر بند ہونے سے کھجور کی سالانہ برآمد کم ہو کر 20 سے 30 فیصد تک ہی رہ گئی ہے۔
''اس سال 5 لاکھ بوری کھجور ہی برآمد ہو سکی ہے جوکہ ماضی کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم مقدار ہے اور برآمد کنندگان بہت مشکل میں ہیں۔ اس سال کھجور کی برآمد سے کتنا زرمبادلہ حاصل ہوا اس کے بارے میں تو اسٹیٹ بینک ہی بتا سکتا ہے لیکن ہمارے اندازے مطابق ماضی میں کھجور کی برآمد سے ملک میں ہر سال 70 کروڑ ڈالر آتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
بڑا ہی زور ہے اس بار مینہ کے قطروں میں: 'اس سال خیرپور میں کھجور کے کاشت کار قرض کیسے اتاریں گے، مزدور گھر کیسے چلائیں گے؟'
کھجور برآمد کرنے والے تاجر عبدالرشید میتلو نے بتایا کہ خیرپور میں کرم آباد اور ٹھیڑھی کے علاقے میں کھجور کی پیکنگ اور دیگر کاموں کی تقریباً 60 فیکٹریاں چل رہی ہیں مگر حکومت کی جانب سے انہیں کوئی سہولت نہیں ملتی۔ انہوں نے بتایا کہ کھجور کے بیج بھی کارآمد ہوتے ہیں اور اس کی ویلیو ایڈیشن کرکے بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں کھجور کے علاوہ صرف چھوہارا ہی برآمد کیا جاتا ہے۔
آغا قادر داد مارکیٹ میں کاربار کرنے والے نزاکت جتوئی کا کہنا ہے کہ کھجور کی برآمد سے ملک کی معیشت میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ برآمد کنندگان کو زیادہ سہولیات دے کر انہیں زیادہ سے زیادہ مقدار میں کھجور بیرون ملک فروخت کرنے کی ترغیب دے۔ اس طرح ملک میں زرمبادلہ آئے گا جو ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔
'' کھجور کی برآمد تقریباً 23 ارب روپے کا کاروبار ہے مگر ٹیکس کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے بیشتر برآمدکنندگان ''ہنڈی'' پر کاروبار کرتے ہیں۔ انڈیا کھجور درآمد کرنے والا بڑا ملک ہے تاہم واہگہ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے آڑھتی ہم سے سستے داموں کھجور خرید کر کہ دبئی کے راستے اسے مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ جب ہم واہگہ سے انڈیا میں کھجور برآمد کرتے تھے تو تاجروں اور ملک دونوں کو فائدہ ہوتا تھا۔''
تاریخ اشاعت 22 مارچ 2023