'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

postImg

عمر باچا

postImg

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

عمر باچا

باسٹھ سالہ بازیر خان، بشام شہر سے تین کلومیٹر دور قراقرم ہائی وے پر واقع گاؤں زوڑشنگ کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ روز قبل چند لوگ ان کے گاؤں آئے جنہوں آتے ہی وہاں دوربین اور فیتے لگانا شروع کر دیے۔

جب مہمانوں سے پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں اور کیا رہے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ سرکاری اہلکار ہیں جو وہاں داسو ہائیڈرو پاور ٹرانسمیشن لائن کا ٹاور لگانے کے لیے سروے کر رہے ہیں۔

مگر بازیر کہتے ہیں کہ 14 گھروں پر مشتمل اس چھوٹی سی بستی میں جگہ ہی نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہاں اتنا بڑا ٹاور کیسے لگے گا۔

وہ فوری طور پر مقامی سوشل ورکر ریٹائرڈ کیپٹن عباس خان کے گھر پہنچے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ ان سے درخواست کی کہ وہ حکام تک ان کی بات پہنچائیں کہ یہ ٹاور گھروں کے درمیان نہ لگایا جائے۔ اگر لائن یہاں بچھائی گئی تو ان کے لیے رہنا محال ہو جائے گا۔

باریز خان کے بقول ریٹائرڈ کیپٹن عباس کی درخواست پر اسسٹنٹ کمشنر بشام محمد عدنان نے 29 نومبر کو ان (بازیر خان) سمیت شکایت کنندگان اور این ٹی ڈی سی(نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی) والوں کو ساتھ بٹھا کر بات کی۔

"اس جرگے میں ہم (زوڑشنگ کے رہائشیوں) نے ٹاور گاؤں سے دور لگانے کا مطالبہ کیا مگر اے سی اور این ٹی ڈی سی والوں نے کوئی یقین دہانی کرائے بغیر کہا کہ آپ کے مطالبے پر غور کیا جائے گا۔"

اس گاؤں کی آبادی انتہائی غریب خاندانوں پر مشتمل ہے جن میں سے بیشتر مرد کراچی میں مزدوری کرتے ہیں یا پھر یہ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں۔

صرف زوڑشنگ ہی نہیں مجوزہ ٹرانسمیشن لائن کا روٹ شانگلہ اور مانسہرہ کے وسیع علاقے کو متاثر کر رہا ہے جہاں دیہات میں بنیادی سہولیات تک سے محروم لوگ انتہائی کم وسائل میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

داسو سے اسلام آباد تک ڈھائی سو کلو میٹر لمبی تاریں اور 674 ٹاور

خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں زیر تعمیر چار ہزار 320 میگاواٹ صلاحیت کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بجلی قومی گرڈ میں شامل کرنے کے لیے ٹرانسمیشن لائن بچھائی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری واپڈا کے ذیلی ادارے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو دی گئی ہے۔

عالمی بینک اس منصوبے میں حکومت کی مالی معاونت کر رہا ہے جس کی آفیشل سائٹ پر این ٹی ڈی سی  کے 'ری سیٹلمنٹ ایکشن پلان' کے مطابق داسو سے اسلام آباد مغربی گرڈ تک ڈھائی سو کلومیٹر طویل، 765 کے وی (ہائی وولٹیج ڈبل سرکٹ) ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی۔

یہ ترسیلی لائن جن آٹھ اضلاع سے گذرے گی ان میں کوہستان اپر، کوہستان لوئر، شانگلہ، بٹگرام، مانسہرہ، ہری پور، ایبٹ آباد اور اٹک شامل ہیں۔

ری سیٹلمنٹ پلان کی نظرثانی شدہ رپورٹ بتاتی ہے کہ مجوزہ لائن کے لیے کل 674 ٹاور لگیں گے جن میں سے ہر ٹاور کی اونچائی تقریباً 83 میٹر ہوگی جو اوسطاً 400 مربع میٹر جگہ گھیرےگا جبکہ ٹرانسمیش لائن کا راستہ (رائٹ آف وے) 80 میٹر چوڑا ہو گا۔

مجوزہ ٹرانسمیشن لائن سے مجموعی طور پر لگ بھگ پانچ ہزار ایکڑ رقبہ متاثر ہو گا جس میں صرف دو ہزار 190 ایکڑ رقبہ بنجر اراضی شامل ہے۔ باقی تمام رقبے میں زرعی زمینیں، باغات، جنگل، رہائشی آبادیاں اور تعمیرات موجود ہیں۔

اس رپورٹ میں شامل سماجی و ماحولیاتی سروے  تصدیق کرتا ہے کہ اس منصوبے سے ایک ہزار 88 دیہی خاندان (سات ہزار 740 افراد) شدید متاثر ہوں گے جنہیں اپنے گھروں، کمرشل عمارتوں، پولڑی فارم، باغات یا فصلوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

ترسیلی روٹ سے 29 ہزار 729 درخت (بشمول پھلدار اور ٹمبر) کاٹے جائیں گے جن میں 25 ہزار سے زائد نجی ملکیت ہیں۔ ان کے علاوہ 50 کے قریب کمرشل اور رہائشی عمارتیں گرانا پڑیں گی۔

یہ ٹرانسمشن لائن داسو سے مانسہرہ (140 کلومیٹر) دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بچھائی جائے گی جہاں بشام سے مانسہرہ تک بیشتر زمینیں نجی ملکیت ہیں۔ سارے راستے میں الپائن کے قیمتی درخت، متنوع جنگلی حیات، باغات، کھیت اور رہائشی بستیاں موجود ہیں۔

زمین مالکوں کی، تاریں اور ٹاور واپڈا کے

ری سیٹلمنٹ پلان کے مطابق این ٹی ڈی سی، ٹرانسمیشن لائن کے لیے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت اراضی حاصل(معاوضے پر زمین کی خریداری) نہیں کرے گی بلکہ نجی زمینوں کے استعمال کے لیے ٹیلی گراف ایکٹ 1885ء اور واپڈا ایکٹ 1958ء کو بروئے کار لایا جائے گا۔

اس قانون کے تحت زرعی اراضی، باغات و جنگلات میں سے ٹرانسمیشن لائن گذارنے کا کوئی معاوضہ نہیں ہو گا جبکہ لائن بچھانے کے دوران فصلوں اور درختوں کو پہنچنے والا نقصان پورا کر دیا جائے گا۔

البتہ ٹاور کی جگہ کا معاوضہ فی ٹاور 11 لاکھ 20 ہزار روپے دیا جائے گا مگر یہ زمین موجودہ مالکان ہی کی ملکیت رہے گی۔

سرکاری دستاویز کہتی ہے کہ اس معاوضہ پیکیج اور پورے ایکشن پلان پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے عوامی سطح (بشمول خواتین) پر مشاورت کی گئی تھی مگر بشام کی صورت حال بتاتی ہے کہ لوگوں کے تحفظات دور نہیں ہو سکے۔

آصف خان قراقرم ہائی وے پر واقع گاؤں شنگ کے رہائشی اور ممکنہ متاثرین میں شامل ہیں۔ وہ حالیہ سروے سے پہلے اس علاقے میں کسی بھی سرکای اجلاس یا اعتماد میں لیے جانے کی تردید کرتے ہیں اور کافی غصے میں ہیں۔

"بس واپڈا بدمعاش بن کر ہماری زمینوں پر جگہ جگہ کھمبے لگائے جا رہا ہے جیسے یہ پورا پاکستان ان کو میراث میں ملا ہو۔ میری 100 کنال زمین میں پہلے ہی چار لائنیں موجود ہیں اب انتظامیہ مزید کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔"

ہائی ٹرانسمیشن لائن گزرنے سے یہ تنگ پہاڑی پٹی رہائش کی قابل نہیں رہے گی

بشام کے تحصیل چیئرمین حاجی سدید الرحمن بتاتے ہیں کہ ان کی تحصیل میں چھوٹا لاہور سے دندئی تک ہموار زمین بہت کم ہے۔ پہاڑوں کے بیچوں بیچ گذرتے دریا اور شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ محض 50 سے 100 کنال کی پٹی رہ جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں پہلے ہی خان خوڑ پاور ہاؤس۔پورن گرڈ کے علاوہ کوہستان اور بشام کے لیے پیسکو کی لائنیں ملا کر ہر طرف بجلی کے پول اور تار نظر آتے ہیں۔

اب حکومت انہیں زمینوں پر داسو اور دیامر بھاشا کی ہائی ٹرانسمیشن لائنیں بچھانے جا رہی ہے جس سے ناصرف زرعی زمینیں ناکارہ ہوجائیں گی بلکہ یہ پٹی رہائش کے قابل بھی نہیں رہے گی۔

 "ہماری پوری تحصیل کے صرف دو گاؤں یعنی شنگ اور میرہ میں کچھ اراضی باقی ہیں جہاں باغات اور فصلیں اگائی جا رہی ہیں۔"

گاؤں شنگ ہی کے رہائشی اختیار علی بتاتے ہیں کہ 2010ء میں یہاں سے 72 میگاواٹ کی خان خوڑ ٹرانسمیشن لائن بچھائی گئی۔ اس وقت بھی این ٹی ڈی سی نے پولیس بلا کر ان کے باغ سے امرود کے کئی پودے کاٹ دیے اور بڑے بڑے ٹاور لگا کر زمین کو ہمیشہ کے لیے بیکار کر دیا۔

"ہم نے این ٹی ڈی سی عملے سے سختی سے بات کی تو انہوں نے ہمارے گھر اور کھیت کے درمیان آخری تار کو ڈھیلا چھوڑ دیا جو زمین سے صرف 15فٹ اوپر جھول رہی ہے۔"

انہوں نے اپنے امرود اور مالٹے کے باغ میں ایک جلا ہوا درخت دکھاتے ہوئے کہا کہ یہاں جب بھی درخت سات فٹ سے اوپر جاتا ہے تو دھماکا ہو جاتا ہے اور وہ ایسا غائب ہوتا ہے جیسے یہاں کبھی درخت تھا ہی نہیں۔

"اب میری کروڑوں کی زمین کوئی 50 ہزار روپے کنال پر بھی نہیں خریدتا کیونکہ یہاں کھیتی ہو سکتی ہے نہ رہائش۔ بس سمجھیں اس پر واپڈا نے زور زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔"

ہماری زمینوں پر بجلی کے کھمبے اور تار مکڑی کے جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں

اختیار علی کہتے ہیں کہ ان کے چچازاد بھائیوں کی زمین پر بجلی کے کھمبے اور تار ایسے پھیلے ہوئے ہیں جیسے مکڑی کا جال ہو۔ ان کے بقول بہتر ہے یہاں نئی لائنیں بچھانے سے پہلے اس گاؤں کے لوگوں کو ختم کر دیں یا سب کی نقل مکانی کرا دیں۔

مقامی جرگے کے رکن افراق خان بتاتے ہیں کہ ان کی زمین پر بجلی کے چھ ٹاور لگے ہوئے ہیں۔ یہ لائنیں اتنی خطرناک ہیں کہ ان کے نیچے آپ 'ٹیسٹر' لے کر چلے جائیں تو وہ لائٹ دیتا ہے۔ ایسی جگہ پر فصل کی کاشت ممکن ہی نہیں ہے۔

داسو ٹرانسمیشن لائن کے لیے ضروری ہے کہ ٹاور آبادی اور زرعی اراضی سے دور لگائے جائیں۔ واپڈا ناصرف ٹاورز میں آنے والی زمین کی مکمل ادائیگی کرے بلکہ علاقے میں ترقیاتی کام کے ساتھ متاثرین کو مفت بجلی دی جائے۔

تحصیل چیئرمین بھی جرگہ ارکان کی تائید کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ واپڈا نے معاوضوں کی پہلے ادائیگی اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی نہ بنایا تو بشام کے لوگ بھی کوہستان والوں کی طرح سڑکوں پر آئیں گے۔

واضح رہے گزشتہ ماہ کوہستان لوئر میں ایسے ہی مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کی کال دی گئی تھی جس پر جرگہ لیڈر مولانا کریم داد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

مہمند ڈیم کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کب ہو گی؟

 اس واقعہ پر شاہراہ قراقرم پر مسلسل ایک ہفتہ دھرنا رہا اور مذاکرات کے بعد مولانا کریم داد کو رہائی ملی تاہم وہاں جرگے نے واپڈا کو اب بھی الٹی میٹم دے رکھا ہے۔

'لوگ متحد ہو چکے ہیں، ہم ٹاور نہیں لگنے دیں گے'

تحصیل بشام کے تمام مشران پر مشتمل جرگے نے نو دسمبر کو اسسٹںٹ کمشنر سے ملاقات کی جس میں داسو ٹرانسمیشن لائن کو زرعی اراضی سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ساتھ ہی مشران نے دھمکی دی کہ اگر معاوضہ دیے بغیر ان کی زمین استعمال کی گئی تو وہاں کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔

تحصیل بشام کے ایک اور جرگہ ممبر ریٹائرڈ کیپٹن عباس خان کہتے ہیں کہ اس بار بشام تحصیل میں آبادی اور زرعی زمینوں پر ٹاور نہیں لگنےدیں گے۔ لوگ متحد ہوچکے ہیں اور مطالبات نہ مانے گئے تو کام شروع نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اسسٹنٹ کمشنر عدنان خان کہتے ہیں کہ ٹرانسمشن لائن کے معاملے پر ابھی اجلاس ہونے ہیں لیکن کچھ مخصوص افراد قومی مفاد کے خلاف سازش کررہے ہیں۔

تاہم ڈپٹی کمشنر شانگلہ محمد فواد خان بتاتے ہیں کہ اس بار ٹاور آبادی سے دور پہاڑوں میں لگائے جارہے ہیں جس کے سروے میں این ٹی ڈی سی کے ساتھ محکمہ مال کے افسران بھی کام کر رہے ہیں۔ حتمی سروے رپورٹ آ جائے تب ہی وہ اس معاملے پر بات کرسکیں گے۔

این ٹی ڈی سی کے ساتھ کام کرنیوالے تحصیلدار عرفان خان کہتے ہیں کہ ابھی ٹاورز کی جگہ کی مٹی ٹیسٹ کی جا رہی ہے جب تنصیب کا کام شروع ہو گا تو متاثرین کو ادائیگیاں کر دی جائیں گے۔

جب اس مدعے پر این ٹی ڈی سی کے ایکسیئن محمد عظیم سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کررہے ہیں۔ ان کی کوشش ہو گی کہ ٹاورز کو زرعی زمین سے دور لگایا جائے، امید ہے معاملات جلد حل ہو جائیں گے۔

"شانگلہ میں ابھی ٹاور لگانے کا کام شروع نہیں کیا گیا۔ تاہم واپڈا میں مرکزی سطح پر جو پالیسی بنتی ہے ہم اسی پر چلتے ہیں اور اس پر عمل درآمد بھی کریں گے۔"

تاریخ اشاعت 14 جنوری 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.