مظفر آباد کے نجی ہسپتالوں میں ایک دوا کے استعمال سے مریضو ں کی طبیعت مسلسل بگڑنے لگی تو اس دوا کو ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نتائج آئے تو سب میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
شہر کے ایک نجی ہسپتال کے عملے کی جانب سے کچھ عرصے سے شکایت سامنے آ رہی تھی کہ مریضوں کو سرجری کے لیے بے ہوشی کی دوا دینے کے بعد ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔
عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں بھی کچھ ایسا ہوا۔ وہاں بطور فارماسسٹ وابستہ نورین اکبر نے بتایا کہ سرجری سے قبل مریضوں کو بے ہوش کرنے کی خاطر استعمال ہونے والی دوا آئسو فلورین امریکا میں تیار ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کے مختلف سپلائرز میں سے ایک، عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو یہ دوا فراہم کر رہا تھا۔
ڈاکٹرز نے توجہ دلائی کہ جن لوگوں کو آئسو فلورین دی جا رہی ہے ان میں دیگر مسائل کے علاوہ یرقان اور ہیپائٹس سی کی شکایات بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ لیبارٹری میں ٹیسٹ کے نتیجے سے تصدیق ہوئی کہ مذکورہ دوا میں آئسو فلورین کی جگہ کلوروفام شامل تھا جو متروکہ دوا ہے۔
جعلی دوا کے معاملات ڈرگ انسپکٹر کے نوٹس میں آئے تو انہوں نے جعلی دوائیں بیچنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔
ڈرگ انسپکٹر فوزیہ اشرف بتاتی ہیں کہ اس دوران جعلی ڈپلوموں کی بنیاد پر مظفرآباد کی حدود میں کھلے 32 میڈیکل سٹورز سیل کر دیے گئے۔ ان کے خلاف ڈرگ ایکٹ 1976ء کی دفعہ 23 کے تحت مقدمات بھی درج کیے گئے۔ ان کے مطابق یہ میڈیکل سٹورز تاحال نہیں کھلے۔
آزاد کشمیر کے 10 اضلاع میں سے آٹھ میں ڈرگ انسپکٹر جبکہ دو میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر خود میڈیکل سٹورز کی چیکنگ کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل صحت کے دفتر سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جون 2020ء سے جون 2023ء تک نو ہزار 56 میڈیکل سٹورز کی چیکنگ کی گئی۔ ان میں دو ہزار 947 رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی چھ ہزار 109 میڈیکل سٹورز تاحال رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ صرف مظفر آباد میں میڈیکل سٹورز کی تعداد 15 سو سے زائد ہے۔ ان میں سے دو تہائی بنا رجسٹریشن کے کام کر رہے ہیں۔
محکمہ صحت کے ایک آفیسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چار سو ایسے سٹور تھے، جنھیں جعلی ڈپلومہ کی بنیاد پر محکمہ صحت کی جانب سے لائسنس جاری کیے گئے تھے۔ یہ بیس بیس سال سے چل رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر جعلی یا غیر معیاری ادویات فروخت کر رہے ہیں۔
ان سٹوروں میں جعلی، غیر معیاری، زائدالمیعاد اور غیر رجسٹرڈ ادویات فروخت کیے جانے کے ساتھ ساتھ ایسی ادویات بھی فروخت کی جا رہی تھیں جو بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ تھیں۔ یہ زہریلی اور انسانوں کے لیے ناقابل استعمال تھیں۔ انہیں ایکسامول ایکسٹرا، انجکشن آر ایل 1000ایم ایل، کیلشیم کاربونیٹ 800 و دیگر کے نام پر فروخت کیا جا رہا تھا۔
محکمہ کی جانب سے ایک ہزار 970 ادویات کے نمونہ جات میرپور ڈی ٹی ایل (ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری) ارسال کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 27 ادویات غیر معیاری، 45 زائدالمیعاد اور 56 غیر رجسٹرڈ پائی گئیں۔ کارروائی کے دوران ڈرگ سیل لائسنس اور کوالیفائیڈ سٹاف کے بغیر چلنے والے 70 میڈیکل سٹورز کو بند کیا گیا۔
اس کے علاوہ کوالٹی کنٹرول بورڈ، آزاد کشمیر کو 78 ایسے کیسسز موصول ہوئے جن میں میڈیکل سٹورز کی جانب سے ڈرگ سیل رولز کی مکمل خلاف ورزی کی گئی تھی۔ کوالٹی کنٹرول بورڈ نے ان کیسسز کے ٹرائل کے لیے اندراج کی منظوری دی ہے تاہم کارروائی اسی صورت ممکن ہے جب ڈرگ کورٹس موجود ہوں۔
چیف ڈرگ کنٹرولر سردار ریاض الحسن کا کہنا ہے کہ ریاست جعلی ادویات کے کاروبار کی اجازت نہیں دے سکتی۔ آزاد جموں و کشمیر میں نافذ ڈرگ ایکٹ 1976ء کے سیکشن اے ون کے تحت جعلی دوا بنانے اور فروخت کرنے والے کو کم از کم پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ڈرگ کورٹ غیر فعال ہونے کے باعث موت کا کاروبار کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
"2021ء سے ڈرگ کورٹس غیر فعال ہونے کے باعث 329 کیسسز کا اندراج ہی نہیں ہو سکا جبکہ متعدد انڈر ٹرائل کیسسز بھی التوا کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پچھلے تین سال کے دوران جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والے صرف ایک شخص کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس چل رہا ہے"۔
ریاض الحسن کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں یہ کورٹ ڈرگ ایکٹ 1976ء کے سیکشن 31 کے تحت بنائی جانا تھی۔ اس ایکٹ کو 1986ء میں آزاد کشمیر میں اپنایا گیا تھا۔ ابتدا میں ڈرگ کورٹ کو ہائی کورٹ کے جج کو اضافی چارج دے کر چلایا جاتا رہا بعد میں چارج بینکنگ اور احتساب عدالت کے جج کو دیا گیا تھا۔
"نومبر 2021ء میں احتساب عدالت کے جج ریٹائرڈ ہو چکے ہیں جس کے بعد سے یہ کورٹ غیر فعال ہے جبکہ الگ سے ڈرگ کورٹ آج تک تشکیل نہیں دی جا سکی جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی بتائی جا رہی ہے"۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سردار آفتاب نے لوک سجاگ کو بتایا کہ آزاد کشمیر میں ڈرگ کورٹ کے ذریعے ہی کارروائی آگے بڑھائی جا سکتی ہے اور سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ کورٹ بنانا حکومت کا کام ہے۔
"جعلی ڈپلومے بیس بیس سال پرانے ہیں، انہیں کس نے جاری کیا اور کون تجدید کرتا رہا اس پر میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتا، البتہ جب سے میں نے چارج سنبھالا ہے ان کے خلاف مختلف اوقات میں کارروائی کی گئی ہے۔"
سردار آفتاب نے کہا کہ انسانی زندگی کے ساتھ کھیلنے والا کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کی معافی کا مستحق نہیں۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے ممبران کو ڈسکلوز نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ لوگ مختلف ذریعے سے ان تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ جب تک قانونی تقاضے پورے نہیں ہوتے کوئی بھی سٹور کھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری جانب جب ڈرگ انسپیکٹر فوزیہ اشرف اور ڈی ایچ او عامر شہزاد نے جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی تو ان کو محکمے اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈی ایچ او عامر شہزاد کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہاں ایک میڈیکل سٹور کو سیل کیا تو انہیں اور ماتحت عملے کو نوکری سے فارغ کروانے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں جس کے خلاف انہوں نے تھانہ سٹی میں ایف آئی آر درج کروا دی ہے۔
"پہلے سٹور دوبارہ کھلوانے کے لیے رشوت کے طور پر بھاری رقم دینے کی آفر کی گئی۔ انکار پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ دیگر عملے کو بھی ہر روز ایسے ہی دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ جن کی اسکرین شاٹس بھی موجود ہیں۔"
کئی میڈیکل سٹورز کو زیادہ عرصہ بند نہیں رکھا جا سکا۔ محکمہ صحت ہی کے ایک آفیسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جن میڈیکل سٹوروں کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے پشت پناہی حاصل تھی، انھیں ستمبر کے آخر میں دوبارہ کھول دیا گیا۔
اس معاملے میں ادویات ساز کمپنی کے خلاف کارروائی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر کسی میڈیکل سٹور کے پاس بل وارنٹی ہوتی ہے تو ہم اس کمپنی کے خلاف بھی کارروائی کرتے ہیں، جس نے جعلی یا غیر معیاری ادویات دی ہوں۔
یہ بھی پڑھیں
ڈرگ مافیا یا حکومتی کوتاہی: وسطی پنجاب میں مرگی کے مریض دوا کے لیے خوار
"میں نے 2020ء میں اس وقت ڈپٹی کمشنر بدر منیر کو تحریر کیا تھا کہ ان کمپنیوں کو ایک دائرہ کار میں لانا چاہیے تاکہ یہ ٹیکس ادا کریں، لیکن ابھی تک کوئی عملی کارروائی نہیں ہوئی۔ بدقسمتی سے کوئی بھی فارما سیوٹیکل کمپنی آزاد کشمیر میں کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہی حالانکہ یہ کمپنیاں ادویات کی مدد میں یہاں سے اربوں روپے کماتی ہیں۔"
فارما ایسوسی ایشن کے نمائندے ساجد سلہریا محکمہ صحت کے اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ اپنی رپورٹ پبلک کرتے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ محکمہ صحت کے آفیسر ایسے معاملات کی تشہیر کر کے رشوت لینا چاہتے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔
"کوئی بھی دوا غیر معیاری نہیں۔ اگر کوئی دوا غیر معیاری ہے تو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور محکمہ صحت کے ذمہ داران نے رپورٹ پبلک کیوں نہیں کی؟ یا ہمارے علم میں کیوں نہیں لایا گیا۔ یہ بات پراپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں چار پانچ سو فارما سیوٹیکل کمپنیاں کام کر رہی ہیں جو سب کی سب پاکستان سے رجسٹرڈ ہیں۔ اگر کوئی دوا غیر معیاری نکلی ہے تو اس پر اور ملوث کمپنی پر پابندی عائد کی جائے۔
تاریخ اشاعت 4 دسمبر 2023