پاکستان کا سب سے بڑا دریا سیکڑوں میل کا فاصلہ طے کرتا، پہاڑوں کے درمیان گھومتا، چٹانوں اور ندی نالوں سے ٹکراتا جب کالاباغ کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کا "استقبال" سیوریج کے پانی اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے ہوتا ہے۔
کالاباغ ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کا قصبہ ہے جس کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
یہ پہلا مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔
دریائے سندھ میں کالاباغ کے مقام پر1949ء میں جناح بیراج تعمیر کیا گیا تھا جہاں سے تھل کینال کا پانی لیہ، بھکر اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو سیراب کرتا ہے۔
کالاباغ میں وانڈھا ککڑاں والا کے قریب نمک کی کانیں ہیں جہاں دریائے سندھ کے عین کنارے پر ان کانوں سے نکالا جانے والا نمک ذخیرہ کیا جاتا ہے۔یہ نمک بھی آبی حیات خصوصاً مچھلیوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
دریائے سندھ تھوڑا سا آگے جا کر کالا باغ کی آبادی میں داخل ہوتا ہے تو اس کے کنارے پر فضلے، گندگی اور کچر ے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
علاقہ مکین کوڑا کرکٹ دریا کے کنارے بہت سی جگہوں پر ڈھیر کر دیتے ہیں۔ چونکہ کالا باغ شہر پہاڑ کی ڈھلان پر واقع ہے اس لیے فضلہ اور گھروں کا گندا پانی سیدھا دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔
کالاباغ میں کوئی سیوریج سسٹم نہیں ہے اس لیے بلدیہ کی طرف سے بنائے گئے نالوں اور چھوٹی نالیوں کا پانی بھی دریا میں ہی شامل ہوتا رہتا ہے۔
نیشنل لائبریری آن میڈیسن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی صحت پر دریائی آلودگی کے اثرات کے بارے میں اب تک بہت کم تحقیق کی گئی ہے لیکن یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
دریائے سندھ کے کنارے آبادی کا زیادہ تر حصہ پینے کے پانی کے لیے اسی دریا پر انحصار کرتا ہے اس میں جو مضرصحت کیمیائی مادے شامل ہوتے رہتے ہیں وہ پانی ابالنے سے ختم نہیں ہوتے۔
دریائے سندھ میں آبی آلودگی نے مچھلیوں کی کئی انواع کو بھی معدوم کر دیا ہے اور دریا کے قریب رہنے والے بہت سے لوگوں کے لیے خوراک کی بھی قلت ہو گئی ہے۔
زیریں انڈس ڈیلٹا کے کچھ حصوں میں سمندری حیات سے بھرپور دلدلی جنگلات ساحلی آبادی کے لیے خوراک کا ایک اہم ذریعہ تھے جو دریا کے ماحولی نظام میں آنے والے آلودہ پانی کی وجہ سے تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔
بلدیہ کالاباغ کے سب انجنئیر عامر مرتضٰی کہتے ہیں کہ کالاباغ شہر کا محل وقوع ایسا ہے کہ چاہے برساتی نالہ ہو یا سیوریج کا پانی، اس نے دریائے سندھ میں ہی جا کے گرنا ہے۔
کالا باغ کے 13 بڑے گندے نالوں کا پانی دریائے سندھ کے پانی کو آلودہ کر رہا ہے
انہوں نے بتایا کہ بلدیہ کالاباغ کے پاس مجموعی طور پر 15 خاکروب ہیں جن میں سے صرف 10 ہی علاقے میں صفائی کے لیے دستیاب ہیں جبکہ باقی پانچ شہر میں پانی کی فراہمی کے تین مراکز پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔
"اصولاً ایک ہزار آبادی کے علاقے میں ایک خاکروب ہونا ضروری ہے۔ لیکن 2010 کے بعد حکومت نے بلدیہ کے لیے کوئی نیا خاکروب بھرتی نہیں کیا۔ پچھلے 13 سال میں کئی سرکاری خاکروب یا تو ریٹائر ہو گئے ہیں یا وفات پا چکے ہیں۔''
انہوں نے بتایا کہ اس وقت بلدیہ کے 13 بڑے گندے نالوں کا پانی دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ یہ نالے کالاباغ کے محلہ اتلا پتن، محلہ عید گاہ، تنگ بازار، لوہاراں والی مسجد، مین بازار، لاری اڈا اور ملحقہ آبادی کا گندا پانی لاتے ہیں جبکہ برساتی نالے ان کے علاوہ ہیں۔
عامر مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ افرادی قوت کم ہونے کے باوجود وہ وقفے وقفے سے دریا کے کنارے پڑے کچرے کو اٹھواتے رہتے ہیں لیکن کچرا ڈالنے والوں کی تعداد صفائی کرنے والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
کالا باغ سے دو کلومیٹر دور گاؤں وانڈھا ککڑاں کے لوگوں کا انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے۔ دو ہزار نفوس پر مشتمل اس گاؤں کے بیشتر لوگ نمک کی کانوں میں کام کرتے ہیں اور بعض محنت مزدوری کے لیے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔ یہاں کے مکین دریائے سندھ کا پانی پیتے ہیں اور اسی پانی سے برتن اور کپڑے بھی دھوتے ہیں۔
اکتوبر 2019 میں کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے سیمینار میں 'ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر-پاکستان' کی نمائندگی کرنے والی شاہزین پرویز نے بتایا کہ دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں داخل ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سمندری کچرے میں پلاسٹک کا حصہ 60 سے 80 فیصد ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی کے اعتبار سے سندھ دنیا کا دوسرا دریا ہے۔
شاہزین کے مطابق، پی ای ٹی (پولی تھین ٹیریفتھلیٹ) پلاسٹک جو کھانے، مشروبات، خاص طور پر سافٹ ڈرنکس، جوس اور پانی کی پیکنگ کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے، ہزاروں سال تک اپنی کیمیائی ہیئت برقرار رکھتا ہے اور آبی گزرگاہوں کو آلودہ کرتا رہتا ہے اور اسے کھانے والی سمندری حیات کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
میانوالی میں محکمہ ماحولیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد یاسر کا کہنا ہے کہ دریا میں آلودگی پھیلانے کے واقعات کے خلاف ان کا محکمہ اس وقت تک ایکشن نہیں لیتا جب تک اسے کسی ادارے یا شہری کی طرف سے تحریری درخواست موصول نہ ہو۔
''دریا میں کوڑا کرکٹ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی بلدیہ کالاباغ کے فرائض میں شامل ہے اور وہی ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔''
یہ بھی پڑھیں
سندھ کی معدوم ہوتی جھیلیں:'اب ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں خالی پیٹ سونا پڑتا ہے'
دریا کنارے نمک ذخیرہ کرنے سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی کے بارے میں جب محکمہ معدنیات کے مائن مینجر محمد شعیب سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ کالاباغ میں دریائے سندھ کے کنارے پہاڑوں میں نمک کی 200 کانیں ہیں لیکن ان کے ذخیرہ کیے گئے نمک سے آبی حیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
''کانوں سے نکالا جانے والا نمک دریا کے اندر نہیں بلکہ دریا کے کنارے پر ڈالا جاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہ نمک یہاں سے اٹھا کر جگہ خالی کر لی جاتی ہے۔''
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بہتے پانی میں نمک شامل ہو جائے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن محکمہ ماحولیات کے انسپکٹر عمران علی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب پانی میں نمک کی مقدار زیادہ ہو گی تو اس سے کہیں نہ کہیں آبی حیات کو ضرور خطرہ ہو گا۔''
نیشنل لائبریری آن میڈیسن کی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ میں آبی آلودگی میں زرعی سرگرمیوں کے بعد پانی کا الٹا بہاؤ بھی شامل ہے جو اپنے ساتھ کیمیائی مادے اور کیڑے مار ادویات کا زہر لے کر آتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی آبادی کے ساتھ پانی کی طلب میں اضافے سے دریائے سندھ میں پانی کے معیار کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ پچھلی نصف صدی کے دوران آبادی میں تیزی سے اضافے نے زراعت پر دباؤ ڈالا ہے اور آبپاشی کے پانی کی ضرورت کو بڑھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں دریائے سندھ اور دیگر علاقوں کے ماحولیاتی انحطاط نے آبادی کے لیے صحت کے اضافی خطرات بھی پیدا کر دیے ہیں۔
تاریخ اشاعت 25 مارچ 2023