اڑتالیس سالہ محمد ریاض ضلع غذر کی خوبصورت وادی پھندڑ کے رہائشی اور 70 کنال زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ وہ 30 سال سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں اور ہر سال آلو، گندم کاشت کرتے ہیں۔ یہی ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے جس پر ان کے گھر کا گزارا چلتا ہے لیکن اب کی بار وہ بےحد پریشان ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ گلگت بلتستان (جی بی) میں دسمبر سے فروری کے دوران برفباری اور بارش ہوتی ہے۔ مارچ میں بہترین درجہ حرارت ہوتا ہے اور گلیشئر آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہوتے ہیں۔ اسی دوران جشن تخم ریزی منانے کے بعد کسان نئی فصل بونا شروع کر دیتے ہیں اور زمینوں کو آب پاشی کے لیے پانی ملتا ہے۔
"اس سال وسط فروری تک برفباری نہیں ہوئی اور مارچ میں بارشیں ہو گئیں۔ مارچ کی بجائے مئی کے وسط میں نارمل درجہ حرارت اور پانی میسر آیا اس لیے بروقت بوائی نہیں ہو پائی اور فصلیں ایک ماہ سے زائد عرصہ تاخیر کا شکار ہو گئیں۔"
گلگت بلتستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق 1984ء سے 2013ء کے دوران 30 برسوں میں ہندوکش ہمالیہ پہاڑی رینج میں اوسطاً ہر دس سال بعد درجہ حرارت میں 0.18 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔
اس عرصے کے دوران نہ صرف فی عشرہ 1.9 ملی میٹر بارش میں کمی ہوئی بلکہ ستمبر، اکتوبر، نومبر میں بارشیں کم ہوتی گئیں لیکن جنوری اور فروری میں بڑھتی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں ایک درجہ سینٹی گریڈ کے اضافے سے پہاڑوں پر پڑی تقریباً 150 میٹر برف تک پگھل جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محمد ریاض جیسے کاشتکاروں کو خوف نے گھیر رکھا ہے۔
محمد ریاض کہتے ہیں کہ سطح سمندر سے تقریباً 11 ہزار فٹ بلند ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں گرمی اور سردی دونوں میں شدت آتی جا رہی ہے جس سے فصلیں براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔
رواں برس تاخیر سے برفباری ہوئی ہے اس لیے ڈر ہے کہ برف تیزی سے پگھلنی شروع ہو گی تو کہیں اچانک سیلاب فصلیں ہی نہ بہا لے جائے۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں شعبہ ماحولیاتی سائنس کی پروفیسر ارم بانو نے لوک سجاگ کو بتایاکہ درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ ماحولیاتی نظام میں تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے۔
ان تبدیلیوں کے باعث نہ صرف مٹی کے غذائی اجزا بلکہ پودوں اور جانوروں میں بھی ساختیاتی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
"برفباری میں کمی اور بے وقت بارشوں سے فصلیں بروقت تیار نہیں ہو ں گی اس سے ان کی پیداوار اور معیار دونوں متاثر ہوں گے۔"
غذر کے قریب ہی ایک اور وادی' حراموش' کے زمیندار ثمر بتاتے ہیں کہ بے وقت برفباری اور بارشوں کی وجہ سے فصل کے لیے زمین تیار کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ چیری، توت اور دیگر پھلوں کے موسم میں تاخیر ہوئی تو پھلوں پر کیڑوں نے حملہ کر دیا۔
"ہمارے ہاں پودوں پر پھول ہی بہار کی آمد کی نشانی ہوتے ہیں لیکن اس بار اس قدر بے یقینی رہی کہ مئی میں خوبانی پر پھل کی بجائے صرف پھول ہی لگے تھے حالانکہ پھول لگنے کا موسم مارچ اور اپریل میں ہوتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ پہلے یہاں (گلگت بلتستان میں) بہت سا پھل ضائع ہو جاتا جاتا تھا یا سکھانا پڑتا تھا لیکن اب کچھ سالوں سے بیوپاری فصل کے تیار ہونے سے قبل ہی باغات کو خرید لیتے ہیں، وہ انہیں راولپنڈی، اسلام آباد اور پنجاب کے بڑے شہروں میں لے جا کر بیچتے ہیں۔
"بڑی مارکیٹوں میں پھل پہنچانےکا سلسلہ کچھ برس پہلے ہی شروع ہوا ہے جس سے نہ صرف یہاں کے کاشت کاروں کو اچھی قیمت مل جاتی ہے بلکہ بیوپاری بھی خوب منافع کماتے ہیں۔"
لیکن بقول ثمر کے اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پھلوں کی پیداوار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
"اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو صرف ہمارے کاروبار ہی نہیں ڈوبیں گے بلکہ علاقے میں روزی روٹی کے بھی لالے پڑ جائیں گے۔"
محکمہ زراعت گلگت بلتستان کے فراہم کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جی بی میں تقریباً 94 ہزار 394 ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے۔ یہ کل رقبے کی لگ بھگ 10 فیصد ہے۔
یہاں گزشتہ سال 43 ہزار 90 میٹرک ٹن گندم اور ایک لاکھ 28 ہزار 73 میٹرک ٹن آلو پیدا ہوا جبکہ مکئی اور جو کی بھی اچھی فصل ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان پھلوں کی پیداوار میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ محکمہ زراعت کہتا ہے کہ جی بی میں چیری کی پیداوار چار ہزار 85 میٹرک ٹن سالانہ ہوتی ہے جس میں سے تقریباً چھ فیصد یعنی 252 میٹرک ٹن ضائع ہو جاتی ہے۔
جی بی کے ایگریکلچر افسر طارق انور بتاتے ہیں کہ یہاں خوبانی کی پیداوار ایک لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ ہے جس میں تقریباً 35 فیصد یعنی 44 ہزار میٹرک ٹن کے قریب ضائع ہو جاتی ہے۔ سیب کی پیداوار 23 ہزار میڑک ٹن سے زیادہ ہے مگر صرف 16 ہزار میٹرک ٹن لگ بھگ ہی مارکیٹوں میں پہنچتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال اخروٹ کی پیداوار چار ہزار 178 میٹرک ٹن اور چلغوزے کی پیداوار تین ہزار 375 میٹرک ٹن تھی۔ چلغوزہ اور اخروٹ زیادہ تر ملک کی بڑی منڈیوں میں ہی جاتا ہے۔
"یہاں توت، ناشپاتی، انگور اور آڑو بھی بڑی مقدار میں اگائے جاتے ہیں جو بہت خوش ذائقہ ہوتے ہیں۔"
طارق انور کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں سال کے دوران ایک ہی بار کاشت ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اگرچہ عالمی مسئلہ ہے لیکن جتنی تیزی سے جی بی میں اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں اتنے شاید دنیا میں کہیں نہ ہوں۔
"رواں برس باغات میں پودے پر پھل بظاہر پک چکے ہیں لیکن ان میں روایتی ذائقہ ہے اور نہ وہ شیرینی کیونکہ اس بار سردیاں معمول سے بہت زیادہ طویل رہیں۔" جن دنوں فصل بوئی جا رہی تھی ان دنوں میں شدید سردی تھی اور پھر اچانک ہی گرمی شروع ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں
گندم، کپاس اور دالوں کے لیے تنگ ہوتی زمین، موسمیاتی تغیر پاکستان کے زرعی منظر نامے کو کیسے بدل رہا ہے؟
"پھل یا فصل پکنے کے دوران مخصوص درجہ حرارت درکار ہوتا ہے لیکن اس بار موسم اچانک رنگ بدلتا رہا۔ شام کو بارش ہوتی تھی تو دن کو تیز دھوپ نکلتی تھی جس کی وجہ سے بہت سارے علاقوں میں کیڑوں نے فصلوں پر حملہ کر دیا۔"
انہوں نے بتایا کہ بارش کے بعد دھوپ اور درجہ حرارت میں اضافہ لاروے اور انڈوں، بچوں کی افزائش میں مدد فراہم کرتا ہے۔ لمبی سردیوں کے اثرات بالائی علاقوں میں ابھی تک موجود ہیں جہاں جون کے مہینے میں بھی فصلیں تیار نہیں ہوئی تھیں۔
خادم حسین، جی بی میں محکمہ تحفظ ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ زراعت میں استعمال ہونے والی کھادیں، سپرے، ڈیزل اور ٹرانسپورٹ ان سرگرمیوں میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم یہاں موسمیاتی تبدیلی زرعی سرگرمیو ں کو شدید متاثر کر رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کا زیادہ تر رقبہ بنجر اور وسیع پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور مجموعی طور پر صرف دو فیصد رقبہ ہی کاشت ہو سکتا ہے۔ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات یونہی بڑھتے رہے تو علاقے میں غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
تاریخ اشاعت 8 اگست 2024