کپاس کی فصل کو درپیش موسمیاتی خطرات:حکومت کو نئے ایٹمی بیج سے معجزوں کی توقع۔

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کپاس کی فصل کو درپیش موسمیاتی خطرات:حکومت کو نئے ایٹمی بیج سے معجزوں کی توقع۔

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک اوسط ملکی درجہ حرارت میں تقریباً ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ بارشوں کے مقامی طور طریقے میں بھی 20 فیصد تبدیلی ریکارڈ کی گئی ہے جس کے نتیجے میں کہیں ان کا وقت تبدیل ہو گیا ہے اور کہیں ان کی شدت میں کمی یا اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ معلومات حکومتِ پاکستان کی سرپرستی میں چلنے والے ماحولیاتی تحقیقاتی ادارے، گلوبل چینج امپیکٹ سٹڈی سنٹر، کی ایک حالیہ رپورٹ میں دی گئی ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پچھلے دس سال میں پاکستان میں گرمیوں کے موسم کی طوالت میں ہر سال اوسطاً ایک دن کا اضافہ ہوا ہے۔

جرمن واچ نامی بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے نے بھی اپنی 2020 کی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اس کے مطابق 1999 سے 2018 کے درمیان موسموں کی شدت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کو 3.8 بلین ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ اس عرصے میں نو ہزار نو سو 89 پاکستانی گرمی کی لہروں اور طوفانی بارشوں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کا پاکستانی زراعت پر شدید منفی اثر مرتب ہو رہا ہے۔

اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک نے مئی 2021 میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گرمی کی شدت اور ہوا میں موجود نمی کے تناسب میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں کپاس سمیت کئی فصلیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار اس رپورٹ کی تائید کرتے ہیں۔

ان کے مطابق 1999 میں صوبہ پنجاب میں (جہاں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار کا 65 فیصد سے 70 فیصد حصہ اگایا جاتا ہے) کپاس کی کل 88 لاکھ 4 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں جن میں سے ہر ایک کا وزن 370 کلو گرام تھا۔ لیکن 21-2020 میں یہ تعداد کم ہو کر 50 لاکھ 44 ہزار گانٹھیں رہ گئی۔ یوں 23 سالوں میں اس صوبے میں کپاس کی پیداوار میں 43 فیصد کمی ہوئی ہے (جبکہ اس دوران پاکستان میں مجموعی طور پر کپاس کی پیداوار میں 39 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے)۔

اسی عرصے میں پنجاب میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار 24 فیصد کم  ہوئی ہے۔ 1999 میں اس صوبے میں فی ایکڑ پیداوار آٹھ سو 36 کلو گرام تھی جو پچھلے سال چھ سو 33 کلو گرام رہ گئی۔

پنجاب کے کسان بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کپاس کی فصل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کی کاشت اور پیداوارکے حوالے سے مشہور ضلعے وہاڑی سے تعلق رکھنے والے کسان لیاقت علی چٹھہ کہتے ہیں کہ گزشتہ کچھ سالوں میں درجہ حرارت میں تبدیلیوں، ہوا میں نمی کے تناسب میں کمی بیشی اور بارشوں کی شدت میں اضافے کے باعث کپاس پر بیماریوں اور کیڑوں کے حملے بڑھ گئے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی فی ایکڑ پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔

چنانچہ، ان کے بقول، مقامی کسان "کپاس کے بجائے مکئی، چاول اور گنے جیسی فصلیں کاشت کرنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں" جس کے باعث پنجاب میں کپاس کا زیرِ کاشت رقبہ 1999 کے مقابلے میں 45 فیصد کم ہو گیا ہے۔

معیشت دان اور بیجوں سے متعلقہ امور کی ماہر ڈاکٹر عذرا طلعت سعید بھی سمجھتی ہیں کہ کپاس کی پیداوار میں کمی کی ایک اہم وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہی ہیں۔ ان کے مطابق مئی اور جون میں کپاس کے پودوں پر پھول لگنا شروع ہوتے ہیں اس لیے اس دوران بارش نہیں ہونی چاہیے لیکن وہ کہتی ہیں کہ حالیہ سالوں میں ان مہینوں میں تواتر کے ساتھ بارشیں ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے "فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کی تعداد بڑھ گئی اور وہ مکھیاں جو پودوں کے افزائشی عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کہیں اور منتقل ہو گئیں" جس کا نتیجہ کپاس کی "پیداوار میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوا"۔ 

لیکن ڈاکٹر عذرا طلعت سعید اور لیاقت علی چٹھہ دونوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سرکاری تحقیقاتی ادارے کپاس کے ایسے بیج بنانے میں ناکام رہے ہیں جو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر کے اچھی پیداوار دے سکیں۔

ایٹمی توانائی سے بنائے گئے بیج کتنے موثر ہیں؟

ایٹمی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے آسٹریا کے شہر ویانا میں 23 ستمبر 2021 کو پاکستان کے نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر اینڈ بائیالوجی (نایاب) کے پانچ سائنسدانوں کو کپاس کا ایک نیا بیج دریافت کرنے پر ایک ایوارڈ دیا۔ اس موقعے پر آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گراسی  نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ان "سائنسدانوں نے سخت موسم کا مقابلہ کرنے والا کپاس کا بیج تیار کر لیا ہے" جو "ایٹمی توانائی کے پُر امن استعمال کے ذریعے معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی ایک متاثر کن مثال ہے"۔

نایاب کے ڈائریکٹر طارق محمود شاہ کا کہنا ہے کہ یہ بیج کپاس کے ایک روایتی بیج پر ایٹمی شعاعیں استعمال کرنے کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے جس سے نہ صرف بیج کا حجم بڑھ گیا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اس کی قوتِ مدافعت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ بیج ان کے ادارے کی پہلی دریافت نہیں بلکہ اس کے سائنس دانوں نے ایسے متعدد بیج بنائے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ان کے بقول اس سال کپاس کی کاشت کے لیے سرکاری اداروں کی طرف سے فراہم کیے گئے بیجوں میں سے 50 فیصد نایاب نے ہی تیار کیے ہیں جن میں سے "نایاب-878 ایک ایسا بیج ہے جس کی کاشت سے پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ یقینی ہے" بشرطیکہ حکومت اسے مناسب قیمت پر زیادہ سے زیادہ کاشت کاروں کو فراہم کرے۔

یہ بھی پڑھیں:

postImg

کورونا وبا کے اثرات یا کھاد کمپنیوں کی مَن مانی: ڈی اے پی کی قیمت ایک سال میں دگنی ہو گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ سرکار کے تیار کردہ بیج کپاس کے زیرِ کاشت مجموعی رقبے کے محض تین فیصد پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ طارق محمود شاہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کے تیار کردہ اور منظور کردہ بیج مِل ملا کر کپاس کے زیرِ کاشت رقبے کے صرف 18 فیصد سے 20 فیصد حصے پر کاشت کیے جاتے ہیں جبکہ اس کے 80 فیصد سے زیادہ حصے پر نِجی شعبے کے تیار کردہ غیر منظور شدہ بیج استعمال کیے جاتے ہیں۔

لیکن پنجاب یونیورسٹی کے سنٹر آف ایکسی لینس اِن مالیکیولر بائیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ادریس احمد ناصر کہتے ہیں کہ اگر کسی نہ کسی طرح پاکستان کے سارے کسان بھی نایاب کے بنائے ہوئے بیج استعمال کرنا شروع کر دیں تو بھی کپاس کی پیدوار میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ، ان کے مطابق، ایٹمی توانائی کا استعمال کسی بیج کی موسم کے خلاف قوت مدافعت تو بڑھا سکتا ہے لیکن وہ اسے رس چوسنے والے کیڑوں اور فصل کو نقصان پہنچانے والی سنڈیوں اور مکھیوں کا  مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں دے سکتا۔

نایاب کے بنائے گئے کچھ بیجوں کی حال ہی میں کی گئی آزمائشی کاشت سے کچھ اسی طرح کے غیر متاثر کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پنجاب کے محکمہ زراعت کے ذیلی ادارے پنجاب سیڈ کارپوریشن کی طرف سے جاری کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ بیج سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے بنائے ہوئے ان 30 بیجوں میں شامل تھے جو 2020 میں ضلع خانیوال میں پیرووال کے مقام پر آزمائشی پلاٹوں میں لگائے گئے۔ ان میں سے  کاشت کے لیے منظور کیے گئے 17 بیجوں میں سے صرف تین نایاب نے بنائے ہیں۔

اگرچہ اس کا ایک بیج، نایاب-135، سات سو 35 کلو گرام فی ایکڑ پیداوار کے ساتھ پیداواری لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہا لیکن اس میں پائے جانے والے کچھ فنی نقائص کی وجہ سے اسے کاشت کے لیے منظور نہیں کیا گیا جبکہ منظوری حاصل کرنے والے اس کے  تینوں بیج فی ایکڑ پیداوار کے حساب سے ساتویں، دسویں اور چھبیسویں نمبر پر آئے۔ ان میں سے نایاب ساناب-ایم نامی بیج کی فی ایکڑ پیداوار پانچ سو 30 کلو گرام، نایاب-512 نامی بیج کی فی ایکڑ پیداوار چار سو 94  کلو گرام اور نایاب-898 کی فی ایکڑ پیداوار محض تین سو 13 کلو گرام رہی۔ ان کے مقابلے میں پچھلے سال سب سے زیادہ لگائے گئے بیج کی فی ایکڑ پیداوار چھ سو 38 کلو گرام تھی۔

اچھا بیج بمقابلہ موزوں موسم

امریکی محکمہ زراعت نے اس سال اپریل میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ ماضی کے مقابلے میں حکومتِ پاکستان نے کپاس کے بیج کی فراہمی بہت بہتر بنائی ہے جس کی وجہ سے اس سال اس فصل کی پیداوار میں 18 فیصد بہتری کی توقع ہے۔

کپاس کے کسان تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی پیداوار ضرور بڑھی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ بیجوں کی بہتر فراہمی نہیں بلکہ موسم کی موزونیت ہے۔ جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں کے علاقے دنیا پور سے تعلق رکھنے والے کاشت کار محمد اسلم رضا کے مطابق انہوں نے اس سال بھی وہی بیج کاشت کیے ہیں جو وہ پچھلے کئی سالوں سے لگاتے آ رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ماضی کی نسبت تین گنا زیادہ رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے اس سال مون سون (جولائی-اگست) سے پہلے بارشیں نہیں ہوئیں اور مئی اور جون میں ہوا میں نمی کا تناسب بھی کم رہا ہے جس کی وجہ سے سفید مکھی اور رس چوسنے والے کیڑوں نے کپاس پر کم حملہ کیا ہے۔ اسی طرح، ان کے مطابق، پچھلے سالوں میں سخت گرم موسم کی وجہ سے کپاس کے پھول اور ٹینڈے سوکھ کر گر جاتے تھے لیکن اس دفعہ یہ مسئلہ بھی کم دیکھنے میں آیا ہے۔

لیاقت علی چٹھہ بھی کچھ اسی طرح کی بات کہتے ہیں۔

انہوں نے اس سال وہی بیج استعمال کیے ہیں جو وہ ہمیشہ کرتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ انہوں نے اپنی کپاس اپریل میں کاشت کرنے کے بجائے فروری کے آخر میں لگائی جس کی وجہ سے ان کی فصل بارشوں اور سخت گرم موسم دونوں سے محفوظ رہی۔ لہٰذا ان کی فی ایکڑ پیداوار لگ بھگ دو ہزار کلو گرام رہی ہے جو پچھلے تین سالوں کی نسبت چار گنا زیادہ ہے۔

تاریخ اشاعت 7 اکتوبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.