گندم، کپاس اور دالوں کے لیے تنگ ہوتی زمین، موسمیاتی تغیر پاکستان کے زرعی منظر نامے کو کیسے بدل رہا ہے؟

postImg

آصف ریاض

postImg

گندم، کپاس اور دالوں کے لیے تنگ ہوتی زمین، موسمیاتی تغیر پاکستان کے زرعی منظر نامے کو کیسے بدل رہا ہے؟

آصف ریاض

محمد حسن بخاری کا شمار انار کے کامیاب اور جدت پسند کاشت کاروں میں ہوتا تھا۔ انار ان کے علاقے کی وجہ شہرت تھا لیکن اب وہاں اس کے باغات بمشکل نظر آتے ہیں۔ محمد حسن کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور  سے ہے۔  جسے چند دہائیوں پہلے تک  "علی پور انار والا" کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔

1929ء میں ضلع مظفر گڑھ پر شائع ہونے والے ڈسٹرکٹ گزٹ سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ اس وقت تحصیل علی پور میں چار ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر انار کے باغات تھے، نیز 'علی پوری سفید انار' اپنے ذائقے اور مٹھاس کی بنا پر نہ صرف ہندوستان بلکہ انگلستان میں بھی پسند کیا جاتا تھا۔

پچپن سالہ محمد حسن کے بقول ان کے علاقے میں گرمی میں اضافے، بارشوں میں شدت اور ان کے دورانیے میں ردوبدل سے انار کے باغات مختلف اقسام کی بیماری میں مبتلا ہو کر ختم ہو چکے ہیں۔

"90ء کی دہائی تک علی پور میں انار کے بہت باغات تھے اور اس کے کاشت کار دوسروں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ منافع حاصل کر رہے تھے۔"

حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مذکورہ دہائی تک ملک میں سب سے زیادہ انار پنجاب میں پیدا ہوتا تھا اور تحصیل علی پور سے اس صوبے کی 80 فیصد پیداوار حاصل ہوتی تھی۔

بقول محمد حسن 1998ء اور 2010ء کے سیلابوں سے ان کا 25 ایکڑ پر مشتمل باغ شدید متاثر ہوا، اسی کے ساتھ گرمیوں میں درجہ حرارت بڑھ گیا اور مون سون کی بارشوں کا دورانیہ بھی طویل ہو گیا۔2007ء میں انھوں نے 15 ایکڑ رقبے پر لگے انار کے باغ کو تلف کر دیا جبکہ باقی 10 ایکڑ پر لگا انار 2015ء تک بیماریوں سے برباد ہو گیا۔

علی پور میں انار کے بیشتر کاشت کاروں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔

محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق 2008ء تک ضلع مظفر گڑھ میں انار کا زیر کاشت رقبہ 1650 ایکڑ تھا جو 2022ء  تک صرف 331 ایکڑ رہ گیا۔

ایگرانومسٹ اور محقق سعد الرحمان محکمہ زراعت (توسیع ) میں بطور زرعی آفیسر کام کرتے ہیں۔ انار کو درپیش مسائل، اس کی بیماریوں اور موسمیاتی تغیر کے اثرات پر ان کے متعدد تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔

 وہ بتاتے ہیں کہ پہلے علی پور کا موسم گرم اور خشک تھا لیکن اب زیادہ گرم اور قدرے مرطوب ہو گیا ہے جس سے انار سمیت دیگر فصلوں پر ضرر رساں حشرات کے حملے بڑھ گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انار ایک جھاڑی دار پودا ہے اور اس کی جڑیں 10 سے 12 فٹ سے زیادہ گہری نہیں ہوتیں۔

"یہ اپنی جڑوں کی مدد سے پانی اور خوراک لیتا ہے لیکن اس علاقے میں زیر زمین پانی نیچے چلا گیا ہے۔ یہ پودا 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت قدرے آسانی سے برداشت کر لیتا ہے البتہ یہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھونے لگا ہے جس سے پودے کی پولی نیشن کا عمل متاثر ہوا ہے۔"

انار کی ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے 2012ء میں درآمد پر تقریباً 33 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔2022ء میں یہ رقم بڑھ کر سات ارب اور 37 کروڑ روپے ہو گئی کیونکہ 10 برسوں میں بلوچستان سمیت پورے ملک میں انار کے زیر کاشت رقبے میں42 فیصد کمی ہوئی ہے۔

گندم کسانوں کو کیوں ستانے لگی ہے

محمد حسن بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں کپاس اور گندم کی صورت حال بھی اچھی نہیں۔

"رواں سال 20 اکتوبر کو 20 ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی، اس کی مناسب جرمی نیشن یا نمو نہ ہو سکی کیونکہ درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ تھا لہٰذا دوبارہ بیج ڈالنا پڑا۔"

وہ کہتے ہیں کہ گندم کی کاشت اور مارچ اپریل میں فصل میں دانہ بننے کا مرحلہ شروع ہونے کے وقت بارشیں ہو جاتی ہیں یا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

محمد محسن نے 2022ء میں بھی 20 ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی تھی، مگر ژالہ باری ہونے سے چار ایکڑپر پکی ہوئی فصل مکمل طور پر خراب ہو گئی اور باقی 16 ایکڑ سے وہ 31 من فی ایکڑ تک پیداوار لے سکے۔

30 مارچ 2023ء کو محکمہ زراعت پنجاب کے ذیلی ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس بارش اور ژالہ باری سے مظفرگڑھ سمیت پورے صوبے میں سے آٹھ لاکھ 27 ہزار 829 ایکڑ زیرکاشت رقبے پر گندم کو جزوی اور 30 ہزار 500 ایکڑ پر فصل کو مکمل نقصان پہنچا۔ دراصل پچھلے سال پورے ملک میں گندم کی فصل متاثر ہوئی تھی۔

2022ء میں گرمی کی شدت سے بھی گندم کی فصل متاثر ہوئی۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 2022ء کے دو ماہ مارچ اور اپریل 1961ء کے بعد سب سے زیادہ گرم تھے۔

زرعی امور کے ماہر صائم رشید چوہدری 2003ء سے 2018ء تک متحدہ عرب امارات کی حکومت کے زرعی کنسلٹنٹ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر گندم کی کاشت کے 110 دن بعد اس میں پولی نیشن کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس کے لیے بہار کا موسم موزوں ترین ہوتا ہے۔

"موسمیاتی تغیر کے باعث یہ موسم بیشتر سالوں میں آتا ہی نہیں اور سردی کے فوری بعد گرمی شروع ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں گندم کا دانہ اپنے معمول کے وزن اور سائز تک پہنچنے سے پہلے ہی پک جاتا ہے۔ اس سے مجموعی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔"

پاکستان میں پچھلے پانچ سال میں گندم کی اوسط پیداوار 29.35 من فی ایکڑ ہے جو پڑوسی ملک بھارت کی پانچ سال کی اوسط پیداوار سے چھ من فی ایکڑ کم ہے۔ صائم رشید کے مطابق اس کمی کو 15 دن قبل گندم کاشت کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔

عالمی بنک کے مطابق پاکستان کی گندم کی ضرورت تین کروڑ ٹن سے زیادہ ہے لیکن یہ دو کروڑ 60 لاکھ ٹن تک پیدا کر رہا ہے یعنی اسے 30 لاکھ سے 40 لاکھ ٹن کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔

پاکستان طلب اور رسد کے اس فرق کو ایک غیر مستحکم عالمی منڈی سے گندم کی درآمد سے پورا کرتا ہے۔ جس ملک کی 40 فیصد آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو، اس کے لیے یہ تشویش ناک امر ہے۔

حکومت پنجاب کے زیر نگرانی کام کرنے والے 'تحقیقاتی ادارہ برائے گندم' کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار کو چھ من تک بڑھانے کی صلاحیت کے حامل بیج دستیاب ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کے باعث ان سے مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں ہو رہی۔ موسم کی اس تبدیلی سے سرکاری اداروں کی محنت اور ریسرچ بے کار ہو کر رہ گئی ہے۔

"موسم کی سختی کی وجہ سے ان اضلاع کے کاشت کار گندم اگانا ترک کر رہے ہیں جہاں اس کی فی ایکڑ اوسط پیداوار سب سے زیادہ ہے۔"

پنجاب میں پچھلے 10 سال میں ساہیوال ڈویژن میں گندم کے زیر کاشت رقبے میں 35 فیصد، ملتان ڈویژن میں 17 فیصد اور فیصل آباد ڈویژن میں آٹھ فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ البتہ اس عرصے میں راولپنڈی ڈویژن میں گندم کے زیر کاشت رقبے میں 40 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

گندم کے زرخیز علاقوں میں ناموافق موسم کے ستائے ہوئے کاشت کاروں میں گندم کو چھوڑ کر سرسوں اگانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ 2022ء میں پنجاب میں ساڑھے 10 لاکھ ایکڑ رقبے پر سرسوں کاشت ہوئی تھی جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر اکرم جاوید کے خیال میں یہ صورت حال پریشان کن ہے کیوں کہ جن علاقوں میں گندم کاشت کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے وہاں زیر کاشت رقبہ کم ہے، نیز وہاں فی ایکڑ اوسط پیداوار کاشت کے روایتی علاقوں کی نسبت آدھی سے بھی کم ہے۔

کیا پیداوار میں کمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہے؟

عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ پچھلی صدی کے دوران ملک میں اوسط درجہ حرارت میں تقریباً 0.63 سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھا گیا ہے جو بہت زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر اوسط درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جائے تو اہم غذائی اور نقد آور فصلوں کی پیداوار میں پانچ سے 10 فیصد تک کمی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں پچھلے 30 برسوں میں اہم نقد آور فصل کپاس کے زیرکاشت رقبے اور پیداوار میں کمی کا ایک بڑا سبب غالباً یہی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ 2005ء کے بعد سے اب تک پاکستان میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 39 فیصد جبکہ پیداوار میں47 فیصد کمی ہوئی ہے، دوسرے لفظوں میں فی ایکڑ پیداوار آٹھ فیصد تک گر گئی ہے۔

ان تین دہائیوں میں جس سال اوسط درجہ حرارت ملکی اوسط درجہ حرارت سے کم یا برابر رہا ہے اس میں کپاس کی پیداوار بہتر رہی ہے۔ مثال کے طور پر 2005 ء میں پاکستان میں کپاس کی ایک کروڑ 42 لاکھ 65 ہزار 200 بیلز(گانٹھ) کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تھی۔

محکمہ زراعت پنجاب کے تحت کام کرنے والے ایوب ایگریکلچر کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان ڈاکٹر جہانزیب اپنے دفتر میں موجود ڈیٹا کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ 2005ء کے موسم خریف میں درجہ حرارت اور بارشیں اوسط سے کم رہیں۔ اس کے بعد 2014ء کپاس کے کاشت کاروں کے لیے حوصلہ افزا رہا جس میں ملکی پیداوار ایک کروڑ 39 لاکھ گانٹھ رہی۔ محکمہ موسمیات کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ جولائی، اگست اور ستمبر 2014ء میں 2005ء کی طرح ہوا میں نمی، بارش اور درجہ حرارت ملکی اوسط سے کم رہے۔

ڈاکٹر جہانزیب کا ماننا ہے کہ موسمیاتی تغیر نے کپاس کی فصل کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ "پریشان کن بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں اس کی کاشت سب سے زیادہ ہوتی ہے وہی زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔"

سرکاری اعداد و شمار بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صوبائی پیداوار کا لگ بھگ 85 فیصد حصہ پیدا کرنے والے جنوبی پنجاب میں، پچھلے 30 برسوں میں کپاس کی پیداوار میں سب سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔

مذکورہ عرصے میں ضلع اوکاڑہ اور ساہیوال میں جتنا رقبہ کم ہوا، پیداوار اس سے ایک فیصد زیادہ کم ہوئی۔ تاہم وہاڑی میں یہ فرق چھ فیصد، ملتان، مظفر گڑھ میں 10 فیصد، رحیم یار خان میں 13 فیصد اور بہاولپور میں 18 فیصد تک جا پہنچا ہے۔

عبادالرحمان ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کے قصبے کوٹلہ دیوان میں 25 ایکڑ زرعی رقبے کے مالک ہیں۔ رواں سیزن میں انھوں نے 15 ایکڑ پر کپاس کاشت کی جس سے ان کے بقول انہیں 10 لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نصف جولائی تک سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن پھر بارشوں کے بعد اچانک اس پر سفید مکھی اور گلابی سنڈی نے حملہ کر دیا۔ انھوں نے ہر ہفتے کیڑے مار ادویات بھی استعمال کیں لیکن فصل نہیں بچا سکے۔ یوں ان کی فی ایکڑ پیداوار صرف پانچ من رہی۔

عبادالرحمان نے بتایا کہ پچھلے چند برسوں سے کپاس کی فصل ان کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے کیوں کہ کوئی بھی معیاری بیج دستیاب نہیں ہے۔

ڈاکٹر جہانزیب اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں اس طرح کی موسمی شدت کا مقابلہ کرنے والا بیج میسر نہیں۔

"بہت سے علاقے کے تھکے ہارے کسانوں نے اب کپاس کی جگہ دوسری فصلیں کاشت کرنا شروع کر دی ہیں۔ وہاڑی، خانیوال اور ساہیوال میں کپاس کا بیشتر علاقہ مکئی پر منتقل ہو گیا ہےجبکہ بعض علاقوں میں کسان تل کی کاشت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔"

محکمہ زراعت کے مطابق 2001ء میں ضلع وہاڑی، جسے کاٹن کنگ کہا جاتا تھا، میں چھ لاکھ چار ہزار ایکڑ رقبے پر کپاس اگائی گئی تھی جو 2022ء میں کم ہو کر صرف ایک لاکھ 15 ہزار ایکڑ رہ گئی۔ دوسری جانب 2001ء میں وہاں مکئی صرف 26 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت ہوتی تھی مگر 2022ء میں یہ رقبہ بڑھ کر چھ لاکھ 57 ہزار ایکڑ تک پہنچ گیا۔

 اسی طرح پچھلے چند سالوں میں پنجاب میں تل کا زیر کاشت رقبہ بڑھ رہا ہے۔ رواں سال پنجاب میں نو لاکھ 30 ہزار ایکڑ رقبے پر تل کاشت کیا گیا۔ سرسوں کی طرح یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رقبہ ہے۔

صائم رشید کے مطابق گندم کی جگہ سرسوں اور کپاس کی جگہ تل اگانے کا فیصلہ کسانوں نے گزشتہ کئی سال نقصان اٹھانے کے سبب کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ چین اور بھارت بھی موسمیاتی تغیر سے نبرد آزما ہیں۔ انھوں نے کپاس اور گندم کے ایسے بیج تیار کر لیے ہیں جو یا تو موسم کا مقابلہ کر سکتے ہیں یا جن سے فصل کا دورانیہ کم ہو گیا ہے، لیکن پاکستان میں سرکاری ادارے سوئے ہوئے ہیں۔

"پاکستان میں کپاس کا منافع اب وہی کسان لے رہا ہے جو وقت سے پہلے یعنی فروری یا مارچ میں اسے کاشت کرتا ہے۔ یہ فصل جولائی اگست میں سخت گرمی اور بارشوں سے پہلے مطلوبہ پیداوار دے جاتی ہے۔"

سرسوں اور تل کے بڑھتے ہوئے رجحان کے درپردہ بھی یہی منطق ہے۔ یہ دونوں فصلیں تین سے چار ماہ میں پک جاتی ہیں اور سخت یا سرد موسم انہیں متاثر نہیں کر پاتا۔

دال چنا اور گھٹتی باران

محمد محسن خان صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کی تحصیل سرائے نورنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دو سال قبل تک وہ اپنے 150 ایکڑ بارانی اور ریتلے رقبے پر چنے کی فصل کاشت کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنی ریتلی زمین فروخت کر کے انھوں نے 50 ایکڑ قدرے میرا زمین خرید لی ہے جس پر گندم، سبزیاں اور دھان کی فصلیں کاشت ہو سکتی ہیں۔

محسن کہتے ہیں کہ اب ان کے علاقے میں دسمبر سے اپریل تک بارشیں نہیں ہوتیں اس لیے چنے بھی نہیں اگ پاتے۔

ان ہی کی طرح لکی مروت کے بیشتر کاشت کاروں نے چنا کاشت کرنا چھوڑ دیا ہے جس کے سبب پچھلے آٹھ سال میں اس ضلع میں چنے کے زیر کاشت رقبے میں 53 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

صوبائی محکمہ زراعت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2014ء میں ضلع لکی مروت میں کل 41 ہزار 716 ایکڑ رقبے پر چنا کاشت ہوتا تھا لیکن 2022ء میں یہ کم ہو کر 17 ہزار آٹھ ایکڑ رہ گیا ہے۔ دراصل پورے خیبرپختونخوا میں ان آٹھ برسوں میں چنے کا زیر کاشت رقبہ 55 فیصد کم ہوا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے کاشت کار اور ایک مقامی کسان تنظیم کے چیئرمین رحیم اللہ خان بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گندم، مکئی، سبزیاں، خربوزہ اور تربوز سمیت کم و بیش ساری فصلیں موسمیاتی تغیرات سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے چند برسوں سے علاقے میں مکئی اور خربوزے کی فصل بھی سخت موسم کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بہار کا موسم ختم، بارشوں کا انداز بدل گیا: آزاد کشمیر میں زراعت موسمیاتی تبدیلی کی لپیٹ میں

پنجاب میں صحرائے تھل، جہاں سے ملکی پیداوار کا 75 فیصد چنا حاصل ہوتا ہے، وہاں بھی بارشوں کی کمی سے چنے کے رقبے میں 18 فیصد کمی ہو چکی ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان میں مسور اور ماش کے زیر کاشت رقبے میں بالترتیب 70 فیصد اور 30 فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ تینوں دالیں پاکستان کے بارانی علاقوں میں اگائی جاتی ہیں۔

موسمیاتی تغیر نے اتنا زیادہ متاثر کیا ہے کہ 2010ء تک دالوں میں خود کفیل پاکستان نے مالی سال 2022-21ء میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان پر روزانہ 29 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے۔

پاکستان 2021ء میں بھوک کے عالمی انڈیکس پر موجود 116 ممالک میں سے 92ویں نمبر پر تھا، اگر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں صورت حال مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔

تاریخ اشاعت 6 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.