"مسیحی عائلی قانون کا مسودہ 6 سال سے قانون اور انسانی حقوق کی وزارتوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے"

postImg

جئہ پرکاش

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"مسیحی عائلی قانون کا مسودہ 6 سال سے قانون اور انسانی حقوق کی وزارتوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے"

جئہ پرکاش

loop

انگریزی میں پڑھیں

سارا مسیح خانیوال میں رہتی ہیں اور گریڈ 16 کی سرکاری ملازم ہیں۔ جب وہ بیس سال کی تھیں تو ان کے والدین نے ان کی شادی تھامس سے کروا دی، جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ شادی کے بعد تھامس نے سارا کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا، کیونکہ انہوں نے سارا سے شادی والدین کے دباؤ میں آ کر کی تھی۔ جب سارا حمل سے تھیں تو تھامس نے شرط رکھی اگر بیٹا ہو گا تو وہ سارا کے ساتھ رشتہ نبھائیں گے وگرنہ علیحدگی اختیار کر لیں گے۔ شومئی قسمت سارا نے بیٹی کو جنم دیا،  تھامس نے نہ صرف بچی کو دیکھنے سے انکار کر دیا بلکہ سارا پر بدچلنی کا الزام لگا کر طلاق کا کیس فائل کر دیا۔

کیس عدالت تک پہنچا تو تھامس نے اس کی پیروی نہیں کی مگر  سارا ہر پیشی پر جاتی رہیں۔ عدالت نے کیس کےحوالے سے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کروائے مگر تھامس ایک مرتبہ بھی عدالت میں نہیں آیا۔

آخر کار سول عدالت نے ایکس پارٹی ( یکرفہ) فیصلہ سناتے ہوئے سارا  کی طلاق موثر قرار دے دی۔

طلاق کے بعد سارا کی مشکلات اور بڑھ گئیں۔

جب ان کی بیٹی کو سکول داخل کروانے کا وقت آیا تو ان سے بچی کا ب فارم مانگا گیا۔ لیکن سارا کے سابق شوہر نے بچی کی پیدائش کا اندراج ہی نہیں کروایا تھا۔ ب فارم کے بغیر انہوں نے بچی کو ایک نجی سکول میں داخل کروا دیا۔ وقت گزرتا گیا اور ان کی بچی اس لئے میٹرک کا داخلہ نہیں بھیج سکی کیونکہ ب فارم میٹرک کے داخلہ فارم کا سب سے اہم جزو تھا۔

سارا بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی کو یہ مسئلہ اس لئے پیش آیا کیونکہ ان کی طلاق ہی آج تک رجسٹرڈ نہیں ہوئی۔ یونین کونسل والوں نے ان کی طلاق کا اندراج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ وہ صرف فیملی کورٹ سے ہونے والی طلاق کا اندراج کرتے ہیں۔ سارا کہتی ہیں کہ کرسچن ڈائیوورس ایکٹ 1869ء کے تحت طلاق کا مقدمہ  سول کورٹ میں ہی چلتا ہےتاہم طلاق سے متعلق اس کے فیصلے یونین کونسل کو منظور نہیں۔

مسلم عائلی قوانین کے تحت مقدمے فیملی کورٹ میں چلتے ہیں اور فیملی کورٹ کیس کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر دینے کی پابند ہے جبکہ سول کورٹ میں کیس کے فیصلے کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں، یہاں برسوں کیس چلتے ہیں۔ لوکل گورنمنٹ  آرڈیننس کے تحت بھی فیملی کورٹ سے ہونے والی طلاق ہی یونین کونسل میں رجسٹرڈ ہوتی ہے۔

سار ا کی عمر 44 سال ہو چکی ہے، اُن کے مسائل تو حل نہیں ہوئے لیکن اب ان کی بیٹی کا مستقبل بھی تاریک ہو  رہا ہے۔

مسیحی برادری کے عائلی قوانین انگریز دور حکومت میں بنے تھے۔ نیشنل پیس کمیٹی فار انٹر فیتھ ہارمنی بلوچستان کے صدر شیزان ولیم کہتے ہیں کہ انگریز سرکار نے 1869ء کرسچن ڈائیوورس ایکٹ پاس کیا اور اس کے تین سال بعد 1872ء میں کرسچن میریج ایکٹ بنایا۔ "اس دور کی ضرورتوں اور انگریز حکومت کی ترجیحات کے بنیاد پر بنائے گئے یہ قوانین آج کی جدید دور کی حالات اور تقاضوں پر پورا نہیں اترتے"۔

شیزان ولیم کہتے ہیں کہ ان قوانین میں لکھا گیا ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے میں سے ایک کا کرسچئن ہونا لازمی ہے۔ شادی کے لیے بچیوں کی شادی کی عمر 13 سال لکھی گئے ہے جبکہ سندھ میں موجود سندھ چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت شادی کی کم سے کم عمر 18 سال اور ملک کے دیگرصوبوں  میں 16 سال ہے۔

"مسیحی عائلی قوانین ریاستی قانون سے ٹکرا رہے ہیں۔ انگریز کے بنائے قانون میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسیحی غروب افتاب کے بعد شادی نہیں کر سکتے"۔

شیزان کہتے ہیں کہ اس دور میں آمدورفت کے ذرائع قلیل اور بجلی وغیرہ نہیں تھی مگر اب تو شادیاں ہوتی ہی رات میں ہیں، تو اس قانون کے حساب سے تو وہ ساری شادیاں غیر قانونی ہیں۔

"اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان قوانین میں ترامیم کی جائیں"۔

ملتان کی مریم مسیح کی شادی البرٹ سے 15 برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ مریم کا شوہر نشے کا عادی تھا اور وہ ان پر تشدد کرتا تھا۔ شادی کے دوسرے سال مریم کے ہاں بچی نے جنم لیا لیکن شوہر مارپیٹ سے باز نہیں آیا۔ تنگ آ کر مریم نے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔

مریم کے والد نے اپنی برادری کے سامنے مدعا پیش کیا۔ فریقین کی رضا مندی اور برادری کے فیصلے کے مطابق البرٹ نے مریم کو طلاق دے دی۔ ایک سال بعد مریم نے دوسری جگہ شادی کر لی، کچھ ہی عرصے میں البرٹ نے بھی کہیں اور شادی کر لی لیکن اولاد کی نعمت سے محروم رہا۔ اب البرٹ نہ صرف مریم سے بیٹی چھیننا چاہتا ہے بلکہ وہ  اس بات سے بھی انکاری ہے کہ وہ مریم کو طلاق دے چکا ہے۔

مریم بے حد پریشان ہے ، کیونکہ اسٹامپ پیپر پر لکھی طلاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

"بیٹی کو بچانے کے لیے عدالت جانا چاہتی ہوں لیکن مقدمے طویل اور بےحد زیادہ خرچے والے ہوتے ہیں، ہم ان میں پڑیں گے تو پریشانیاں اور بڑھیں گی"۔

پاکستان میں اقلیتوں کے عائلی قوانین کے حوالے سے گذشتہ 12 سالوں سے جدوجہد کرنے والے گروپ "نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار منارٹی رائیٹس " کے ممبر اور سماجی تنظیم بیٹھک کے چیف ایگزیکیٹو شہزاد فرانسس کہتے ہیں کہ بہتر قوانین نہ ہونے کی وجہ سے مسیحی بچیاں اور عورتیں بہت زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔

"فرسودہ قوانین کی وجہ سے اپنی شادی میں ہونے والی خرابیوں سے پریشان لڑکیاں جان بچانے کے لیے مذہب کی تبدیلی پر مجبور ہوتی ہیں"۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ دنیا کے  بیشتر ممالک میں بہتر عائلی قانون موجود ہیں مگر پاکستانی  ریاست ڈیڑھ سو سال پرانے قوانین پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔

"کیتھولک مسیحیوں میں شادی ختم ہونے کا تصور نہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان میں ایسا واقعہ ہو چکا ہے۔ ان کی ایک عزیزہ کے شوہر شادی کے فورا بعد ہی بیرون  ملک چلے گئے اور وہاں دوسری شادی کر لی، لیکن پہلی بیوی کو طلاق نہیں دی۔ وہ خاتون ابھی تک اسی بندھن میں قید ہے، ہم نے چرچ سے بھی رابطہ کیا مگر وہاں سے بھی انصاف نہیں ملا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسے قانون بنائے جائیں جو اس طرح کے ظلم کے خلاف عورتوں کو انصاف دلائیں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'تشدد جھیلتی رہی ہوں مگر طلاق نہیں لے سکتی'

سندھ اسیمبلی کی سابق رکن انتھونی نوید نے بتایا کہ کرسچن ڈائیوورس ایکٹ 1869ء میں علحیدگی کے لیے مختلف شرائط دی گئی ہیں۔

سیکشن سات کو ضیاِء دور میں معطل کر دیا گیا۔ ( کرسچن ڈائیورس ایکٹ 1869 کے سیکشن 7 کو ضیاء مارشل لا دؤر میں  فیڈرل لا ز(رویین اینڈ ڈکلیئریشن) آرڈیننس  1981 کے تحت معطل کر دیا گیا تھا ، اس سیکشن کے تحت تبدیلی مذہب، دوسری شادی، ریپ، بدفعلی، بدکاری،  حیوانیت،  چھوڑ کر گم ہو جانے، تشدد  سمیت  آٹھ مختلف وجوہات کے بنیاد پر طلاق ہو سکتی تھی)۔

"اب صرف بدکاری ثابت کرنے کے علاوہ طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر کسی لڑکی پر بدکاری کا الزام لگے تو اس کی آگے کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے"۔

انہوں نے بتایا کہ  لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے موجودہ جج جسٹس منصور علی شاہ نے امین مسیح کیس میں سیکشن سات کو بحال کر کے ان کو علحیدگی کی اجازت دی تھی کیونکہ امین نے اپنی بیوی پر بدکاری کا لزام لگانے سے انکار کر دیا تھا۔

انتھونی کہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام اہم چرچوں کے بشپ صاحبان کی منظوری سے بنا ہوا نئے قانون کا مسودہ  گذشتہ چھ سال سے قانون اور انسانی حقوق کی وزارتوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے۔

"میری معلومات کے مطابق اس وقت وہ مسودہ قانون کے وفاقی سیکریٹری کے پاس پڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اس مسودے کو باقائدہ قانونی شکل دی جائے تاکہ لوگوں اور خاص طور پر مسیحی خواتین کی مشکلات ختم ہوں۔

پنجاب بار کی رکن اور ہائی کورٹ کی ایڈووکیٹ سمیرا شفیق نے بتایا کہ ان کے پاس مسیحی لڑکیوں کی طلاق  کے ایسے بہت سے کیس آتے ہیں جن کا برسوں تک فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اکثر وکیل لڑکیوں یا لڑکوں کو شادی ختم کرنے کے لیے تبدیلی مذہب کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ بدکاری کا الزام ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

قانون شہادت کے تحت گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو عام طور پر ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے ایک بہتر اور آسان قانون وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تاریخ اشاعت 7 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جئہ پرکاش مورانی تیس سالوں سے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ سندھی اخبار "عبرت" کے سینیئر نیوز ایڈیٹر ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.