بلوچستان کے مغربی ضلع چاغی میں افغانستان اور ایران کی سرحد کو جانے والے طویل اور دشوار گزار راستوں پر کوئی انسانی آبادی دکھائی دے نہ دے، نیلے رنگ کے سامان بردار منی ٹرک ضرور نظر آتے ہیں۔ ایرانی کمپنی 'زامیاد' کے تیار کردہ ان منی ٹرکوں کو مقامی بلوچی زبان میں 'زمباد' کہا جاتا ہے۔
ہر روز تقریباً تین ہزار زمباد یوریا کھاد، آٹا اور سبزیاں لے کر افغانستان جاتے ہیں اور وہاں سے گاڑیوں کے پرزے اور ٹائر، کپڑے، خشک میوے، اون، سپاری اور دیگر اشیا لے کر پاکستان آتے ہیں۔ افغانستان سے لائی جانے والی ان اشیا پر پاکستانی حکومت فی الحال کوئی درآمدی ٹیکس وصول نہیں کرتی کیونکہ چاغی میں کوئی سرکاری سرحدی گزرگاہ موجود نہیں جہاں کسٹم کی چیک پوسٹ بنائی جا سکے۔
ایران سے پاکستان کو پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی غیر رسمی ترسیل بھی انہی منی ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے جس کے لیے روزانہ اوسطاً دو ہزار زمباد گاڑیاں ان دونوں ملکوں کی سرحد کے آرپار سفر کرتی ہیں۔
ضلع چاغی کی سوا دو لاکھ آبادی کے ایک بڑے حصے کا روزگار افغانستان اور ایران کے ساتھ ہونے والی اس تجارت سے وابستہ ہے۔ اس سے منسلک لوگوں میں ان منی ٹرکوں کے مالک، ڈرائیور، کلینر، سامان اتارنے اور چڑھانے والے مزدور، مکینک اور تجارتی راستے پر قائم چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کے مالک اور ملازمین سبھی شامل ہیں۔ ایک مقامی اندازے کے مطابق ضلع چاغی کے رہنے والے تقریباً چھ ہزار ڈرائیور، تاجر اور مزدور صرف پاک-افغان سرحد کے ذریعے ہونے والی غیر رسمی تجارت سے براہِ راست وابستہ ہیں۔
تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستان نے اپنی مغربی سرحد کے ایک بڑے حصے پر خاردار باڑ لگا دی ہے جس سے یہ تجارت خاصی محدود ہو گئی ہے۔ نتیجتاً اس سے وابستہ لوگوں کو کئی معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان مشکلات کے حل کے لیے منی ٹرکوں کے مالکان اور ڈرائیوروں نے 'زمباد کمیٹی' کے نام سے ایک غیر رجسٹرڈ انجمن بنائی ہوئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد افغانستان اور ایران کے ساتھ غیر رسمی سرحدی تجارت کو آسان بنانے اور اس میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سرکاری حکام سے بات چیت کرنا ہے۔ اس کے صدر نصیر سمالانی کا کہنا ہے کہ "یہ تجارت چوری چھپے نہیں ہوتی بلکہ حکومتی اہل کار اس سے پوری طرح آگاہ ہیں"۔
ضلع چاغی کی تحصیل تفتان کے اسسٹنٹ کمشنر ظہور احمد بلوچ کہتے ہیں کہ حکومت مقامی معیشت کے لیے اس تجارت کی اہمیت کو بخوبی سمجھتی ہے۔ اس لیے، ان کے مطابق، اس پر پابندی نہیں لگائی جا رہی بلکہ اسے کسی قاعدے قانون کے تحت لایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے وضع کردہ حکومتی قواعد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ "اس تجارت کی آڑ میں کی جانے والی غیرقانونی سرگرمیوں کو روکا جا سکے" جن میں افغانستان کو یوریا کھاد کی منتقلی خاص طور پر شامل ہے (کیونکہ اس سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد تیار کیا جا سکتا ہے)۔
چاغی کے صدر مقام دالبندین میں زمباد گاڑیاں سرکاری رجسٹریشن کا انتظار کرتے ہوئے۔
ان قواعد میں زمباد ٹرکوں کی رجسٹریشن بھی شامل ہے۔ چونکہ یہ منی ٹرک ایران سے کسی کاغذی کارروائی اور ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر لائے جاتے ہیں اس لیے بلوچستان کی صوبائی حکومت انہیں نہ تو رجسٹرڈ کرتی ہے اور نہ ہی انہیں پاکستانی نمبر پلیٹ جاری کرتی ہے۔ ظہور احمد بلوچ کا کہنا ہے کہ ضلع چاغی میں اس وقت 10 ہزار کے قریب ایسے منی ٹرک موجود ہیں۔ لیکن، ان کے مطابق، اب ان کی رجسٹریشن شروع ہو چکی ہے اور "اب تک تقریباً پانچ ہزار کو رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رجسٹریشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان منی ٹرکوں کو سرکاری ٹوکن جاری کر دیے جائیں گے تاکہ ان کی سرحد کے آر پار آمدورفت میں کوئی سرکاری اہل کار مزاحم نہ ہو۔
تاہم زیادہ تر زمباد مالکان اور ڈرائیور اس ٹوکن سسٹم کےحق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس سے کاروبار کے مواقع محدود ہو جائیں گے اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے لوگ اس نظام سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے" کیونکہ وہ سرکاری حکام سے مل ملا کر اپنے ملکیتی منی ٹرکوں اور حامیوں کے لیے دوسروں سے زیادہ ٹوکن جاری کرا لیں گے۔
ایک آگ کا صحرا ہے
ایک زمباد ٹرک کو ضلع چاغی کے قصبے نوکُنڈی سے افغانستان کی سرحد تک پہنچنے میں عموماً پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ چونکہ یہ سفر طے کرنے کے لیے کوئی پکی سڑک موجود نہیں اس لیے یہ گاڑیاں انسانی آبادیوں سے دور کچے راستوں پر گھنٹوں کھلے میدانوں اور صحراؤں میں پُرخطر سفر کرتے ہیں جہاں ہمیشہ راہزنی اور بھٹک جانے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر دوران سفر کوئی زمباد خراب ہو جائے تو بعض اوقات اس کے ڈرائیور کو مدد کے لیے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان ویرانوں میں بیشتر جگہوں پر موبائل فون کے سگنل بھی دستیاب نہیں ہوتے۔
نصیر سمالانی کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے حکومت ان منی ٹرکوں کی آمدورفت پر پہلے کی نسبت کہیں زیادہ سختی کر رہی ہے جس کے نتیجے میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں نہ صرف ان پر لدا ہوا سامان ضبط کر لیا گیا بلکہ ان کے ڈرائیوروں اور کلینروں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ان کے مطابق اپریل اور مئی 2022 میں ایسی کئی کارروائیاں کی گئی ہیں۔
چاغی میں متعین سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کا بنیادی سبب پاک-افغان سرحد پر پائی جانے والی کشیدگی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت کے کچھ حلقے اس سرحد پر پاکستان کی طرف سے باڑ لگانے کی کوششوں سے خوش نہیں ہے اس لیے 7 اپریل 2022 کو افغان علاقے سے ایک پاکستانی فوجی ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی کی گئی تھی۔ ان کے مطابق "اس کشیدگی کی وجہ سے زمباد ٹرک والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ سرحد کی جانب مت جائیں۔ لہٰذا جو لوگ اس انتباہ کو نظرانداز کرتے ہیں ان کے گاڑیاں سرکاری تحویل میں لے لی جاتی ہیں"۔
ایسا ہی ایک واقعہ 14 اپریل 2022 کو پیش آیا۔
حبیب اللہ نامی زمباد ڈرائیور کے مطابق اس دن سکیورٹی اہلکاروں نے تقریباً دو سو ٹرکوں کو روکا جن میں سے "بیشتر کو تو وہ اپنے ساتھ لے گئے لیکن باقیوں کی بیٹریاں اتار کر انہوں نے ان کے ریڈی ایٹروں میں ریت بھر دی تاکہ کوئی انہیں واپس نہ لے جا سکے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے ساتھی ڈرائیوروں کو "چھ گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ایک گاڑی ملی جس پر سوار ہو کر وہ نوکنڈی پہنچنے میں کامیاب ہوئے"۔
چاغی کے صدر مقام دالبندین کے رہنے والے 30 سالہ زمان بلوچ بھی ان ڈرائیوروں میں شامل تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "اہلکاروں نے ان کا کھانا اور پانی بھی چھین لیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ پیدل اپنے گھروں کو واپس جائیں حالانکہ اس وقت کئی ڈرائیور روزے کی حالت میں تھے"۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے سے متعلق پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں ڈرائیوروں کو صحرا میں پیدل سفر کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ویڈیو میں تین افراد ریت پر پڑے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر لگتا ہے شاید وہ پیاس اور بھوک کی شدت سے بے ہوش یا ہلاک ہو گئے ہوں۔
تاہم اُس وقت کے چاغی کے ڈپٹی کمشنر منصور بلوچ (جن کا ان واقعات کے بعد تبادلہ کر دیا گیا تھا) کسی بھی ہلاکت کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہل کاروں نے نہ تو ڈرائیوروں سے پانی اور کھانا چھینا اور نہ ہی انہیں پیدل نوکنڈی جانے پر مجبور کیا۔ اس کے برعکس ان کا دعویٰ ہے کہ ٹرکوں کی ضبطی کے بعد سکیورٹی حکام نے خود ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ڈرائیوروں کو پانی پہنچایا۔
تفتان کے اسسٹنٹ کمشنر ظہور احمد بلوچ بھی اسی طرح کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی لیویز فورس نے صحرا میں کھوئے ہوئے 50 سے زیادہ ڈرائیوروں کو ڈھونڈ کر ان کی جان بچائی اور انہیں نوکنڈی اور تفتان تک پہنچایا۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ "انہیں نہ تو کسی ڈرائیور کے مرنے کی خبر ملی ہے اور نہ ہی صحرا میں کسی کی لاش پائی گئی ہے"۔
لہو کا سراغ
چاغی میں افغانستان کی سرحد کے قریب واقع علاقے لشکر آب نامی جگہ سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ حمید اللہ چھ سال سے اپنے زمباد ٹرک میں تجارتی سامان لانے اور لے جانے کا کام کر رہے تھے۔ وہ 14 اپریل 2022 کو ایک معاون کے ساتھ افغان سرحد پر سامان پہنچا کر اپنے گھر واپس جا رہے تھے کہ ڈھک نامی صحرائی علاقے میں سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں روک کر ان کا ٹرک قبضے میں لینے کی کوشش کی۔ جب انہوں نے مبینہ طور پر فرار ہونے کی کوشش کی تو اہلکاروں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے سرحدی تجارت سے وابستہ ڈرائیوروں اور چاغی کے دیگر شہریوں نے نوکنڈی میں حمید اللہ کی لاش آر سی ڈی شاہراہ پر رکھ کر مظاہرہ کیا اور سڑک کو تمام ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ انہوں نے ایک سکیورٹی ادارے کے مقامی دفتر پر پتھراؤ بھی کیا جس کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کر کے کم از کم سات افراد کو زخمی کر دیا۔
اس سے اگلے روز مظاہرین نے نوکنڈی اور دالبندین کے مختلف مقامات پر آر سی ڈی شاہراہ دوبارہ ٹریفک کے لیے بند کر دی۔ ان کے احتجاج کے نتیجے میں ضلعی انتظامیہ نے ان سے رابطہ کر کے انہیں یقین دلایا کہ حمید اللہ کے ورثا کو انصاف فراہم کیا جائے گا اور مقامی لوگوں کو سرحدی تجارت سے نہیں روکا جائے گا۔ اس یقین دہانی کے بعد مظاہرین نے اپنا احتجاج ختم کر دیا۔
لیکن ان وعدوں پر کوئی عمل درآمد نہ ہونے کے بعد 18 اپریل کو مظاہرین دوبارہ اپنے مطالبات لے کر تحصیل چاغی میں فرنٹیئر کور کے کیمپ کے سامنے پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا جن کی جوابی فائرنگ سے نو مظاہرین زخمی ہو گئے۔
فوج اور فرنٹیئر کور سے تعلق رکھنے والے حکام اس صورتِ حال کی ذمہ داری "شرپسند عناصر" پر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے حمیداللہ کی موت کو بنیاد بناکر ان عناصر نے نوکنڈی اور چاغی میں سکیورٹی فورسز کے دفاتر پر دھاوا بولا اور قانون ہاتھ میں لینے اور سکیورٹی پر مامور افراد سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی جس کے ردعمل کے طور پر وہاں موجود اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کی۔
تاہم اس فائرنگ سے مظاہرین کے زخمی ہونے پر بلوچستان کے کئی حصوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں نے فوری طور پر متعدد مقامات پر اس کے خلاف مظاہرے کیے۔ اس احتجاج کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی جہاں اختر مینگل کی قیادت میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ارکان نے قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور فائرنگ کی تحقیق کے لیے ایک کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ بھی کیا۔
اس سیاسی ردِعمل کے نتیجے میں بلوچستان کے چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، سیکرٹری داخلہ اور اعلیٰ فوجی افسروں نے فوراً چاغی پہنچ کر امن عامہ کی صورتحال کا جائزہ لیا اور حمید اللہ کے گھر جاکر ان کے خاندان سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔
حمید اللہ کے بھائی محمد ابراہیم کے مطابق اس موقع پر چیف سیکرٹری مطہر نیاز رانا (جن کا اب تبادلہ ہوچکا ہے) نے ان کے والد کو پانچ لاکھ روپے کا چیک دیا۔ انہوں نے متاثرہ خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے اور حمیداللہ کے ٹرک کو مکمل قانونی رجسٹریشن فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
ان وعدوں کو متعدد ہفتے گزر چکے ہیں لیکن محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ نہ تو ان کے خاندان میں سے کسی کو اب تک نوکری ملی ہے اور نہ ہی ٹرک کی قانونی رجسٹریشن ہو سکی ہے۔
تاہم چاغی کے ڈپٹی کمشنر انعام الحق ان کی شکایات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو کچھ ضروری کاغذات درکار ہیں جو موصول ہوتے ہی ان وعدوں کی تکمیل کر دی جائے گی۔ ان کے مطابق "حمیداللہ کے اہلخانہ کو عدالت سے جانشینی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جونہی انہیں یہ سرٹیفکیٹ ملے گا حکومت بلوچستان اپنے وعدے کے مطابق انہیں 15 لاکھ روپے بطور زرِ تلافی منتقل کر دے گی"۔
تاریخ اشاعت 13 جون 2022