کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ شاہدہ بی بی کو دو برس سے چھاتی کا سرطان یا بریسٹ کینسر ہے۔ ان کے شوہر وفات پا چکے ہیں اور تین بیٹے معذور ہیں۔ ان کا گزر بسر گھر میں دوسروں کے کپڑے سینے سے ہوتا ہے۔
انہوں نے آب دیدہ ہو کر کہا "مجھے علاج کے لیے مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ پہلے ہر چھ ماہ بعد زکوٰۃ کی مد میں نو ہزار روپےملتے تھے لیکن دو سال ہوئے ایک روپیہ نہیں ملا۔"
چیئرمین ضلعی زکوٰۃ کمیٹی کوئٹہ زین العابدین خلجی 2018ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دفتر جانے پر ان کے پاس سیکڑوں مستحقین آ جاتے ہیں کیونکہ انہیں دو سال سے زکوٰۃ نہیں ملی۔
ان کے مطابق کوئٹہ میں مقامی سطح پر زکوٰۃ کمیٹیوں کی تعداد 191 ہے جس سے تقریباً چار ہزار گھرانوں اور خاندانوں کو ہر چھ ماہ بعد ایک ساتھ رقم دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2018ء سے اب تک صرف ایک سال زکوٰۃ کمیٹی چیئرمین کے لیے فنڈز ریلیز ہوئے۔
"بلوچستان کے تمام ڈسٹرکٹ زکوٰۃ چیئرمینز کو 2021ء کا بجٹ ملا مگر سابق سیکرٹری مذہبی امور نے 2022-23ء اور 2023-24ء کے بجٹ کا اجرا روک دیا۔اس پر نئے سیکرٹری مذہبی امور ندیم رحمان سے ہمارے مذاکرات ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق صوبائی زکوٰۃ کونسل کے چیئرمین کی مدت ختم ہونے سے وہ باڈی موجود نہیں جس کی تجویز پر بجٹ جاری ہوتا ہے۔"
زین العابدین کا کہنا تھا کہ بیروزگاری اور مہنگائی کے دور میں ہم مشکلات سے دوچار معذوروں کو جلد از جلد کوئی ریلیف دینے کی کوشش میں ہیں۔ اس سلسلے میں میری نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان سے تمام زکوٰۃ کمیٹی چیئرمینز کے ہمراہ ملاقات ہوئی۔ انہیں تحفظات و خدشات سے آگاہ کیا گیا جس پر انہوں نے مسئلے کے حل کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ڈیرہ مراد جمالی کی عائشہ 275 کلومیٹر کا سفر کر کے اپنی والدہ کو کوئٹہ لائی ہیں۔ تین سال علاج کرانے کے بعد ان کی والدہ کینسر سے چھٹکارہ پا چکی ہیں لیکن انہیں ہر تین ماہ بعد ڈاکٹر سے معائنہ کروانے صوبائی دارالحکومت آنا پڑتا ہے۔
عائشہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں آنے والے گزشتہ سیلاب میں ان کا گھر اور مال مویشی سب بہہ گئے۔ اب ان کے والد دیہاڑی دار مزدور اور گھر کے واحد کفیل ہیں۔
"والدہ کی دوائیں ختم ہو گئی تھیں جس کے بعد انہیں تکلیف ہونا شروع ہو گئی۔ میں والدہ کو اس امید پر کوئٹہ لائی کہ دوائیں ملیں گی مگر یہاں آ کر پتا چلا کہ ہسپتال کے پاس فنڈز ختم ہو چکے ہیں اس لیے وہ نہیں مل سکیں گی۔"
ڈاکٹر فیروز اچکزئی ریڈی ایشن اینڈ میڈیکل اونکولوجسٹ کنسلٹنٹ ہیں اور سینار ہسپتال میں آٹھ سال سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سینار ہسپتال حکومت بلوچستان کے زیر انتظام چلنے والا واحد کینسر ہسپتال ہے۔
سینار کے ریکارڈ کے مطابق بلوچستان میں ماہانہ 800 سے 900 عورتیں بریسٹ کینسر کا علاج کروانے آتی ہے۔ یہاں علاج کے اخراجات بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ، پاکستان بیت المال اور زکوٰۃ کی رقوم سے کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فیروز اچکزئی کہتے ہیں کہ سالانہ زکوٰۃ فنڈ میں سے انہیں ایک کروڑ 20 لاکھ دیے جاتے ہیں۔
"یہ رقم آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کینسر کی دوائیں مہنگی اور عام افراد کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں۔ اس لیے ہم مریضوں کو کم نرخ والی دوائیاں دیتے ہیں تاکہ ان کا علاج مکمل ہو سکے۔ زکوٰۃ کے سالانہ فنڈ میں سے ایک مریض کو پانچ سے چھ ہزار روپے کی دوائیں دی جاتی ہیں۔"
ڈاکٹر فیروز کا کہنا ہے کہ فنڈز کی عدم ادائیگی سے ہمارے پاس دوائیوں کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ہم نے بہت بار محکمہ مذہبی امور کو خط لکھ کر آگاہ کیا اور درخواست کی کہ زکوٰۃ فنڈ کو ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ کروڑ روپے تک کیا جائے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
سیکرٹری مذہبی امور بلوچستان ندیم الرحمٰن کو چارج سنبھالے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں سے 32000 سے زائد مستحقین کو 1500 روپے ماہانہ کے حساب سے زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ محکمہ مذہبی امور طلبہ کے لیے وظائف، شادیوں کے لیے جہیز اور مستحقین کے لیے ویل چیئرز بھی فراہم کرتا ہے۔ بیمار افراد کے علاج کے لیے مختلف ہسپتالوں کو فنڈنگ بھی کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'مہنگا علاج ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا': بلوچستان میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کی مسیحائی کون کرے گا؟
فی الحال سب سے زیادہ رقم بلوچستان کے واحد بریسٹ کینسر ہسپتال سینار کو دی جا رہی ہے جو ایک کروڑ 20 لاکھ روپے ہے۔ اسے بڑھانے کی سمری اس سال منظور ہو جائے گی جس کے بعد ہسپتال کو سالانہ ایک کروڑ 50 لاکھ روپے ملیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستحقین کو سہولیات فراہم کرنے اور سسٹم کو صاف شفاف بنانے کے لیے اس عمل کو بائیو میٹرک کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق زکوٰۃ کی رقم ملک بھر سے جمع کرنے کے بعد وفاق صوبوں کو آبادی کے حساب سے منتقل کرتا ہے۔ بلوچستان میں فنڈ ریلیز نہ ہونے کی وجہ صوبائی زکوٰۃ کونسل کا نہ ہونا ہے۔ محکمہ مذہبی امور کی جانب سے اس کی سمری وزیر اعلیٰ بلوچستان کو بھیجی گئی ہے مگر یہ اب تک منظور نہیں ہوئی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جلد سمری پر دستخط کر دیں گے جس سے صوبائی کونسل کا قیام عمل میں آ جائے گا اور مستحقین کے واجبات ادا کیے جائیں گے۔
نو رکنی صوبائی زکوٰۃ کونسل کی صدارت حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کو سونپی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ کمشنر کوئٹہ کو ان کا نام ارسال کرتی ہے۔ کمشنر چیئرمین اور ممبران کا نام محکمہ مذہبی امور کو بھیجتے ہیں۔ سیکرٹری مذہبی امور اس کی سمری وزیر اعلیٰ بلوچستان تک پہنچاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سمری منظور کر کے واپس محکمہ کو ارسال کرتے ہیں۔ اس کے بعد محکمہ مذہبی امور صوبائی زکوٰۃ کونسل کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔ اس میں 45 سال یا اس سے زائد عمر کی کم از کم دو عورتوں کا ہونا لازمی ہے۔
تاریخ اشاعت 28 اکتوبر 2023