گریٹر تھل کینال کی تعمیر: 'بنجر زمین کو آباد کرنے کے منصوبے طاقتور لوگوں کو نوازنے کی چال ہوتے ہیں'۔

postImg

آصف ریاض

postImg

گریٹر تھل کینال کی تعمیر: 'بنجر زمین کو آباد کرنے کے منصوبے طاقتور لوگوں کو نوازنے کی چال ہوتے ہیں'۔

آصف ریاض

صوبہ سندھ کے زیریں علاقے کیٹی بندر میں دریائے سندھ اور بحیرہِ عرب کے سنگم پر پانی کے اندر ایک عمارت کی بنیادیں ابھی تک موجود ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 1950 کی دہائی میں یہاں دراصل چاول چھڑنے کا ایک کارخانہ تعمیر کیا گیا تھا۔  

آبی امور کے ماہر اور محقق حسن عباس اس عمارت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر واقعی یہ چاول چھڑنے کا کارخانہ تھی تو اس کا سمندر برد ہو جانا ایک انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ "اس کا مطلب یہ ہے کہ سمندر کا پانی ایک ایسی جگہ چڑھ آیا ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے چاول کی کاشت ہو رہی تھی"۔

لیکن ساتھ ہی وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان میں نہروں اور ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے بناتے وقت "لوگوں کے سامنے نہیں لائی جاتی" حالانکہ ان منصوبوں کی وجہ سے ہی دریائے سندھ سے بحیرہِ عرب میں جانے والے میٹھے پانی کی مقدار گھٹتی جا رہی ہے اور نتیجتاً سمندر کا کھارا پانی زرعی زمینوں پر چڑھتا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق پچھلی چند دہائیوں میں سمندر کی لہریں کئی لاکھ ایکڑ زمین نگل چکی ہیں۔ اس ضمن میں جمع کیے گئے سرکاری اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 1984 کے بعد بحیرہِ عرب ہر روز لگ بھگ 96 ایکڑ اراضی نگل رہا ہے۔

پنجاب میں زیرِتکمیل آب پاشی کے ایک بڑے منصوبے، گریٹر تھل کینال، کا ذکر کرتے ہوئے حسن عباس خبردار کرتے ہیں کہ اس سے زیرِیں سندھ کی زمینوں پر سمندر کی یلغار اور بھی تیز ہو جائے گی کیونکہ، ان کے مطابق، اس منصوبے کی تکمیل کے بعد اس علاقے میں دریا کا جو تھوڑا بہت پانی ابھی تک پہنچ رہا ہے وہ بھی نہیں پہنچ پائے گا"۔ 

پانی کی تقسیم کا بین الصوبائی معاہدہ

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس، کابل اور کرم کا سالانہ اوسط بہاؤ 146 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس میں سے تقریباً 114 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال ملک میں موجود سینکڑوں نہروں میں چھوڑا جاتا ہے۔

نواز شریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران 1991 میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان اس دریائی پانی کی سالانہ تقسیم کا معاہدہ طے پایا جس کے مطابق پنجاب کے حصے میں 55.94 ملین ایکڑ فٹ پانی آیا جبکہ سندھ کے لیے 48.76 ملین ایکڑ فٹ پانی مختص کیا گیا۔ باقی دو صوبوں میں سے خیبر پختونخوا کو 5.78 ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 3.87 ملین ایکڑ فٹ پانی کا حق دار قرار دیا گیا۔  

اس معاہدے میں خریف (اپریل تا ستمبر) اور ربیع (اکتوبر تا مارچ) کے موسموں کے لیے علیحدہ علیحدہ بھی پانی کا کوٹہ مختص کیا گیا۔ اس کے مطابق ہر موسمِ خریف میں پنجاب کو 37.07 ملین ایکڑ فٹ، سندھ کو 33.94 ملین ایکڑ فٹ، خیبر پختونخوا کو 3.48 ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 2.85 ملین ایکڑ فٹ پانی ملنا چاہیے۔ اسی طرح ہر موسمِ ربیع میں پنجاب کے حصے میں 18.87 ملین ایکڑ فٹ، سندھ کے حصے میں 14.82 ملین ایکڑ فٹ، خیبر پختونخوا کے حصے میں 2.30 ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کے حصے میں 1.02 ملین ایکڑ فٹ پانی آنا چاہیے۔ 

تاہم سندھ کے شہر میرپور خاص میں مقیم آبی امور کے ماہر عمر کریم کہتے ہیں کہ پچھلی ایک دہائی میں ان کے صوبے کو اوسطاً 43 ملین ایکڑ فٹ پانی ہی مل پایا ہے۔ ان کے مطابق اس کے نتیجے میں ٹھٹہ اور بدین کے اضلاع میں بہت سی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ 

سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام میں شعبہ ایگریکلچر انجینئرنگ کے انچارج ڈاکٹر الطاف احمد سیال بھی عمر کریم سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 2019 کے موسمِ خریف کے دوران سندھ کے تین زیریں اضلاع، ٹھٹہ، بدین اور سجاول، میں ایک سروے کیا جس میں انہیں پتا چلا کہ وہاں کے کسانوں نے اپنی 50 فیصد زمینوں پر کوئی فصل نہیں لگائی تھی کیونکہ انہیں اس کے لیے درکار نہری پانی دستیاب نہیں ہو سکا تھا۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُسی سال مغربی سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ میں بھی خریف کے موسم میں 50 فیصد زمینیں پانی کمی کی وجہ سے کاشت نہ کی جا سکیں حالانکہ، ان کے مطابق، "وہاں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسانوں نے اپنی زمین کے بڑے حصہ پر کوئی فصل کاشت نہ کی ہو"۔

اس سروے اور دیگر سرکاری اعدادوشمار کی بنیاد پر ڈاکٹر الطاف احمد سیال کہتے ہیں کہ ایک طرف تو سندھ میں پہنچنے والا پانی 1991 کے بین الصوبائی معاہدے میں دیے گئے اس کے حصے سے 20 فیصد سے 25 فیصد کم ہے لیکن "دوسری طرف پنجاب اپنے حصے سے زیادہ پانی استعمال کر رہا ہے"۔

ان کے مطابق 1991 کے معاہدے ہر عمل درآمد کرانے والے وفاقی ادارے، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا)، کی ویب سائٹ پر دیا گیا حساب کتاب ظاہر کرتا ہے کہ یکم اکتوبر 2021 سے لے کر 15 جنوری 2022 تک دریائے سندھ سے نکلنے والی دو نہروں، چشمہ-جہلم لنک کینال اور تونسہ-پنجند لنک کینال، میں 1991 کے معاہدے میں ان کے لیے طے کی گئی مقدار سے زیادہ پانی بہہ رہا تھا"۔ 

تھل کی نہروں سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟  

پنجاب کے مغربی اور جنوبی اضلاع سے گزرنے والی انہی نہروں میں سے ایک، چشمہ-جہلم لنک کینال، سے ضلع خوشاب کے مقام آدھی کوٹ پر 35 کلومیٹر لمبی گریٹر تھل کینال نکالی گئی ہے۔ اس کی تعمیر 2002 میں شروع ہوئی اور جون 2009 میں مکمل ہوئی۔ 

اس نہر سے تین سو 44 کلومیٹر لمبی چار شاخیں نکالی جائیں گی جو میانوالی، جھنگ، خوشاب، لیہ، بھکر اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں 17 لاکھ 38 ہزار ایکڑ ایسی اراضی کو سیراب کریں گی جو تھل کے صحرا کا حصہ ہے۔ ان شاخوں میں سے منکیرہ برانچ تعمیر ہو چکی ہے اور چوبارہ برانچ کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول کا کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ ڈھنگانہ اور نورپور تھل برانچوں پر ابھی تک کوئی کام شروع نہیں ہوا۔

سندھ کے کاشت کاروں اور سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ گریٹر تھل کینال کی مخالفت کی ہے۔ لیکن اس کی تعمیر اس لیے ممکن ہو سکی کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت (2008-1999) میں اس صوبے میں ایک ایسی حکومت قائم تھی جس کا وجود مرکزی حکومت کی سرپرستی کا مرہونِ منت تھا۔ اس لیے اس صوبائی انتظامیہ کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے منصوبے کو روک سکتی جسے مرکز اور پنجاب کے مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ 

اگرچہ سندھ کی موجودہ حکومت گریٹر تھل کینال منصوبے میں شامل چوبارہ برانچ کی تعمیر کی شدید مخالفت کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود اس کی تعمیر کے لیے درکار تمام انتظامی اور مالی اقدامات تیزی سے اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ اس کا تعمیراتی کام جلد از جلد شروع کیا جا سکے۔

چوبارہ برانچ کی تعمیر کے لیے حصولِ زمین پر متیعن پنجاب کے صوبائی محکمہِ آب پاشی کے اہل کار امان اللہ سیفی کہتے ہیں کہ اس کے بننے سے صحرائے "تھل میں رہنے والے لوگوں کی تقدیر بدل جائے گی"۔ لیکن معاشی اور ماحولیاتی انصاف کے لیے کام کرنے والے تھل کے باسی اظہر لاشاری کو خدشہ ہے کہ اس کی تعمیر سے ان کے آبائی علاقے میں غیر مقامی لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہو جائے گا۔ 

وہ تھل میں بنائی گئی پہلی نہر، تھل کینال، کی تعمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ صحرا کے مقامی باشندوں کو اس طرح کے منصوبوں کی تعمیر کا فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہوتا ہے۔ 

مغربی پنجاب کے ضلع میانوالی میں کالا باغ کے مقام سے نکالی گئی تھل کینال دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے متوازی بہتی ہوئی لگ بھگ تین سو کلومیٹر جنوب میں ضلع مظفر گڑھ میں ختم ہوتی ہے۔ اس کی تعمیر 1939 میں شروع ہوئی لیکن دوسری عالمی جنگ اور تقسیمِ ہندوستان کی وجہ سے اس کی تکمیل اور اس سے سیراب ہونے والی زمین کی الاٹمنٹ ہونے میں مزید 15 سال لگ گئے۔

اظہر لاشاری کہتے ہیں کہ "مشرقی اور وسطی پنجاب کے علاقوں سے لوگوں کو زمین کی آبادکاری کے نام پر تھل میں لا کر اس نہر سے سیراب ہونے والے علاقوں میں بسایا گیا" جس کے نتیجے میں تھل کی مقامی آبادی کئی جگہوں پر اقلیت بن کر رہ گئی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

چوبارہ برانچ پر سندھ کا اعتراض: 'تھل میں ایک نئی نہر بنانے سے ہمارے حصے کا پانی اور بھی کم ہو جائے گا'۔

وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تھل کینال سے مہاجر برانچ کے نام سے ایک چھوٹی نہر نکال کر پنجاب کے مغربی اضلاع میانوالی اور خوشاب سے گزاری گئی اور اس کی سیراب کردہ بیشتر اراضی 1947 میں مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کی گئی۔ ان کے مطابق بعد میں بھی مختلف سکیموں کے تحت "تھل کینال کے آس پاس کی لاکھوں ایکڑ زمین تھل سے باہر کے لوگوں کو دے دی گئی"۔ ان میں "ضلع قصور سے آئے وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی زمینیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان بنائی گئی سرحدی لائن کی نذر ہو گئی تھیں اور وہ لوگ بھی جن کے گھر، کھیت کھلیان اور چراگاہیں حکومت نے منگلا ڈیم اور اسلام آباد شہر بنانے کے لیے اپنے قبضے میں لے لی تھیں"۔ 

ان کی بات کے ثبوت تھل کے طول و عرض میں واقع ان بستیوں کی شکل میں موجود ہیں جو 1947 کے بعد وجود میں آئی ہیں اور جن کے رہنے والے لوگوں کی اکثریت یہاں دوسری جگہوں سے آ کر آباد ہوئی ہے۔ ضلع بھکر کی تحصیل منکیرہ اور ضلع لیہ کی تحصیل چوبارہ میں اس کا ایک ثبوت ان زرعی فارموں کی شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جن کے باہر لگے بڑے بڑے بورڈ بتاتے ہیں کہ ان کے مالک وسطی اور شمالی پنجاب کے اضلاع کے رہنے والے سابقہ فوجی افسران ہیں۔ 

حسن عباس اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "پاکستان میں بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے نام پر جتنے بھی منصوبے بنائے جاتے رہے ہیں وہ دراصل طاقتور لوگوں کو نوازنے کی چال ہوتے ہیں"۔

وہ 1955 میں دریائے سندھ پر حیدرآباد کے قریب کوٹری بیراج کی تعمیر کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس کا مقصد انڈیا سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری تھا لیکن اس وقت کے فوج کے کمانڈر انچیف ایو ب خان نے بھی اس سے سیراب ہونے والی پانچ سو ایکڑ زمین الاٹ کرا لی"۔ بعد میں صدرِ پاکستان کی حیثیت سے ایوب خان نے صوبہ سندھ کے شمالی ضلعے کشمور میں 1962 میں بنائے گئے گدو بیراج کے علاقے میں بھی دو سو 62 ایکڑ اراضی حاصل کر لی۔   

گریٹر تھل کینال کے بارے میں بھی حسن عباس کا کہنا ہے کہ " اس سے سیراب ہونے والی زمینیں بھی اسی طرح طاقتور لوگوں نے پہلے سے ہی یا تو الاٹ کرا لی ہیں یا خرید لی ہیں"۔  

تاریخ اشاعت 20 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمرکوٹ سانحہ: "خوف کے ماحول میں دیوالی کیسے منائیں؟"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

کشمیر: جس کو سہارے کی ضرورت تھی، آج لوگوں کا سہارا بن گئی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.