کس کا ہے جرم کس کی خطا سوچنا پڑا: انجانے میں یا غلطی سے پاک-انڈیا سرحد پار کرنے والے نارووال کے باسیوں کی درد بھری داستاں۔

postImg

صبا چوہدری

postImg

کس کا ہے جرم کس کی خطا سوچنا پڑا: انجانے میں یا غلطی سے پاک-انڈیا سرحد پار کرنے والے نارووال کے باسیوں کی درد بھری داستاں۔

صبا چوہدری

صابرہ بی بی نے دو کمروں پر مشتمل اپنے کچے گھر میں ایک چارپائی اس امید پر الگ سے بچھا کر رکھی ہوئی ہے کہ کسی دن ان کا 21 سالہ بیٹا یاسین گھر لوٹ کر آئے گا اور اس پر سوئے گا۔ 

یاسین 12 اکتوبر 2021 کو صوبہ پنجاب کے مشرقی ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں جلالہ شریف میں واقع اپنے گھر سے نکل کر غائب ہو گیا تھا۔ تقریباً ایک ماہ بعد اس کی والدہ کو پتہ چلا کہ وہ انڈیا کے شہر امرتسر کی جیل میں قید ہے۔

انہیں یہ خبر اس وقت ملی جب کسی نے انہیں بتایا کہ 11 نومبر 2021 کو ایک انڈین ٹیلی ویژن چینل نے جیل میں ان کے بیٹے کا انٹرویو کیا ہے جس میں اُس نے کہا ہے کہ اس نے "غلطی سے سرحد پار کر لی تھی"۔ لہٰذا انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس نے اس "جرم"میں اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا تھا۔ 

صابرہ بی بی اب ہر وقت رو رو کر اس کی واپسی کے لیے دعا کرتی رہتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے گھرانے کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر اسے واپس لانے کے لیے مقامی پولیس، رینجرز، وزارت خارجہ، انڈیا کے سفارت خانے اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت ہر کسی سے رابطہ کیا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ انہیں اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ انڈیا میں کس حال میں ہے۔ 

یاسین کے گھر والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کافی عرصے سے دماغی امراض میں مبتلا ہے اور 2020 میں علاج کے لیے لاہور کے دماغی امراض کے ہسپتال فاؤنٹین ہاؤس میں بھی جاتا رہا ہے۔ دراصل صابرہ بی بی اور ان کے شوہر اللہ دتہ بھی کافی عرصے سے ذہنی تناؤ کے مریض ہیں اور اب ان کی 28 سالہ بیٹی غلام فاطمہ بھی اپنے بھائی کی گمشدگی کی وجہ سے شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئی ہیں۔

وہ اپنے والدین کے روکنے کے باوجود اکثر یہ کہتے ہوئے سرحد کی جانب چلی جاتی ہیں کہ وہ یاسین کو واپس لے کر آئیں گی۔ اس لیے صابرہ بی بی کو ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہیں ان کی بیٹی بھی کسی دن سرحد پار نہ چلی جائے۔ 

مہلک غلطی

عمران نذیر 8 فروری 2021 کو اچانک لاپتہ ہو گئے۔ 

اس وقت ان کی عمر 26 سال تھی اور وہ اپنے گاؤں میں کھیتی باڑی کیا کرتے تھے کیونکہ انہوں نے آٹھویں جماعت کے بعد سکول چھوڑ دیا تھا۔ ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ان کی ذہنی حالت کافی عرصے سے مستحکم نہیں تھی یہاں تک کہ گم شدگی سے پانچ ماہ قبل انہیں ڈپریشن کے دورے بھی پڑنے لگے تھے۔

شکر گڑھ میں پاکستان اور انڈیا کی سرحد<br>شکر گڑھ میں پاکستان اور انڈیا کی سرحد

وہ ضلع نارووال کی تحصیل ظفر وال کے گاؤں فتح پور بڑری کے رہنے والے تھے جو پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے پاس واقع ہے۔ ان کے بھائی شہباز نذیر کہتے ہیں کہ "ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت انہیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن جب ہمیں ان کا کوئی سراغ نہ ملا تو ہم نے سرحد پر متعین رینجرز کے اہل کاروں سے رابطہ کیا" تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ عمران نذیر کہیں غلطی سے سرحد پار تو نہیں چلے گئے تھے۔ 

ان کے مطابق جب رینجرز نے اس معاملے کی تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بھائی نے ایسا ہی کیا تھا اس لیے انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہل کاروں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پاکستانی حکام نے بعد ازاں انڈین حکام سے بات چیت کر کے ان کی لاش واپس حاصل کر لی اور اسے اُن کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا۔

ضلع نارووال کے قصبے شکر گڑھ میں رہنے والے 58 سالہ نیاز احمد کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ 

وہ 12 دسمبر 2019 کو صبح سویرے اپنے گھر سے چترانہ نامی گاؤں جانے کے لیے نکلے جو شکرگڑھ سے 15 کلومیٹر دور واقع ہے اور جہاں ان کی شادی شدہ بیٹی رہتی ہے۔ لیکن اس روز شدید دھند ہونے کی وجہ سے وہ راستہ بھٹک کر سرحد کے دوسری طرف چلے گئے جہاں انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس نے ان پر گولیاں برسا دیں۔ ان کی بیٹی آنسہ کا کہنا ہے کہ "میرے والد کی لاش ساری رات کھیتوں میں پڑی رہی" جہاں بارش میں مسلسل بھیگنے کی وجہ سے اس کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ 

ایک روز بعد کسی نے اس لاش کی تصویر سوشل میڈیا پر لگا دی لیکن، آنسہ کے مطابق، اس میں "انہیں پہچاننا تقریباً نا ممکن تھا"۔ وہ کہتی ہیں کہ بالآخر "ہم نے انہیں ان کے ہاتھوں سے شناخت کیا''۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاکستان اور ایران میں منقسم بلوچ خاندان: خصوصی سفری اجازت ناموں کے خاتمے کے بعد چاغی کے لوگ 'اپنی جان پر کھیل کر سرحد پار کر رہے ہیں'۔

خونی لکیر

ضلع نارووال کی حدود شمال میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے ضلع جمّوں اور مشرق میں انڈیا کی ریاست پنجاب کے ضلح گورداسپور سے ملتی ہیں۔ اس کی دو تحصیلوں، شکر گڑھ اور ظفروال، کے درجنوں گاؤں سرحد سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں جن سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ پچھلے کچھ سالوں میں غلطی سے یا انجانے میں سرحد پار کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو انڈیا کی بارڈر فورس نے گرفتار کر کے جیلوں میں رکھا ہوا ہے لیکن بعض اس کی گولیوں کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ 

مقامی لوگوں کا کہنا ہے انڈیا کی طرف سے سرحد پر لگائی گئی خاردار تاروں کی باڑ عین سرحدی لکیر کے اوپر نہیں بلکہ اس سے کئی سو میٹر پیچھے انڈین حدود میں واقع ہے جس کے باعث لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب سرحد پار کر چکے ہیں۔ بعض جگہوں پر اس باڑ میں بڑے بڑے شگاف ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے سرحد کا تعین مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سرحدی لکیر بعض اوقات کھیتوں، ندی، نالوں اور دریاؤں میں سے بھی گزرتی ہے جہاں اس کا تعین کرنا آسان نہیں ہوتا۔ 

جب عمران نذیر، نیاز احمد اور یاسین کی طرح کوئی پاکستانی شہری اس لکیر کو عبور کر کے دوسری جانب جا نکلتا ہے تو پاکستان رینجرز اور انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس کے حکام کے درمیان ملاقات ہوتی ہے جس میں طے کیا جاتا ہے کہ آیا یہ کوئی مجرمانہ فعل تھا یا کوئی نادانستہ غلطی۔ تاہم اس ضمن میں مقامی پولیس کو شاذ ہی اطلاع دی جاتی ہے۔ 

اس لیے شکر گڑھ میں متعین ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ملک محمد خلیل کہتے ہیں "اگر کوئی شخص سرحد پار چلا جائے تو اس کے بارے میں تمام تر معلومات رینجرز کے پاس ہی ہوتی ہیں"۔  تاہم رینجرز حکام یہ معلومات شہریوں اور صحافیوں سے مکمل طور پر پوشیدہ رکھتے ہیں۔ 

اسی طرح اسلام آباد میں دفترِخارجہ کے اہل کار بھی صحافیوں کو یہ نہیں بتانا چاہتے کہ ہر سال کتنے پاکستانی غلطی سے سرحد پار کر کے انڈیا چلے جاتے ہیں، ان میں سے کتنے قید کیے جاتے ہیں اور کتنے مار دیے جاتے ہیں۔ تاہم وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان ایسے لوگوں کے خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے اور انہیں ہر نئی پیش رفت سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ (یاسین کے اہلِ خانہ اس دعوے کو رد کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ساتھ اپنے ایسے رابطوں کی تردید کرتے ہیں۔) 

انڈین بارڈر فورس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے لوگوں کی پاکستان واپسی کے حوالے سے وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس میں لگنے والے وقت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا وہ مجرمانہ طریقے سے سرحد کے دوسری طرف گئے یا ایسا غلطی سے ہو گیا۔ تاہم، وزارت کے حکام کے مطابق، دونوں صورتوں میں انہیں سرحد پار کرنے کے جرم کی سزا بھگتنا پڑتی ہے اور اگر پاکستان اور انڈیا کے تعلقات خراب ہوں تو کئی دفعہ انہیں سزا پوری کرنے کے باوجود بھی فوری طور پر رہائی نہیں ملتی۔ 

انڈین سکیورٹی فورس کے ہاتھوں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس پر باقاعدہ سرکاری احتجاج کرتا ہے۔ یہ احتجاج اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن اور نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے انڈیا کی وزارت خارجہ کو ریکارڈ کرایا جاتا ہے۔

تاہم عمران نذیر اور نیاز احمد کے لواحقین کہتے ہیں کہ وہ ان کی ہلاکت پر کیے گئے ایسے کسی بھی حکومتی احتجاج سے بے خبر ہیں۔

تاریخ اشاعت 1 ستمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

صبا چوہدری نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ قومی اور بین الاقوامی اشاعتی اداروں کے لیے صنفی موضوعات، انسانی حقوق اور سیاست پر رپورٹ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.