حیدر آباد سینٹرل جیل میں خواتین کی مخصوص جیل میں قید چھ عورتیں توہین مذہب کے مقدمے میں ضمانت کی منتظر ہیں۔ الزام کی سنگین نوعیت کے باعث کوئی وکیل ان کا کیس لڑنے پر تیار نہیں تھا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جب ایک وکیل نے ان کا مقدمہ لیا تو اسے دشنام اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔
یہ تمام عورتیں ایک ہی محلے کی رہائشی ہیں جنہیں میرپور خاص میں خواتین کے لئے الگ جیل نہ ہونے کے باعث حیدر آباد میں رکھا گیا ہے۔ اس مقدمے میں دو مرد بھی گرفتار اور میرپور خاص کی جیل میں بند ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق میرپور خاص کی تحصیل جھڈو سے ہے اور مبینہ طور پر یہ عورتیں سیکس ورکر ہیں۔
گرفتار عورتوں کی سربراہ مانی جانے والی عورت کی رشتہ دار قمرالنسا بتاتی ہیں کہ ان کا خاندان جھڈو کے جونیجو کوارٹرز میں رہتا ہے۔ اس علاقے میں کچھ لوگ منشیات فروخت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خاندان کے نوجوان بھی نشے کی لت میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ جب خاندان کی خواتین نے منشیات فروشوں کو اس دھندے سے روکنے کی کوشش کی تو فریقین میں جھگڑا ہو گیا۔
قمر النسا کے بقول اس جھگڑے کے بعد منشیات فروش ان کے بچوں کو مارنے پیٹنے اور ان کے گھروں پر حملے کرنے لگے۔ مبینہ طور پر ان لوگوں کو پولیس کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ چھ مئی کو ایسے ہی ایک حملے میں ان کے خاندان کے دو لڑکے زخمی ہو گئے۔
"ہمارے خاندان کے لوگ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے تھانہ جھڈو گئے تو پولیس نے ہماری بات سننے سے انکار کردیا۔ جب زخمیوں کا میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے لئے پولیس سے لیٹر مانگا گیا تو وہ بھی نہ دیا گیا۔ جب ہم نے احتجاج کیا تو پولیس نے ہماری چھ عورتوں اور دو مردوں کو کافی دیر تھانے پر بٹھا دیا"
قمر النسا کہتی ہیں کہ بعض معززین کی مداخلت اور شخصی ضمانت پر انہیں رہا کر دیا۔ لیکن جب یہ لوگ گھر پہنچے تو مخالف گروہ نے دوبارہ ان پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس صورتحال سے تنگ آ کر سات مئی کو ان لوگوں نے رات دو بجے جھڈو-ٹنڈو باگو بائی پاس روڈ کے چوک پر دھرنا دے دیا جو صبح 10 بجے تک جاری رہا۔
ایک سندھی ٹی وی چینل کے رپورٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ دھرنا دینے والی خواتین اور ان کے ساتھ موجود مرد مطالبہ کر رہے تھے کہ پولیس ان کے زخمی نوجوانوں کا ہسپتال سے میڈیکل کروانے کے لیے لیٹر فراہم کرے اور ان پر ہونے والے تشدد کی ایف آئی آر درج کرے۔ جھڈو پولیس نے ان کے احتجاج پر بھی ایف آئی آر نہ کاٹی اور صبح دس بجے چھ خواتین اور دو مردوں کو گرفتار کر لیا۔
ان لوگوں نے جس جگہ دھرنا دیا تھا وہاں قائم خانی محلے کی نگینہ مسجد کے پیش امام کی نگرانی میں بننے والے دینی مدرسے کے لئے چندہ جمع کرنے کی غرض سے بنائی گئی ایک جھونپڑی بھی واقع تھی جو اس روز جلی ہوئی پائی گئی۔ جب دھرنا دینے والوں کو گرفتار کیا گیا تو مسجد کے امام مولانا شفیع لغاری کی مدعیت میں ان لوگوں کے خلاف ہنگامے، دہشت گردی اور توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہی ملزموں نے جھونپڑی کو آگ لگائی تھی جس میں اس پر چسپاں ایک پوسٹر بھی جل گیا جس پر مقدس نام اور کلمات تحریر تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس مقدمے کے مشیر نامے میں لکھا ہے کہ مدعی اور اس کے گواہوں نے جونیجو کوارٹرز میں جا کر ملزموں کی شناخت کی جس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا جبکہ اس واقعے کی ویڈیو میں صاف طور سے دکھائی دے رہا ہے کہ دھرنے کے مقام سے ان مرد و خواتین کی گرفتاری کے وقت مدعی مقدمہ مولانا شفیع بھی موقع پر موجود ہیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق ایف آئی آر ملزمان کی گرفتاری کے بعد کاٹی گئی ہے۔ ملزمان کے ناموں اور چہروں کی مدعی نے شناخت کیسے کی اس سوال کا مدعی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
گرفتار ہونے والے تمام ملزموں کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے ان کا چار روزہ ریمانڈ لیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزموں نے اعتراف کیا ہے کہ چندے والی جھونپڑی کو انہوں نے ہی نذرآتش کیا ہے۔ جب اس نمائندے نے ایس ایچ او سے گواہوں اور حتمی چالان کے حوالے سے سوالات کئے تو جواباً ان کا کہنا تھا کہ یہ 'سرکاری سیکرٹ' ہے جسے ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقدمے میں ایک اور تضاد مولانا شفیع کے بیان سے سامنے آیا ہے جنہوں ںے اِس نمائندے کو بتایا کہ سات مئی کی صبح وہ جھڈو۔ٹنڈوباگو بائی پاس چوک سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے چند خواتین، مردوں اور بچوں کو سڑک پر دھرنا دیے دیکھا۔ دھرنا دینے والے چہرے ان کے لیے اجنبی تھے۔ بعد میں ان کے بھائی اور کزن نے انہیں بتایا کہ جس جگہ دھرنا دیا گیا تھا وہاں چندے والی جھونپڑی بھی جلی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر: حیدر آباد میں توہین مذہب کیس کے اصل حقائق
مولانا شفیع کے مطابق انہوں نے اپنے بھائی اور کزن کی بتائی ہوئی معلومات پر ایف آئی درج کرائی ہے۔
جھڈو سے تعلق رکھنے والے ممتاز کھوسہ سندھ کی سیاسی جماعت عوامی تحریک کے رکن اور اس مقدمے میں ملزموں کے وکیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ملزموں کی بے بسی اور لاچارگی کو دیکھ کر رضاکارانہ طور پر ان کی وکالت کر رہے ہیں۔ یہ واضح طور پر ایک جھوٹا مقدمہ ہے جس میں ایف آئی آر سے لے کر مشیر نامے اور گواہوں کے بیانات سے جائے وقوعہ، وقت اور تاریخوں کی تفصیل تک تضادات ہی تضادات ہیں۔ امید ہے کہ عدالت تمام ملزموں کو جلد بری کر دے گی۔
تاریخ اشاعت 26 مئی 2023