وزیراعظم شہباز شریف نے جون 2022ء میں اعلان کیا تھا کہ بلوچستان میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو توسیع دے کر اس سے مستفید ہونے والے افراد میں پانچ لاکھ کا اضافہ کیا جائے گا۔
ان کا یہ اعلان خوش آئند بھی تھا اور بلوچستان کا اہم اور دیرینہ مطالبہ بھی۔
کثیر جہتی غربت پر 2016 کی رپورٹ نے بلوچستان کے 71 فیصد افراد کو ان سہولیات سے محروم قرار دیا تھا جن کی بنیاد پر غربت کی سطح کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ پنجاب، سندھ اور پختونخوا میں یہ شرح بالترتیب 31، 43 اور 49 فیصد تھی۔ اس شرح کو ماہرین Uncensored Headcount Ratio کہتے ہیں۔
تمام ماہرین میں اس بارے میں مکمل اتفاق ہے کہ بلوچستان میں غربت کی سطح ملک کے دیگر تمام علاقوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن پھر بھی غربت کے خاتمے یا ازالے کے لیے جاری حکومتِ پاکستان کے سب سے بڑے اقدام - بینظیر انکم سپورٹ پروگرام - میں اس صوبے کا حصہ بہت کم ہے۔
ترجمان بلوچستان حکومت فرح عظیم شاہ کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بلوچستان کا موجودہ حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی پاکستان کی کل آبادی کا چھ فیصد بنتی ہے اور اگر صوبے میں غربت کی اضافی شرح کو بھی شمار کر لیا جائے تو بلوچستان کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں حصہ 10 فیصد سے بھی زائد بنتا ہے۔
فرح عظیم شاہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وزیرِ اعظم کے اعلان کے بعد بلوچستان حکومت وفاق کو صوبے کا حصہ بڑھانے کے لیے تین بار مراسلے ارسال کر چکی ہے۔
ترجمان کے مطابق 14 جون کو پہلی بار اور 28 جون 2022ء کو دوسری بار وزیراعلیٰ بلوچستان نے وزیراعظم کو خط لکھا اور ان پر زور دیا کہ وہ بلوچستان میں پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بڑھانے کے اپنے وعدے کو پورا کریں۔ ان کے مطابق اس سلسلے کا تیسرا خط 22 ستمبر کو بھیجا گیا تھا۔ تاہم اعلان کے دس ماہ بعد بھی اس سلسلے میں کچھ خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بلوچستان کا موجودہ حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے جو 10 فیصد سے بھی زائد بنتا ہے
پاکستان میں اس وقت 80 لاکھ افراد کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مختلف ضمن میں مالی امداد دی جا رہی ہے جس میں بلوچستان کے 2 لاکھ 77 ہزار افراد بھی شامل ہیں۔
پروگرام کے اسلام آباد میں متعین ، ڈائریکٹر کمیونکیشن ثاقب ممتاز کے مطابق بلوچستان کے پانچ لاکھ افراد کو شامل کرنے کے لیے انہیں مزید 12 ارب روپے درکار ہوں گے۔
غربت کا پیمانہ: آمدن یا اثاثے
ڈاکٹر سعد سلیم جامعہ بلوچستان میں شعبہ سوشل سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پروگرام میں مستحقین کی رجسٹریشن کا موجودہ پیچیدہ نظام بھی اس ضمن میں ایک رکاوٹ ہے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پروگرام کی رجسٹریشن کے مرحلے میں زیادہ تر درخواستیں معمولی تکنیکی نقائص کی بنیاد پر مسترد کردی جاتی ہیں جو وسائل سے محروم مستحقین کے ساتھ ناانصافی ہے۔
انہوں نے رجسٹریشن کے طریقہ کار میں ایک بڑے نقص کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ پروگرام مستحقین کی اہلیت کو ان کی آمدن کی بجائے ان کے اثاثوں کی قدر کی بنیاد پر جانچتا ہے۔ کسی کی ماہانہ آمدن 25 ہزار روپے سے کم ہے مگر اس کا ملکیتی گھر چند لاکھ روپے کا ہے تو اس اثاثے کی بنیاد پر اس کی اہلیت مسترد کر دی جاتی ہے۔ "اس بنیاد پر انتہائی کم آمدن والے ہزاروں خاندان بھی بی آئی ایس پی کی رجسٹریشن کے مرحلے میں مسترد کر دیے جاتے ہیں"۔
کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی کی رہائشی 36 سالہ ناہیدہ ایسی ہی ایک متاثرہ خاتون ہیں۔ وہ اکیلی ماں ہیں جو اپنے شوہر کی موت کے بعد تین چھوٹے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ مالی امداد کے حصول کے لیے انھوں نے کوئٹہ میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ارباب کرم خان روڈ پر قائم دفتر میں درخواست جمع کروائی۔
چھ ماہ کے انتظار اور دفتر کے متعدد چکر لگانے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ ان کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے کیونکہ ان کے پاس اپنی معاشی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے مناسب دستاویزات نہیں تھیں۔ ناہیدہ پچھلے سات سالوں سے اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی بسر کررہی ہیں اور بمشکل اپنے بچوں کی پرورش کر پا رہی ہیں۔
رجسٹریشن کا پیچیدہ نظام ہونے سے کئی افراد بیظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد کے لیے اہل نہیں ہو پاتے
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل عبدالجبار نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے طریقہ کار کی اس خامی کو تسلیم کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی درخواست گزار ایسے آتے ہیں جو واقعی انتہائی مخدوش حالات کا شکار ہوتے ہیں مگر سسٹم اتنا پیچیدہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی عذر کے باعث امداد کے لیے اہل نہیں ہو پاتے۔
"بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہونے کی شرائط سخت رکھی گئی ہیں۔ اسکین کا آپشن رکھنے والا شناختی کارڈ، پاسپورٹ، موٹرسائیکل رکھنے یا بجلی گیس کے زائد بل کی وجہ سے کئی افراد اس امداد کے لیے اہل قرار نہیں پاتے ہیں"۔
وہ خود بتاتے ہیں کہ "ایک خاتون میرے پاس درخواست لے کر آئیں کہ انکی درخواست ان کے اثاثے کی بنیاد پر مسترد کردی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک گھر تو ان کے نام پر ہے مگر وہ سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے"۔
بلوچستان میں رجسٹریشن کچھوے کی چال کیوں چلتی ہے؟
ڈائریکٹر جنرل عبدالجبار کہتے ہیں کہ پروگرام کے تحت بلوچستان میں رجسٹریشن کا عمل بنا رُکے سال بھر جاری رہتا ہے اور رجسٹرڈ بینفشریز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مستفید ہونے والوں کی تعداد حکومت کی جانب سے اس پروگرام کے لیے مختص کل رقم کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق وزیراعظم کے گوادر سے متعلق اعلان کے بعد ضلع میں مزید تین ہزار سے زائد خاندانوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حصہ بنایا گیا ہے۔یوں گوادر میں مستفید ہونے والی خواتین کی تعداد 14 ہزار سے بڑھ کر 17 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
ادارے کے بلوچستان آفس کے مطابق وزیراعظم کے اعلان کے بعد سے صوبے بھر میں پروگرام سے مستفید ہونے والی خواتین کی تعداد میں 47 ہزار کا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود صوبے کے مستحقین کی کل تعداد صوبے کے جائز حصے سے بہت کم ہے۔
عبدالجبار اپنے ادارے کی استعداد کے بارے میں بھی شاکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا 60 فیصد عملہ ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکموں سے یہاں تعینات ہے۔ "30 فیصد ہیومن ریسورس کے ساتھ کام کر رہا ہوں جو مشکلات کا باعث بھی ہے اور بلوچستان کے دیگر صوبوں سے پیچھے رہنے کی ایک وجہ بھی"۔
یہ بھی پڑھیں
'مہنگا علاج ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا': بلوچستان میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا خواتین کی مسیحائی کون کرے گا؟
پروگرام کے دفاتر میں دوسرے محکموں سے ڈیپوٹیشن پر آئے اہلکار اور افسران گذشتہ سالوں میں ایک سے زائد بار مختلف نوعیت کی بد عنوانیوں اور مالی بے ضابطگیوں میں بھی ملوث پائے گئے اور انہیں جرم ثابت ہونے پر سزا بھی دی گئی۔ جس نے ادارے کے دفتری ماحول اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
رجسٹریشن سسٹم کے بارے عبدالجبار مزید بتاتے ہیں: "سسٹم آن لائن ہے اور بلوچستان میں بجلی اور انٹرنیٹ کی دستیابی کے مسائل بھی شدید ہیں۔ پھر رجسٹریشن سینٹرز انتہائی دور ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کو بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔
وفاقی وزیر اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن شازیہ مری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ بلوچستان میں مستحقین کی رجسٹریشن کے لیے پروگرام کے تقریباً 25 موبائل یونٹ قائم کیے گئے ہیں۔
"ہم اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں کو بی آئی ایس پی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو اور ایسے ٹارگٹڈ پروگرام متعارف کروائے جائیں جو آبادی کے سب سے زیادہ کمزور افراد کو امداد فراہم کرنے پر مرکوز ہوں۔ ان پروگراموں میں تعلیم، صحت اور دیگر ضروری خدمات کے لیے خصوصی گرانٹس شامل ہیں"۔
تاریخ اشاعت 4 اپریل 2023