چوہدری ارشد مانگٹ نے اپنے نو ایکڑ رقبے پر لگی گندم کی کٹائی تو مکمل کرلی ہے لیکن اب وہ اس شش و پنج میں ہیں کہ اپنی فصل حکومت کو فروخت کریں یا نہیں۔
وہ پچھلے سالوں میں اپنی تمام گندم سرکاری خریداری مرکز پر ہی پہنچاتے آئے ہیں۔
لیکن ان کے بقول اس مرتبہ اگر وہ اپنی گندم سرکاری خریداری مرکز تک پہنچانا چاہیں تو انہیں پہلے باردانہ اور پھر فصل کا معاوضہ لینے کے لیے 40 کلومیٹر دور بینک کے کئی چکر لگانا پڑیں گے۔
چوہدری ارشد کا تعلق ضلع بھکر کے چک 217 ٹی ڈی اے سے ہے اور انہیں جس بینک سے معاوضہ ملنا ہے وہ تحصیل منکیرہ میں بنک آف پنجاب کی ایک برانچ ہے۔
ارشد کہتے ہیں کہ پہلے انہیں باردانہ لینے کے لئے پیسے جمع کرانا ہوں گے۔ پھر فصل کو گاؤں سے چار کلومیٹر دور سرکاری مرکز تک لے جانا ہو گا۔ اس کے بعد وہ مرکز سے ملنے والی رسید کو بینک میں جمع کرائیں گے اور پھر ایک یا دو دن بعد انہیں پیسے لینے کے لئے دوبارہ بینک جانا پڑے گا اور ممکنہ طور پر کئی چکر بھی لگانا پڑ سکتے ہیں کیونکہ پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ جب وہ بینک گئے تو انہیں اگلے دن آنے کا کہہ دیا گیا۔
بھکر کے بیشتر کاشت کاروں کو ان دنوں یہی پریشانی لاحق ہے۔ پورے ضلعے میں بینک آف پنجاب کی صرف چار شاخیں ہیں جن میں سے ایک بھکر شہر اور باقی اس کی تین تحصیلوں منکیرہ، دریاخان اور کلور کوٹ میں واقع ہیں۔
چوہدری ارشد کہتے ہیں کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو ادائیگی کے لئے ایسے بینک کا انتخاب کیا ہے جس کی شاخیں گندم کی خریداری کے سرکاری مراکز سے بہت دور ہیں۔ پچھلے سالوں میں انہیں فصل کی قیمت لینے کے لیے خریداری مرکز سے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اب کے وہ اپنی فصل کسی آڑھتی یا بیوپاری کو فروخت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
ان کے خیال میں ایک یا دو ایکڑ چھوٹے کاشت کار اس سارے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے شاید اس بار آڑھتی کو ہی اپنی فصل فروخت کرنے کو ترجیح دیں گے۔
چک 51 ٹی ڈی اے کے مرکز کو منکیرہ برانچ سے منسلک کیا گیا ہے جو 50 کلومیٹر دور ہے۔ بہل خریداری مرکز کو بھکر برانچ سے منسلک کیا گیا ہے اور ان دونوں کا درمیانی فاصلہ 25 کلومیٹر ہے۔ اسی طرح، برکت والا، چاندنی چوک، نوتک اور دوسرے مراکز بھی بینکوں سے لگ بھگ 25 سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
چک 2 قصبہ جنڈانوالہ کے حاجی بشارت اعوان اور بستی بختاور کے نعیم اقبال ڈھانڈلہ ضلعے کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں بھی حکومت کی جانب سے کاشت کاروں کو ادائیگی کے لئے بینک آف پنجاب کے انتخاب پر اعتراض ہے۔
حاجی بشارت نے 60 ایکڑ رقبے پر گندم اگائی ہے۔ پہلے وہ باردانے کے لیے چالان اور ادائیگی کا واؤچر چاندنی چوک میں قائم سرکاری گندم خریداری مرکز کے قریب ہی جنڈانوالہ نامی قصبے کی ایک بنک برانچ میں جمع کرا دیتے تھے لیکن اس بار انہیں 50 کلومیٹر دور کلور کوٹ جانا پڑے گا۔
وہ اپیل کرتے ہیں کہ حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور کسی ایسے بینک کے ذریعے بھی ادائیگی کروائی جائے جس کی برانچیں زیادہ ہوں۔
''اگر یہی صورتحال رہی تو چھوٹے کاشتکار کسی بھی صورت سرکار کو گندم فروخت نہیں کریں گے کیونکہ ان کے پاس مڈل مین اور آڑھتی کی صورت میں ایک بہترین ذریعہ موجود ہے جو سرکار کے مقرر کردہ نرخ سے زیادہ قیمت بھی دیتا ہے۔''
بینک آف پنجاب کی برانچیں دور ہونے کی وجہ سے کسان اپنی گندم آڑھتی کو فروخت کرنا چاہتے ہیں
نعیم اقبال ڈھانڈلہ کے خیال میں حکومت کی اس پالیسی کا ملک کو بھی نقصان ہو گا۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ادائیگی کے عمل میں مزید بینکوں کو شامل نہ کیا گیا تو بھکر سمیت بہت سے علاقوں میں گندم کی خریداری کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا۔
صوبائی محکمہ خوراک کی 2 مئی کو جاری ایک رپورٹ سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ضلع بھکر میں گندم کی 66 فیصد کٹائی مکمل ہونے کے باوجود حکومت ابھی تک اپنے مقررہ ہدف کا 25 فیصد ہی حاصل کرپائی ہے۔
ضلع بھکر میں رواں سال چار لاکھ تین ہزار ایکڑ رقبے پر گندم اگائی گئی ہے اور حکومت نے اس ضلعے سے ایک لاکھ 10 ہزار میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کررکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
محنت کسان کی، ریٹ سرکار کا، منافع آڑھتی کا: 'ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لا کر اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا جاتا ہے'
ضلعی فوڈ کنٹرولر مظہر حسین کہتے ہیں کہ گندم خریداری کی پالیسی باقاعدہ طریقہ کار اپناتے ہوئے مرتب کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب میں کام کرنے والے تمام بینکوں سے کوٹیشن طلب کی جاتی ہیں اور جس بنک کا انٹرسٹ ریٹ سب سے کم ہوتا ہے اسی کو منتخب کیا جاتا ہے۔
وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بینک آف پنجاب کے ساتھ معاہدے کے باعث دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ بینک آف پنجاب کی انتظامیہ سے بات چیت کے بعد یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جو بینک خریداری مرکز سے 20 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں وہاں بینک اپنے سہولتی مراکز قائم کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں کاشتکاروں کو دور دراز علاقوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت ڈاکٹر شوکت علی عابد کہتے ہیں کہ "ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر دو، دو اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو گاؤں گاؤں جاکر کاشتکاروں سے ملاقات کرکے انہیں اس بات کی ترغیب دے رہی ہیں کہ وہ ملک اور صوبے کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فصل کسی مڈل مین یا آڑھتی کو نہ دیں۔''
تاریخ اشاعت 6 مئی 2023