ملتان کا بہاءالدین زکریا کمپلیکس: زائرین کے لیے تعمیر عمارت 32 برس سے کون استعمال کررہا ہے؟

postImg

رانا عرفان

postImg

ملتان کا بہاءالدین زکریا کمپلیکس: زائرین کے لیے تعمیر عمارت 32 برس سے کون استعمال کررہا ہے؟

رانا عرفان

شمو کورائی ملتان کے اولیاء کرام کے مزارات پر حاضری دینے سندھ کے علاقے تھر سے آتے ہیں۔ گزشتہ ماہ جب وہ ملتان سے واپس جانے لگے تو موسلاھار بارش شروع ہو گئی۔ کسی زائر نے انہیں ایک قریبی عمارت میں پناہ لینے کا مشورہ دیا۔

زائرین کے لیے 1991ء میں تعمیر کی گئی یہ عمارت بہاءالدین زکریا کمپلیکس کہلاتی ہے۔ اس میں 200 سے زیادہ زائرین کے ٹھہرنے کی گنجائش ہے۔

شمو بتاتے ہیں کہ وہاں کمروں کو لگے تالے دیکھ کر مجھےسخت مایوسی ہوئی۔ "دیگر زائرین کے ہمراہ مجھے رات برآمدے میں گزارنی پڑی۔"

گھوٹکی کی زائرہ سلمٰی ابڑو کو بھی ملتان میں مناسب رہائش نہ ہونے کی وجہ سے سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سندھ سے جو ہزاروں زائرین ہر سال حاضری دینے ملتان آتے ہیں، وہ نذرانہ بھی دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میرا سکھوں کے مذہبی مقام گردوارہ ننکانہ صاحب جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں زائرین کو بہترین لنگر اور رہائش دی جاتی ہے لیکن افسوس کہ ملتان کے کسی دربار میں اس طرح کی سہولیات نہیں۔

قلعہ کہنہ قاسم باغ پر حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی کے دربار کے قریب چھ کنال سے زائد رقبے پر قائم یہ کمپلیکس 20 سے زیادہ کمروں پر مشتمل ہے۔

ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے 10 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت پر اسے تعمیر کیا تھا۔

اس کمپلیکس کی تعمیر کا مقصد دور دراز سے آنے والے زائرین کو دربار کے قریب ہی صاف ستھری اور محفوظ رہائش مفت میں فراہم کرنا تھا۔

زونل ایڈمنسٹریٹر محکمہ اوقاف ملتان ضیا المصطفیٰ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ایم ڈی اے نے بہاءالدین زکریا کمپلیکس تعمیر کرنے کے بعد محکمہ اوقاف کے حوالے کیا تھا جس نے اگلے ہی برس اس کے سات کمروں میں اپنے دفاتر قائم کر لیے۔

 پھر 1996ء میں ڈپٹی کمشنر کے حکم پر تقریباً آدھی عمارت حاجی کیمپ انتظامیہ کو دے دی گئی جہاں سے جنوبی پنجاب کے لیے حج آپریشن کا آغاز ہوا۔ حاجی کیمپ وزارتِ مذہبی مذہبی کے زیراہتمام ہوتا ہے۔

ڈائریکٹر حج ملتان ریحان عباس کھوکھر نے بتایا کہ ملتان میں قائم ہونے والے حاجی کیمپ کے لیے کوئی مناسب جگہ دستیاب نہیں تھی اس لیے حج آپریشن کا آغاز زائرین کے لیے تعمیر ہونے والے کمپلیکس سے کرنا پڑا۔

"اب یہ جگہ بھی حج آپریشن کے لیے کم پڑ گئی ہے۔ اس لیے حاجی کیمپ کے گراسی پلاٹ میں مارکیاں لگانی پڑتی ہیں۔"

2014ء میں کمپلیکس کے تین کمروں میں لوہاری گیٹ تھانہ میں تعینات پولیس افسروں نے اپنے دفاتر قائم کر لیے۔

اب اس عمارت کے واش رومز  تک کو تالے لگے ہوتے ہیں۔اس لیے عورتوں، بچوں سمیت زائرین کو حاجت کے لیے کھلے آسمان تلے کپڑے کا پردہ لگانا پڑتا ہے۔

محکمہ اوقاف کے اعدادوشمار کے مطابق حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی اور حضرت شاہ رکن عالم کے سالانہ عرس کے موقع پر سندھ کے مختلف علاقوں سے 25 ہزار کے قریب زائرین چار دن کے لیے ملتان آتے ہیں۔

حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی کا سالانہ عرس پانچ سے سات صفر المظفر کو جبکہ حضرت شاہ رکن الدین عالم کا سالانہ عرس پانچ  سے سات جمادالاول کو ہوتا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان کی رہائش کے لیے محکمہ تعلیم کے 15 سکول اور کالج خالی کرائے جاتے ہیں۔مگر تین، چار روز کے لیے فراہم کی جانے والی رہائش کی یہ سہولیات ناکافی رہتی ہیں۔

عرس کے موقع پر درباروں کے احاطہ اور مسجد میں بھی زائرین رہائش اختیار کرتے ہیں۔

ان مخصوص دنوں کے علاوہ سال بھر سیکڑوں زائرین ٹولیوں اور قافلوں کی شکل میں درباروں پر حاضری کے لیے آتے رہتے ہیں۔

2014ء میں بہاؤالدین زکریا کمپلیس کے قریب زائرین کے لیے ایک لنگر خانہ بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ لوہاری گیٹ پولیس نے تعمیرکے فوراً بعد اپنا سامان رکھ کر اسے اپنے استعمال میں لانے کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملتان میں محکمہ اوقاف اور میپکو کے تنازعے کا شکار ہوتا شمسی توانائی کا منصوبہ

شاہ محمود قریشی ان مزاروں کے سجادہ نشین ہیں، وہ اس علاقے سے کئی بار منتخب ہو کر وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔

انہوں نے حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی کے سالانہ عرس کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ تھانہ لوہاری گیٹ جلد از جلد لنگر خانہ کی بلڈنگ کو خالی کر دے ورنہ وہ خود زائرین کے ہمراہ لنگر خانہ سے تھانے کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔

اس کے بعد پولیس نے لنگر خانہ خالی کر کے اپنا سامان عارضی طور پر اوقاف کے دفاتر اور بہاءالدین زکریا کمپلیکس کے دوسرے کمروں میں منتقل کر دیا۔

یہ سامان ابھی تک وہیں ہے۔

بہاءالدین زکریا کمپلیکس کے منیجر عبدالکریم پلی کا کہنا ہے کہ کمپلیکس کی عمارت کو واگزار کرانے کے لیے محکمہ مذہبی امور اور پولیس کو کئی بار لکھا گیا ہے لیکن تا حال اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔

تاریخ اشاعت 7 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رانا عرفان الاسلام کا تعلق ملتان سے ہے۔ گزشتہ 18سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مذہب سیاست تقافت اقلیتوں کے مسائل ان کے بنیادی موضوعات ہیں۔

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.