وفاقی دارالحکومت کے مغرب میں نصف گھنٹے کی مسافت پر ہی ضلع اٹک کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے اس ضلعے کی پانچ تحصیلیں ہوا کرتی تھیں لیکن 2005ء میں عوامی یا انتظامی ضروت کے تحت حضرو کو اٹک کی چھٹی تحصیل بنا دیا گیا تھا۔
حضرو کو تحصیل بنانے پر کسی کو کوئی پریشانی ہے نہ ہی ضلع اٹک کا حصہ ہونے سے کوئی مسئلہ ہے۔ یہاں لوگوں کو تکلیف یہ ہے کہ 18 سال بعد بھی اس تحصیل میں عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکا اور انہیں چھوٹے سے چھوٹے دیوانی یا فوج داری کیس کے لیے 45 کلومیٹر دور اٹک آنا پڑتا ہے۔
پچاس سالہ راشدہ بی بی (فرضی نام) حضرو کے نواح کی رہائشی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ برسوں پہلے خاوند سے ان کی علیحدگی ہوئی تھی۔ جس پر والد نے انہیں رہائش کے لیے ایک چھوٹا سا گھر دیا تھا لیکن یہ ان کے نام نہیں کرایا تھا۔ جبکہ ان کے بھائیوں نے والدین کی تمام جائیداد اپنے نام لکھوا لی تھی۔
وہ کہتی ہیں والدین کے انتقال کے بعد جو کچھ بچ گیا تھا وہ بھی بھائیوں نے دھوکے سے اپنے نام کرا لیا۔ اب جس گھر میں وہ رہ رہی ہیں اس میں بھی تمام بہن بھائیوں کا حصہ ہے۔
"میرا ایک بیٹا ہے جو بیمار رہتا ہے روٹی مشکل سے پوری ہوتی ہے۔ اگر حضرو میں عدالت ہوتی تو میں انصاف مانگنے ضرور جاتی لیکن اٹک نہیں جا سکتی۔ کیونکہ سنا ہے عدالتوں میں کیس بیس بیس سال ختم نہیں ہوتے اور آنے جانے پر بہت پیسے لگتے ہیں۔ اس لیے میں نے اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے۔"
ضلعے کی چھ تحصیلوں کی کل آبادی 21 لاکھ 70 ہزار 423 ہے جن میں سے اٹک کے سوا چاروں تحصیلوں کی آبادی حضرو سے کم ہے۔ ڈھائی لاکھ سے کچھ زائد آبادی والی تحصیل حسن ابدال سمیت پانچ تحصیلوں میں عدالتیں موجود ہیں لیکن حضرو کے لگ بھگ چار لاکھ لوگ 18 سال سے اٹک کے چکر لگا رہے ہیں۔
ودرہ خان حضرو کے گاوں یاسین کی رہائشی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ تین سال قبل ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ان کے چچا اور کزنز نے زمین ہتھیانے کے لیے انہیں اور ان کے بھائی ندیم خان کو والد کے قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا جبکہ والد کی طبعی موت ہوئی تھی۔
"مجھے عدالت نے باعزت بری کر دیا لیکن میرے بھائی کو 25 سال قید ہو گئی۔ اس کیس کی پیروی کے لیے مجھے اپنی معذور اور عمر رسیدہ ماں کے ساتھ عدالت آنا پڑتا ہے۔ ہم 35 کلو میٹر فاصلہ رکشہ میں طے کرکے اٹک آتی ہیں۔ ہر پیشی پر ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔"
وہ بتاتی ہیں کہ آنے اور واپس گھر پہنچنے میں شام ہو جاتی ہے۔ وکیل سے مشورے اور بھائی سے ملاقات کے لیے بھی اٹک ہی آنا پڑتا ہے۔ اگر حضرو میں عدالتیں ہوتیں تو انہیں بوڑھی ماں کے ساتھ اتنی مشکلات نہ اٹھانی پڑتیں۔
حضرو کے رہائشی مبارس خان 30 سال سے وکالت کر رہے ہیں۔ وہ روزانہ اٹک کچہری آتے ہیں اور شام کو واپس جا کر اپنے حضرو آفس میں بیٹھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ پنجاب کی واحد تحصیل ہے جہاں عدالتیں نہیں ہیں اور کم و بیش ایک سو چار چھوٹے بڑے قصبات و دیہات کے چار لاکھ افراد اس سہولت سے محروم ہیں۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اٹک کی عدالتوں میں دائر مجموعی مقدمات میں تحصیل اٹک سے زیادہ تحصیل حضرو کے ہیں۔ اسی طرح اس تحصیل سے سالانہ ریونیو بھی ضلع کی دیگر تحصیلوں سے زیادہ جمع ہوتا ہے مگر حضرو میں کورٹس نہیں بن پائیں۔
"میں تحصیل کورٹس کے لیے 18 سال سے کوشش کر رہا ہوں۔ جس کے لیے تحصیل بھر میں وال چاکنگ کرائی، حضرو کے سینیئر وکلاء سے مدد بھی مانگی مگر افسوس کسی وکیل نے میرا ساتھ نہیں دیا بلکہ الٹا حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انہوں نے یہاں عدالتوں کے لیے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو درخواست دی تو اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ شریف نے انہیں بلوا لیا۔جس پر وہ کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ملاقات کے لیے گئے تھے۔
" چیف جسٹس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹک بار سے چند وکلاء آئے تھے وہ تو کہتے ہیں اگر حضرو میں عدالتیں بن گئیں تو ہم بھوکے مر جائیں گے کیونکہ اٹک کی عدالتوں میں 60 فیصد سے زائد کیسز تحصیل حضرو کے ہیں۔ مجھے اس روز اندازہ ہوا کہ میرے سینیئر میرا ساتھ کیوں نہیں دے رہے۔"
مبارس خاں کا ماننا ہے کہ سینیئر وکلاء سوچتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں مقیم تحصیل حضرو کے بیشتر سائلین اچھی فیسیں دیتے ہیں اگر وہیں عدالتیں بن گئیں تو ان کی آمدنی کم ہو جائے گی۔
"لیکن انہیں اندازہ ہی نہیں کہ حضرو کے دور دراز دیہات سے بزرگ و خواتین سائل اپنے کیسز کی پیروی کے لیے کیسے اٹک پہنچتے ہیں۔ ہر پیشی پر اضافی اخراجات سے تنگ آ کر لوگ کیس کی پیروی ہی چھوڑ دیتے ہیں اور ریاست کو بھی سوچنا چاہیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کے قیام کے لیے آواز اٹھانے پر ان کے خلاف ایف آئی آر تک درج کروائی گئی۔ لیکن وہ ثابت قدم ہیں اور اپنی تگ و دو جاری رکھیں گے۔
فراکت خان حضرو میں کاروبار کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا لین دین کے معاملے پر کسی سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ انہیں شدید چوٹیں آئیں اور بات تھانے کچہری تک جا پہنچی۔ اب دو سال ہوگئے کیس اٹک کی عدالت میں چل رہا ہے۔
"ہر پیشی پر اٹک جانے سے ایک تو کاروبار متاثر ہوتا ہے دوسرا ہزاروں روپے اضافی خرچ ہوتے ہیں۔ مجھے کئی بار پولیس والوں کو عدالت لے جانا ہوتا تھا تو کرائے کی گاڑی لینا پڑتی تھی۔"
حضرو میں مقامی سماجی تنظیمیں 'چھچھ محافظ کمیٹی' اور 'اتحاد گروپ' کے ممبران بھی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں چھچھ محافظ کمیٹی کے چیئرمین نصیر خان جدون بتاتے ہیں کہ حضرو میں عدالتوں کے لیے لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر 101 کنال پندرہ مرلے سرکاری اراضی منتخب کرلی گئی ہے لیکن مزید کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی۔ تاہم ان کی کمیٹی لوگوں کے اس حق کے لیے کوشش جاری رکھے گے۔
یہاں کے سابق ایم پی اے جہانگیر خانزادہ سے تو رابطہ نہیں ہوسکا۔ البتہ ان کے قریبی ساتھی اور ن لیگ کے تحصیل صدر ملک انصار دعویٰ کرتے ہیں کہ اب کی بار حضرو میں عدالتوں کا قیام ان کی جماعت کی اولین ترجیحات میں شامل ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں
حضرو میں پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کا نعرہ بے اثر: کالجوں میں طلبہ کی تعداد میں غیرمعمولی کمی
حضرو کی عدالتیں بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈسٹرکٹ بار یعنی اٹک اور حضرو کے وکلاء بتائے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے اس تحصیل کے لوگ عدالتوں میں جانے کے لیے ویگنوں اور چنگ چی پر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔
تاہم صدر اٹک ڈسٹرکٹ بار ملک فخر زاد کا کہنا ہے کہ وہ حضرو میں عدالتوں کے قیام کی مخالفت ہرگز نہیں کرتے مگر عدالتوں کا جو حسن ضلعی سطح پر ہوتا ہے وہ تحصیل کی سطح پر کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
اسی بار کے سابق صدر اور ممبر پنجاب بار کونسل ملک اسرار تحصیل حضرو کے رہائشی ہیں۔ لیکن وہ 'حضرو میں عدالتوں کے قیام کے بالکل بھی حق میں نہیں ہیں۔'
اس کی وجوہات بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ زیادہ عدالتوں سے ججوں اور وکیلوں کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کو معیاری انصاف نہیں مل پاتا۔
"تحصیل میں عدالت ہو گی تو دیوانی اور فوجداری کے دو جج بیٹھیں گے۔ وکلاء ایک آدھ مہینے میں ان کے مائنڈ سیٹ سے واقف ہو جاتے ہیں اور یہ انصاف کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ جبکہ ڈسٹرکٹ میں ججوں اور وکلاء دونوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور اس کا فائدہ سائل کو ہوتا ہے۔"
حضرو کے دور افتادہ گاؤں ڈھوک مونطہ کے رہائشی عبدالمالک 20 سال سے اپنے کیس کی پیروی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پیشی کے لیےگاؤں سے اٹک پہنچنا عذاب سے کم نہیں۔ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے میلوں پیدل چلنے کے بعد کئی گاڑیاں بدل کر عدالت پہنچتے ہیں۔
"ہم غریب لوگ ہیں اور دودھ بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ وکیل کی فیس تو ایک ہی بار دینی تھی جس کے لیے دو بکریاں فروخت کیں اور فیس دے دی۔ مگر کیس کی پیروی کے لیے ہر تیسری پیشی پر بکری بیچنی پڑتی ہے۔ اتنے پیسوں کی تو زمین نہیں جتنے خرچ کر چکا ہوں۔ اگر عدالت حضرو میں ہوتی تو ہمارا اتنا پیسہ اور وقت برباد نہ ہوتا۔"
تاریخ اشاعت 18 جنوری 2024