تربت میں عطا شاد لٹریری فیسٹیول عام ادبی میلوں سے کیسے مختلف تھا

postImg

اسد بلوچ

postImg

تربت میں عطا شاد لٹریری فیسٹیول عام ادبی میلوں سے کیسے مختلف تھا

اسد بلوچ

عطا شاد بلوچی اور اُردو زبان کے نامور شاعر ہیں۔ بلوچی زبان میں انہیں وہی مقام حاصل ہے جو اردو میں فیض احمد فیض کا ہے۔ 13 فروری کو ان کے یوم وفات پر ایک ادبی میلے (لٹریری فیسٹیول) کا اہتمام کیا گیا جو کئی اعتبار سے بلوچستان میں اپنی نوعیت کا انوکھا پروگرام تھا جسے صوبہ بھر کے علمی و ادبی منظرنامے پر خاص توجہ حاصل رہی۔

ضلع کیچ میں عطا شاد کے آبائی علاقے تربت میں ہونے والے اس تین روزہ میلے کا اہتمام بلوچستان اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ لٹریچر نے کیا تھا۔ یہ میلہ اس لیے بھی غیرمعمولی تھا کہ ضلع کیچ 2006 کے بعد سیاسی شورش کا ایک نمایاں مرکز رہا ہے۔ یہاں کتابوں کی دکانوں اور تعلیمی اداروں کے ہاسٹلوں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور ترقی پسند ادب کی کتابیں ضبط کی جاتی رہی ہیں۔ ایسے واقعات میں طلبہ اور کتب فروشوں کی بڑی تعداد کو گرفتار بھی کیا گیا جس کے بعد تربت میں کتابوں کی دکانیں ختم ہو گئی تھیں۔

اس میلے میں بلوچ علم و ادب کی نمایاں شخصیات شریک ہوئیں۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کے علاہ تمام اہم مقررین کا تعلق بلوچی ادب اور بلوچ سیاست سے تھا جن میں معروف اشتراکی دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری، چاچا اللہ بشک بزادر، ڈاکٹر واحد بخش بزدار، سعید تبسم مزاری اور اردو زبان کے شاعر وحید نور اور سانی سید نمایاں تھے۔
 

<p>معروف ماہر معیشت قیصر بنگالی اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ  اس ادبی میلہ میں شریک ہوئے<br></p>

معروف ماہر معیشت قیصر بنگالی اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ  اس ادبی میلہ میں شریک ہوئے

اس موقع پر عطا شاد کی شخصیت اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر کئی سیشن رکھے گئے تھے جن میں معروف ادیبوں نے خیال آرائی کی۔ اس کے ساتھ بلوچی زبان و سیاست، بلوچستان کی سماجی و معاشی اہمیت، سماجی ترقی میں عورت کا کردار، بلوچی ادب میں ترجمے کی اہمیت اور بلوچ ماخذ جیسے موضوعات پر گروہی مباحث (پینل ڈسکشنز) ہوئے۔

ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میلے کے اختتام پر ایک درجن کے قریب قراردادیں پیش کی گئیں جو موقع پر موجود بلوچ ادبا اور دانشوروں نے مشترکہ طور پر تیار کی تھیں۔ یہ ادبی میلوں میں ایک نئی روایت ہے۔ تین روز تک ہر سیشن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شریک ہوئے، جن میں نوجوان خواتین کی شرکت متاثر کن تھی۔

ستر سے زیادہ کتابوں کے مصںف ڈاکٹر شاہ محمد مری کا کہنا تھا کہ ''انسانی اجتماع، یکجائی اور آپس میں مختلف موضوعات پر بات چیت چند لمحوں کے لیے بھی بہت اہم ہوتی ہے اور یہاں تین روز تک یہ سب کچھ ہوا۔ یہ میلہ بلوچی ادب کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں آئے، مقررین کو سنا، سوال کیے، آپس میں خیالات، فکر اور لہجوں کا تبادلہ ہوا جس سے بلوچی ادب کو ترقی ملے گی۔''

اس میلے میں 35 لاکھ روپے مالیت کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان کتابوں کے موضوعات دیگر شہروں میں ہونے والے ادبی میلوں میں بڑی تعداد میں فروخت ہونے والی کتابوں کے عام موضوعات سے یکسر مختلف تھے۔

کراچی سے آئے ناشر جاوید حسن نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ملک بھر میں عام قاری اسٹال یا دکان پر آکر اپنی پسند کی کتابیں ٹٹول کر لیتا ہے مگر تربت کے قاری کو پہلے سے معلوم ہے کہ اسے کیا اور کسے پڑھنا ہے، وہ کتابیں ٹٹول کر وقت نہیں ضائع کرتا بلکہ اپنا انتخاب بتا کر کتاب مانگتا ہے اور یہ ایک گہرا فرق ہے۔ انہوں نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ تین روز میں کسی قاری نے رجعتی موضوع پر کسی کتاب کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ ادب، سماج، تاریخ یا مذاہب کے درمیان تقابلی جائزے جیسے موضوعات پر کتابیں خریدی گئیں۔''

عطاشاد ادبی میلے میں بائیس ناشروں نے کتابوں کے سٹال لگائے تھے جن کا تعلق لاہور، کراچی، لاہور اورکوئٹہ جیسے بڑے شہروں کے علاوہ گوادر، پشکان اور کیچ سمیت بلوچستان کی بہت سی جگہوں سے بھی تھا۔

<p>اس تین روز ادبی میلہ میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی <br></p>

اس تین روز ادبی میلہ میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی

میلے کی میزبان بلوچستان اکیڈمی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر غفور شاد نے بتایا کہ اس پروگرام کے لیے مالی مدد کا حصول ایک مشکل کام تھا لیکن جب انہوں نے اس کے انعقاد کی تیاریاں شروع کیں تو بہت سے ہم خیال لوگ ان کے ساتھ شامل ہوتے گئے اور مالی مدد سمیت ہر طرح کا تعاون بھی میسر آنے لگا اور وہ ناقابل یقین طور پر ایک کامیاب ادبی میلے کے انعقاد میں کامیاب رہے جس کی بلوچستان میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آرٹ اور ادب کے راستے شناخت کا سفر

میلے کا اختتام 15 فروری کی رات محفل مشاعرہ پر ہوا۔ اس سے قبل دو راتوں کو بلوچی کلاسیکل اور عام موسیقی کی نشستیں ہوئیں جن میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آخری شب مشاعرے میں کم و بیش دو ہزار افراد موجود تھے۔
تربت یونیورسٹی کی طالبہ شاری بلوچ اس میلے میں خواتین کی بڑی تعداد کے آنے کو سماج میں انقلابی تبدیلی کا مظہر سمجھتی ہیں۔ کوہِ سلیمان کے علاقے سے آئے بلوچی زبان کے شاعر سعید تبسم مزاری کا کہنا ہے کہ عطا شاد ادبی میلے جیسی سرگرمیاں بلوچستان میں سماجی، سیاسی اور لسانی فاصلوں کو مٹائیں گی۔

تاریخ اشاعت 19 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسد بلوچ کا تعلق تربت ضلع کیچ سے ہے۔ بلوچستان خصوصاً مکران کے سیاسی حالات اور موجودہ بلوچ شورش پر لوکل اخبارات اور ملکی سطح کے مختلف ویب سائٹس پر تبصرے اور تجزیہ لکھتے ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.