پنجاب کے بیشتر دیہات میں کسانوں کے دِن کا آغاز تقریباً ایک سا ہوتا ہے۔ جس طرح علی الصبح پرندے اپنے گھونسلوں سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اسی طرح وہ بھی اپنے مویشیوں کے چارے کے بندوبست کرنے کے لیے ہاتھوں میں درانتی یا کوئی دوسرا اوزار لیے کھیتوں کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ اور پھر ان کا سارا دِن اپنی فصلوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں گزر جاتا ہے۔
آج کل ان دیہات میں اکثر کسانوں کے ہاتھ میں ایک سبز اور سفید رنگ کی پرچی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ٹوکن، کوپن یا واؤچر ہے جسے ایک خاص طریقے سے استعمال کر کے وہ کھاد کی خریداری پر حکومت کی طرف سے ملنے والی مالی امداد وصول کر سکتے ہیں۔
ساہیوال کے قصبے ہڑپہ کے قریبی گاؤں 184 نائن ایل میں محمد سعید نامی ایک پڑھے لکھے نوجوان کسان کا کہنا ہے کہ کھاد کی بوریوں میں ملنے والے ٹوکن آج کل اسی طرح کسانوں کی روزمرہ گفتگو کا حصہ بن گئے ہیں جس طرح فصلوں اور مویشیوں کا ذکر ان کی باتوں میں شامل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ہر کسان ایک دوسرے سے یہی پوچھتا پھر رہا ہے کہ وہ ان ٹوکنوں کو کس طرح استعمال کرے تا کہ اس کو امداد کی رقم مل سکے۔
اس امداد کا اعلان پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد کیا تھا اور اس کا مقصد فصلیں اگانے کے لئے درکار اشیا، جیسا کہ کھاد اور بیج وغیرہ، کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے کسانوں کی آمدن پر ہونے والے منفی اثرات کو کم کرنا تھا۔
اس اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکومت نے 2019 میں مختلف قسم کی کھادوں پر کسانوں کو امداد دینا شروع کی۔
رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ کسان
پنجاب حکومت کے مطابق صوبے بھر کے کسانوں کو اس مد میں ہر سال چار ارب روپے دیے جاتے ہیں جس کی تقسیم کے لئے کھاد کی ہر بوری کے اندر ایک ٹوکن سِیا جاتا ہے۔ اس ٹوکن پر موجود خفیہ نمبر کسان کھرچ کر معلوم کرتے ہیں اور موبائل فون کے ذریعے اسے اپنے اپنے صوبے میں موجود ہیلپ لائن پر بھیج دیتے ہیں جس کے تین ماہ کے اندر اندر انہیں فون پر ایک پیغام ملتا ہے جسے ایزی پیسہ یا جاز کیش والی دکان پر دکھا کر وہ پیسے وصول کر سکتے ہیں۔
لیکن امداد وصول کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ کسان صوبائی محکمہ زراعت میں رجسٹرڈ ہوں۔
محمد سعید کا کہنا ہے کہ 'جب میں کسانوں کو بتاتا ہوں کہ مالی امداد صرف جسٹرڈ کسانوں کو ملے گی تو وہ پوچھتے ہیں کہ یہ رجسٹرڈ کسان کیا ہوتا ہے'۔
اس پر محمد سعید انہیں بتاتے ہیں کہ رجسٹرڈ کسان بننے کے لیے یا تو ان کے پاس اپنی زیرِ کاشت زمین کی ملکیت کا ثبوت، یعنی نقل فرد، ہونی چاہیئے یا ان کے پاس ایک ایسی دستاویز، یعنی گرداوری، ہونی چاہیئے جس سے ثابت ہو کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیتی زمین کاشت کر رہے ہیں۔
یہ دونوں کاغذات اور اپنے شناختی کارڈ کی دو نقول انہیں گاؤں کے نمبردار سے تصدیق کروانا ہوتی ہیں اور پھر انہیں محکمہ زراعت کے نزدیکی دفتر میں جمع کرانا ہوتا ہے جس کے بعد ان کے پاس محکمہ زراعت کا ایک ایسا افسر تحقیق کے لیے آتا ہے جسے کسانوں کی طرف سے پیش کردہ کاغذات کو قبول یا مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر وہ کاغذات قبول کر لیتا ہے تو رجسٹریشن کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔
محمد سعید کہتے ہیں کہ یہ بات سنتے ہوئے کئی کسان تو ان کا منہ ہی تکتے رہتے ہیں۔ 'جنہیں تھوڑی بہت سمجھ آتی ہے وہ گم سم سے ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان میں سے اکثر کے پاس فرد یا گرداوری نہیں ہوتے۔ ان کا عمومی ردِ عمل یہ ہوتا ہے کہ 'اس کا مطلب تو یہ ہے کہ حکومت ہمیں یہ پیسے دینا ہی نہیں چاہتی'۔
حقیقیت یہ ہے کہ اس لمبے اور پیچیدہ طریقہ کار کی وجہ سے محض چند کسان ہی اس کے تمام مراحل سے گذرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ محمد سعید کے گاؤں میں رجسٹرڈ کسانوں کی تعداد صرف چار یا پانچ ہے حالانکہ وہاں چار سو 77 خاندان آباد ہیں جن میں سے بیشتر کسان ہیں۔
لیکن رجسٹرڈ کسان بھی محکمہ زراعت کی تحقیقات اور افسر شاہی کے دوسرے تاخیری حربوں کے شاکی ہیں۔ محمد سعید کے گاؤں میں رہنے والے کسان احسان جمیل کہتے ہیں کہ ایک بار رجسڑڈ ہونے کے باوجود وہ اب امدادی رقم وصول نہیں کر سکتے۔
ان کے پاس اپنی زمین نہیں لیکن وہ بارہ ایکڑ رقبہ ٹھیکے پر لے کر کاشت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مالی امداد کے نظام کا آغاز ہونے کے فوراً بعد رجسٹریشن نسبتاً آسان تھی کیونکہ اس وقت 'اگر گاؤں کا نمبردار کسی کسان کے زیرِ کاشت رقبے کی تصدیق کردیتا تھا تو وہ کسان رجسٹر ہو جاتا تھا'
اس طریقہِ کار کے تحت رجسٹرڈ ہونے کے بعد احسان جمیل نے 2019 میں 45 سو روپے وصول بھی کیے لیکن اس بار جب انہوں نے کھاد کی بوریوں سے نکلنے والے ٹوکن ہیلپ لائن پر بھیجے تو انہیں محمکہِ زراعت کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پہلے پٹواری سے زمین کی فرد اور گرداوری لے کر آئیں۔
لیکن زمین کا مالک انہیں فرد یا گرداوری دینے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ کہیں ان کاغذات کا غلط استعمال کر کے اس کی زمین ہی اس سے نہ لے لی جائے۔ 'اس لیے میں نے محکمہ زراعت سے کہہ دیا کہ ہمیں یہ پیسے نہیں چاہئیں'۔
ضلع چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ کے رہائشی محمد طفیل لونا اور جھنگ کے علاقے موضع بلھڑ بلوچاں کے کاشت کار محمد شہباز بھی رجسٹرڈ کسان تو ہیں لیکن انھوں نے آج تک سبسڈی کی مد میں ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا حالانکہ ان میں سے ہر ایک کو سال بھر میں کم ازم کم 20 ہزار روپے ملنے چاہئیں۔
محمد طفیل لونا تو مالی امداد کے بارے میں سوال کرنے پر ہی بھڑک اٹھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے وصول کرنے میں 'خواری زیادہ ہے اور ملتا کچھ نہیں'۔
ان کے مطابق ایک چھوٹا کسان جو ڈی اے پی کی تین بوریاں اپنی کھیتی میں ڈالتا ہے وہ 15 سو روپے کی وصولی کے لئے سرکاری دفتروں کے چکر نہیں لگا سکتا۔ 'وہ ایک یا دو بار ہیلپ لائن پر پیغام بھیجے گا اور پھر تھک ہار کر چپ ہو جائے گا'۔
انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ کئی دفعہ بوری سے نکلنے والا ٹوکن اتنا خستہ حال ہوتا ہے کہ اسے کھرچنے کے دوران ہی اس پر لکھا ہوا خفیہ نمبر مٹ جاتا ہے۔ ان کے مطابق 'کئی بار تو بوری سے یہ ٹوکن نکلتا بھی نہیں ہے'-
محمد سعید بھی ان سے متفق ہیں۔
جب کچھ دن پہلے آلو کی فصل کے لیے انہوں نے ڈی اے پی کھاد کی 15 بوریاں خریدیں تو ان میں سے ایک بوری کے اندر ٹوکن موجود ہی نہیں تھا۔ تاہم ان کے لئے ٹوکن کی عدم موجودگی ثابت کرنا نا ممکن تھا کیونکہ ایک دفعہ جب انہوں نے بوری کو کھول لیا تو محکمہِ زراعت، کھاد بیچنے والا ڈیلر اور کھاد بنانے والی کمپنی سبھی بری الذمہ ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب 'محکمہ زراعت سے اس کے بارے میں شکایت کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا'۔
ٹوکن سسٹم کا فائدہ کس کو ہے؟
جب پنجاب حکومت نے ٹوکن سسٹم کے تحت مالی امداد دینے کے سلسلے کا آغاز کیا تو نعمان لنگڑیال صوبے کے وزیرِ زراعت تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو ابتدا میں کسانوں کی طرف سے کوپن کو کھرچنے اور ہیلپ لائن پر پیغام بھیجنے کے حوالے سے شکایات ضرور آئیں لیکن جلد ہی یہ مسائل حل کر لئے گئے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹوکن سسٹم کا آغاز 2016 میں عالمی بنک اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کی بنیاد پر کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت کسانوں کو شکایت تھی کہ امداد کی رقم ان تک پہنچنے کے بجائے کھاد بیچنے والے ڈیلروں تک ہی رہ جاتی ہے۔
وہ وضاحت سے بتاتے ہیں کہ پرانے سسٹم سے کس طرح کسانوں سے زیادہ ڈیلر فائدہ اٹھا رہے تھے۔ 'مثال کے طور پر اگر ایک ڈیلر حکومت کو یہ دکھا دیتا تھا کہ اس نے سو بوری کھاد فروخت کر دی ہے تو اسے مالی امداد کی مد میں 50 ہزار روپے مل جاتے تھے۔ تاہم حکومت کے پاس یہ تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ ہی نہِیں تھا کہ آیا اس ڈیلر نے تمام کھاد فروخت بھی کی ہے یا اسے بیچے بغیر ہی پیسے وصول کر لئے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے لئے یہ تصدیق کرنا بھی نا ممکن ہوتا تھا کہ آیا کسان کو کھاد رعایتی قیمت پر ملی ہے یا نہیں'۔
تاہم پاکستان کسان اتحاد کے سیکرٹری جنرل میاں محمد عمیر مسعود اس وضاحت سے مطمئن نہِیں۔ ان کے مطابق حکومتی عہدیدار ناکارہ ٹوکن سسٹم کے دفاع میں زبردستی کی تاویلیں اور جواز پیش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے جب حکومت کھاد پر مالی امداد دینے کے حوالے سے غور کر رہی تھی تو پاکستان کسان اتحاد نے ایک ایسا طریقہ تجویز کیا تھا جس کو اپنا لیا جاتا تو 'آج نا تو کسان خوار ہوتا اور نا ہی حکومت کے ماتھے پر کسانوں کے اربوں روپے کھانے کا الزام لگتا'-
اس تجویز میں کہا گیا تھا کہ کسانوں کو رقم دینے کے بجائے انہیں کھاد کی ہر بوری پر لگنے والے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔ لیکن یہ تجویز رد ہوگئی۔تاہم محمد عمیر مسعود کا کہنا ہے کہ چونکہ ٹوکن کے ذریعے مالی امداد دینے کو تجویز کھاد بنانے والی کمپنیوں کی طرف سے آئی تھی اس لئے 'شاید حکومت ان کمپنیوں کے دباؤ میں آگئی'۔
نوٹ: کسانوں کو کھاد پر دی جانے والی سرکاری مالی امداد کے حصول میں درپیش مسائل پر سجاگ کے تحقیقی سلسلے کی یہ پہلی رپورٹ ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 2 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 11 فروری 2022