پنجاب اسمبلی نے 11 نومبر 2024ء کو زرعی انکم ٹیکس کا بل منظور کیا ہے جو پنجاب ایگریکلچر انکم ٹیکس ایکٹ 1997ء میں ترمیم ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) کا دباؤ ہے کہ صوبے یکم جنوری 2025ء سے زرعی آمدن پر ٹیکس نئی شرائط کے مطابق لاگو کریں۔ پنجاب حکومت نے تو جیسے تیسے یہ بل اسمبلی سے پاس کرایا لیا لیکن باقی صوبے اتنی عجلت میں اسے کیسے ممکن بناتے ہیں یہ مرحلہ ابھی باقی ہے۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر نے جولائی میں کہا تھا کہ زرعی انکم ٹیکس کی شرائط کو پورا کیے بغیر پاکستان کے حالیہ پروگرام کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے رواں ماہ کے آغاز پر مجلس قائمہ برائے خزانہ و محصولات (فنانس اینڈ ریوینو) کے اجلاس میں بتایا تھا کہ تمام صوبے آئی ایم ایف کے طے کردہ اہداف مکمل کرنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں تاکہ زرعی آمدن کو وفاقی ٹیکس کے برابر لایا جاسکے۔
اس کے ساتھ کمیٹی نے زرعی ٹیکس کو تین گنا بڑھانے کے ممکنہ اثرات پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
زرعی محصولات کا پرانا اور نیا قانون
پنجاب اسمبلی سے منظور شدہ نئے قانون میں جہاں لائیو سٹاک(مال مویشی) سے حاصل ہونے والا آمدن کو زرعی آمدن میں شامل کیا گیا ہے وہیں ٹیکس کی شرح اور جرمانے میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ بڑے کاشت کاروں پر اضافی ٹیکس بھی عائد کیا جائے گا جسے'سپر ٹیکس' کہا گیا ہے۔
ترمیم سے پہلے، 1997ء کے قانون میں رقبے پر ٹیکس کی شرح نیچے دیئے گئے شیڈول کے مطابق تھی۔
نئی ترمیم میں زرعی ٹیکس کا تعین کرنے والے اس شیڈول کو قانون سے نکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ کوئی نیا شیڈول شامل نہیں کیا گیا۔
سابق ڈائریکٹر جنرل زراعت (توسیع ) پنجاب انجم علی بٹر کا کہنا ہے رقبے میں ساڑھے 12 ایکڑ کی کم از کم حد ایسے ہی برقرار رہے گی، اوپر والے رقبے پر ٹیکس کی شرح آئندہ آنے والے بجٹ میں طے کی جاسکتی ہیں۔
لیکن زرعی ماہر ڈاکٹر وقار احمد کا اصرار ہے کہ حکومت کو ترمیم میں یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ کتنے رقبے پر ٹیکس کی کیا شرح ہوگی۔
رقبے کے لحاظ سے تجویز کی جانے والی ٹیکس کی نئی ممکنہ شرح میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جو کچھ یوں ہوگا۔
زرعی آمدن پر ٹیکس
زرعی انکم کے حوالے سے پرانے قانون میں چار لاکھ روپے آمدن تک کی چھوٹ تھی۔ چار لاکھ سے آٹھ لاکھ آمدن پر کل ایک ہزار روپے وصول کیے جاتے تھے، آٹھ سے 12 لاکھ پر دو ہزار اور 12 سے 24 لاکھ کے درمیان آمدنی پر 12 لاکھ سے اوپر والی آمدن کاپانچ فیصد انکم ٹیکس لاگو ہوتا تھا۔
(مثال کے طور پر اگر ایک کسان کی آمدن 13 لاکھ ہے تو اسے اضافی ایک لاکھ پر پانچ فیصد یعنی پانچ ہزار ادا کرنا پڑتے تھے)
چوبیس لاکھ سے 48 لاکھ زرعی آمدنی پر 60 ہزار فکسڈ اور24 لاکھ سے اوپر والی آمدن پر 10 فیصد ٹیکس لاگو تھا۔
اسی طرح 48 لاکھ سے زائد زرعی آمدن والوں سے تین لاکھ روپے فکسڈ اور اوپر والی آمدن کا 15 فیصد بطور ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔
نئی ترمیم میں مندرجہ بالا آمدن پر ٹیکس کی حد کو بھی قانون سے نکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ پر صرف "as may be prescribed" (یعنی بعد میں تجویز کیا جائے گا) لکھ دیا گیا ہے۔
اب آمدن پر ٹیکس کتنا ہو گا؟
پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ اس ترمیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی تاکہ زرعی آمدن پر ٹیکس کو وفاقی ریٹ کے مطابق بنایا جا سکے۔
قبل ازیں 12 جولائی کو سٹاف لیول معاہدے کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بھی واضح کیا گیا تھا کہ صوبے زرعی انکم ٹیکس کے نظام کو وفاقی سطح پر انفرادی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کے نظام سے ہم آہنگ کریں گے۔
وزیر اعلی کو تجویز کیا گیا ٹیکس بھی اسی امر کی کڑی ہے جس میں زرعی آمدن پر تجویز کیا گیا ٹیکس، ایف بی آر کے کاروبای افراد(نان سیلری) پر لگنے والے وفاقی ٹیکس کے برابر ہے۔
وفاقی انکم ٹیکس کے موجودہ نظام میں چھ لاکھ سالانہ آمدن، ٹیکس سے مستثنیٰ ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ زرعی انکم ٹیکس میں بھی صرف وہی کسان مستثنی ہوں گے جن کی آمدن چھ لاکھ سے کم ہے۔
یہ نوٹ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ جون میں پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں کاروباری افراد پر ٹیکس کی شرح 35 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کردی گئی تھی۔
انکم ٹیکس آرڈینیس 2001 )صفحہ 476) کے تحت وفاقی ٹیکس کی شرح کچھ یوں ہے۔
مال مویشیوں یا لائیو سٹاک کی آمدنی پر ٹیکس
زرعی ٹیکس کے ترمیمی قانون کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اب مال مویشی(لائیو سٹاک) صوبائی زرعی انکم ٹیکس کے دائرہ کار میں آ گئے ہیں۔
بل میں شامل نئی شق کے تحت مویشیوں سے ہونے والی آمدن کو زرعی انکم تصور کیا جائے گا۔ یعنی زرعی رقبے اور مویشیوں سے ہونے والی آمدن کو ملا کر کسان کی مجموعی انکم شمار ہوگی اور اسی کے موافق ٹیکس لاگو ہوگا۔
اس میں انفرادی کسان، مویشی پال، بڑے پیمانے پر اس کاروبار سے وابستہ افراد اور کمپنیاں بھی شامل ہوں گی۔
ملک میں زرعی انکم ٹیکس کی تاریخ میں یہ اہم تبدیلی ہے کیونکہ ماضی میں لائیو سٹاک کی آمدن کو زرعی انکم کا حصہ تصور نہیں کیا جاتا تھا۔
لائیو سٹاک سے وابستہ کارپوریٹ سیکٹر یا کمپنی پر تو انکم ٹیکس لگانا درست معلوم ہوتا ہے لیکن پنجاب میں 54 فیصد کسانوں کا ملکیتی رقبہ پانچ ایکڑ یا اس سے کم ہے جن کے پاس مویشیوں کی تعداد بھی نسبتاً کم ہوتی ہے۔
ان چند مویشیوں سے گھریلو خواتین یا کسان اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرتے ہیں۔ اب جبکہ ان کی فصلوں کی آمدن کو مویشیوں کے ساتھ ملا کر زرعی انکم شمار کیا جائے گا تو عین ممکن ہے کہ جو کسان پہلے ٹیکس سے مستثنیٰ تھے اب ٹیکس نیٹ میں آجائیں۔
ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ مویشی، چھوٹے کسان کے لیے زرعی مداخل کی روز بروز بڑھتی لاگت کے خلاف معاشی سہارا ہوتے ہیں ان پر ٹیکس کے نفاذ سے اب ان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
زرعی آمدن پر سپر ٹیکس
نئے بل میں زیادہ آمدن لینے والے کاشت کاروں پر 'سپر ٹیکس' بھی لگایا گیا ہے جس کا تعین ٹیکس آرڈینینس 2001ء میں کردیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت 15 کروڑ روپے تک زرعی آمدنی سپر ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگی۔ پندرہ سے 20 کروڑ آمدنی پر ایک فیصد، 20 سے 25 کروڑ آمدنی پر دو فیصد، 25 سے 30 کروڑ پر تین فیصد، 30 سے 35 کروڑ پر چار فیصد، 35 سے 40 کروڑ پر چھ فیصد، 40 سے 50 کروڑ پر آٹھ فیصد اور 50 کروڑ سے زائد زرعی انکم پر 10 فیصد سپر ٹیکس نافذ ہے۔
دوسرے الفاظ میں حالیہ ترمیم میں زرعی شعبے سے وابستہ بڑے کاروبار خصوصاً لائیو سٹاک ہولڈرز، بڑے ایگری فارمز اونرز یا اداروں پر اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
ٹیکس ریٹرن بروقت جمع نہ کرانے پر جرمانے
ترمیمی ایکٹ کے بعد بروقت ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے پر یومیہ 0.1 فیصد یعنی ایک لاکھ روپے ٹیکس پر روزانہ 100 روپے جرمانہ ہو گا۔ یا پھر 12 لاکھ سے کم آمدن والوں کو کم از کم 10 ہزار روپے دینا ہوں گے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک ہزار کا اضافہ ہوتا جائے گا۔
دوسری کیٹیگری 12 سے 40 لاکھ کے درمیان آمدن والوں کو کم از کم 20 ہزار اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یومیہ ایک ہزار، 40 سے اوپر آمدن والوں کو کم از کم 50 ہزار جس میں یومیہ ایک ہزار کا اضافہ ہوتا جائے گا۔
ڈیفالٹ کی صورت میں، کسان پر، ایک سال کی عدم ادائیگی پر 10 فیصد جرمانہ ہوگا۔یعنی اگر کسی کا ایک سال کا واجب الادا ٹیکس ایک لاکھ ہے تو اسے 10 ہزار روپے جرمانہ بھی دینا ہوگا اور دو لاکھ واجب الادا ٹیکس پر 20 ہزار۔
نئی ترمیم کے ذریعے زرعی آمدن کی اسیسمنٹ کی مدت دو سال سے بڑھا کر چار سال کردی گئی ہے، یعنی اب ذمہ داران (کلکٹر) کے پاس کسان کی خرچ اور آمدن کو چانچنے کے لیے چار سال کا عرصہ ہوگا۔
اسد رضا موہل، گوجرانوالہ میں بطور تحصیلدار فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زرعی ٹیکس اکٹھا کرنے میں پہلے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
"ہمیں ایک ایک ہزار روپے آبیانے کے لیے بھی دو، دو مہینے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ پٹواری جب ٹیکس کے لیے کسانوں کے پاس جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فی الحال پیسے نہیں ہیں بعد میں ادا کر دیں گے۔"
اسد رضا کے بقول انکم ٹیکس اکٹھا کرنا زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ جن کسانوں پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے وہ کئی بار یہ ریٹرن فائل ہی نہیں کرتے۔ محکمے کو ان کی اسیسمنٹ ( پیداوار کی جانچ ) دوبارہ کرنا پڑتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا رائج طریقہ کار یہ ہے کہ کسان خود ایک فارم کے ذریعے آمدن ظاہر کرتا ہے جس کی محکمہ مال جانچ کرتا ہے اور اگر کسان فارم جمع نہیں کراتا تو محکمہ خود اس کی زمین اور آمدن کی جانچ کرکے اسے نوٹس بھیجتا ہے۔
"کچھ کاشت کار تو اسیسمنٹ کے بعد بھی انکم ٹیکس کی رقم ادا نہیں کرتے جس پر انہیں گرفتاری کی دھمکی دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ رقم جمع نہ کرائیں تو ہم وارنٹ گرفتاری بنا دیتے ہیں لیکن اس کی نوبت کم ہی آتی ہے۔"
کیا کسان نیا ٹیکس دے پائے گا
اسد موہل کہتے ہیں کہ اس کی وصولی میں زیادہ مشکل ہوگی۔ پچھلے سال جب اہلکار ٹیکس لینے جاتے تھے تو کسان کہتا تھا کہ گندم پڑی ہوئی ہے یہ لے جاؤ، اسی میں سے ٹیکس کاٹ لو۔
اسد رضا کہتے ہیں کہ یہ اس وجہ سے تھا کہ حکومت نے کسانوں کی گندم خریدنے سے انکار کر دیا تھا اور کسانوں کو بہت نقصان ہوا۔ جب گندم نہیں بکی تو ٹیکس کیسے دیتے، زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔
ان کے مطابق اسیسمنٹ کا دورانیہ دو سے چار سال کرنے سے بقایاجات اکٹھے کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے مگر اس سے کسان پر دباؤ بڑھے گا۔
ڈاکٹر وقار احمد زرعی شعبے پر وسیع تحقیق کا تجربہ رکھتے ہیں اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پڑھاتے رہے ہیں۔ان کے مطابق زرعی آمدن جانچنے والے عملے کی خصوصی تربیت ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں
"چھوٹے کاشت کاروں کے لیے زراعت مہنگی ہو گئی ہے، میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتی مگر حالات اس طرف لے جا رہے ہیں"
"محض انکم ٹیکس پڑھ کر آنے والے افسر شاید زمینی حقائق نہیں سمجھ پائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تواس عمل سے بد امنی، کورٹ کیسز اور جرمانے بڑھتے جائیں گے۔"
فصلوں کی امدادی قیمت اور تمام زرعی سبسڈیز ختم
آئی ایم ایف نے پاکستان میں صرف ٹیکس بڑھانے کی شرط نہیں رکھی بلکہ فصلوں کی امدادی قیمت کا تعین اور زرعی شعبے کو دیے جانے والی تمام سبسڈیز ختم کرنے کی شرائط بھی عائد کی ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت ملکی برآمدات بڑھانے، غذائی ضروریات پوری کرنے یا کسانوں کو معاشی تحفظ دینے کے لیے کچھ فصلوں کی امدادی قیمت کا تعین کیا کرتی تھی اور کبھی کبھی بعض مراعات بھی دیتی تھی۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد یہ سلسلہ ختم کیا جارہا ہے۔
زرعی انکم پر ٹیکس کتنا حقیقی کتنا تصوراتی
ملک میں زرعی انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے کے حامی ماہرین کا موقف ہے کہ زرعی آمدن تاریخی طور پر ٹیکس نیٹ سے یا تو باہر رہی ہے یا پھر اس کا حصہ بہت ہی کم ہے۔ نیا حکومتی اقدام ملکی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہوگا۔
سٹیٹ بنک آف پاکستان کی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق زرعی شعبہ جی ڈی پی میں 19.2 فیصد حصہ ڈالتا ہے جبکہ ملک کی کل افرادی قوت کا تقریباً 42 فیصد اس شعبے سے وابستہ ہے لیکن ٹیکس میں اس کا حصہ صرف 0.6 فیصد ہے۔
لیکن ڈاکٹر اکرام کے مطابق ٹیکس کا نظام ہم آہنگ کرنے سے ریونیو جمع کرنے میں آسانی تو ہو گی مگر آئی ایم ایف پاکستان کے زرعی شعبے کے زمینی حقائق اور آئینی ڈھانچے کو بالکل نہیں سمجھتا۔
"خطے میں ایسا ماڈل کسی ملک نے نہیں اپنایا، اگر کوئی اور ماڈل لینا ہے تو اس کے تناظر کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ کسانوں کو یورپ اور امریکا کی طرح ٹارگٹڈ سبسڈیز دیں اور پھر ٹیکس لیں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ وہاں کی ٹیکس پالیسی کو اٹھا لیں اور باقی تمام چیزوں کو نظر انداز کر دیں۔"
نئے زرعی ٹیکس قانون سے توقعات پوری ہوں گی؟
ڈاکٹر وقار احمد سمجھتے ہیں کہ نئے ٹیکس قانون سے ریونیو اکٹھا کرنے کی حکومتی توقعات پوری نہیں ہو سکتیں۔
"ملک میں نہ ہی زرعی آمدن کو چانچنے کا کوئی ڈھانچہ موجود اور نہ ہی کسانوں کو ریٹرن فائل کرنے کے طریقہ کار سے آگاہی ہے۔اس صورتحال میں ٹیکس اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔"
ان کے خیال میں ایگریکلچر ٹیکس ضرور لگنا چاہیے لیکن پہلے طریقہ کار طے ہونا چاہیے جس کے لیے ایک الگ ادارہ بنانا ہو گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ بیورو کریٹ کہیں کہ "ہمیں اتنا ٹیکس چاہیے" اور وہ مل جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت زرعی شعبے کو مرحلہ وار ٹیکس کے دھارے میں لائے۔ پہلے کچھ سال یہ ٹیکس 15 یا 25 فیصد ہونا چاہیے تاکہ زرعی شعبہ بھی ڈاکومنٹیڈ اکانومی میں آجائے۔ پھر آگے کی طرف جائیں۔
کسان کو انکم ٹیکس کے بدلے کیا ملے گا؟
احمد ضیاء ضلع سرگودھا میں 15 ایکڑ رقبے کے مالک ہیں جو کینو کے باغ کے ساتھ گندم اور چاول بھی کاشت کرتے ہیں۔وہ بتاتے کہ فصل میں کاشت کار کو نقصان ہوجائے تو وہ مویشی بیچ کر اگلی فصل کاشت کر لیتا ہے۔ حیرت ہے اب ان پر بھی ٹیکس ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ زرعی مداخل کھاد اور بیج مہنگے ہو گئے ہیں۔ ڈیزل کی قیمتیں پہلے سے بہت بڑھ چکی تھیں اب حکومت نے فصلوں کی کم از کم قیمت مقرر کرنا اور انہیں خریدنا بھی بند کر دیا ہے، ایسے حالات میں ٹیکس کسانوں کی مالی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
حکومت کو شاید زیادہ نہ ملے لیکن زرعی انکم ٹیکس زمین مالک اور ٹھیکے دار دونوں سے وصول کیا جائے گا۔
"یہ ریونیو بھی پٹواری کے ذریعے اکٹھا ہوگا اور ہم ٹیکس بچانے کے لیے راستے ڈھونڈیں گے نتیجتاً کرپشن مزید بڑھے گی۔"
ڈاکٹر وقار کہتے ہیں کہ حکومت ٹیکس تو لے رہی ہے مگر انہیں بنیادی سپورٹ پرائس یا نقصان کی صورت میں فصل کی انشورنس کا کوئی فعال نظام ہی فراہم کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
*اس سٹوری کی تیاری میں آصف ریاض نے بھی مدد فراہم کی ہے
تاریخ اشاعت 21 دسمبر 2024