مظہر حسین لغاری نے جیسے ہی اپنی بیمار بکری کے ممیانے کی آواز سنی تو وہ ایک دم ایک ہاتھ میں چُھری اور دوسرے ہاتھ میں پانی کا پیالہ لئے اس کی جانب دوڑے۔
بکری کے پاس پہنچتے ہی انہوں نے اس کی پیٹھ کو نرمی سے تھپتھپایا جس کے جواب میں بکری نے اپنی گردن کو ہلکی سے جنبش دے کر اپنے مالک کو یہ باور کروایا کہ فی الحال اُسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے چُھری ایک طرف رکھی اور پانی کا پیالہ بکری کے منہ کو لگا دیا۔
آبادی کے لحاظ سے صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد سے 160 کلومیٹر شمال میں واقع ضلع دادُو کی تحصیل جوہی کے گاؤں فیض محمد لغاری سے تعلق رکھنے والے مظہر حسین لغاری کے پاس اب دو گائیں اور تین بکریاں باقی رہ گئی ہیں جن میں سے دو بکریاں شدید بیمار ہونے کے باعث کسی بھی وقت ہلاک ہو سکتی ہیں۔ اس سے قبل سیلاب کی وجہ سے پھوٹنے والی بیماریوں کی وجہ سے ان کی دو گائیں اور سات بکریاں مر چکی ہیں۔
لگ بھگ سو خاندانوں پر مشتمل اس گاؤں میں شاید ہی کوئی ایسا گھرانہ ہو گا جس کی گائے، بکری یا کوئی اور پالتو جانور سیلاب میں ڈوب کر یا اس کے بعد پھوٹنے والی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک نہ ہوا ہو۔
مظہر کے پڑوسی غلام تقی کا خاندان برسوں سے بھیڑ بکریاں پال کر گزر بسر کرتا ہے۔ ان کی ایک گائے اور 25 بکریاں سیلاب کی نذر ہو گئیں۔ ان کے گھر میں اس وقت صرف دو بکریاں ہی باقی بچی ہیں۔ اسی طرح تقی کے ماموں زاد بھائی مشتاق احمد لغاری کی 10 بکریاں سیلاب میں بہہ گئیں۔
مشتاق بتاتے ہیں کہ سیلاب کے دوران مویشیوں کی بڑی تعداد گرنے والے مکانات کے ملبے تلے دب کر اور سیلابی پانی میں بہہ کر ہلاک ہوئی ’’اور جو جانور بچ رہے وہ سیلاب کے بعد پھوٹنے والی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘ ان کی جو دو بکریاں سیلاب میں بہہ جانے سے بچ گئیں ان کے گلے سوج گئے ہیں۔ چند روز پہلے انہوں نے مویشیوں کے ایک ڈاکٹر سے ان کا معائنہ بھی کرایا جس نے انہیں بتایا کہ سیلابی پانی پینے اور آلودہ ماحول میں اگنے والی گھاس کھانے کے نتیجے میں نہ صرف ان کے گلے میں انفیکشن ہو گیا ہے بلکہ ان کے جگر بھی ناکارہ ہونے لگے ہیں۔
اس سال اگست میں مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب میں یہ گاؤں پوری طرح پانی میں ڈوب گیا تھا۔ پانی اترنے کے بعد اب یہاں کے لوگ اپنے گھروں کے ملبے پر خیمے لگا کر دن گزار رہے ہیں جبکہ ان کے باقی ماندہ مویشی دن رات کھلے آسمان تلے بندھے رہتے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ ان کے گاؤں میں لگ بھگ پانچ سو بکریاں اور 20 گائیں ہلاک ہو چکی ہیں۔
مشتاق بتاتے ہیں کہ سیلاب میں لوگوں کے کھیتوں میں پڑا گندم کا بھوسہ بھی بہہ گیا یا خراب ہو چکا ہے جس کی وجہ سے جانوروں کے لئے خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ سیلاب سے پہلے جو بھوسہ تین سو روپے فی من ملتا تھا وہ اب پندرہ سو روپے میں بھی نہیں مل رہا۔ ان لوگوں کی معیشت سیلاب میں تباہ ہو چکی ہے جس کے باعث وہ اپنے جانوروں کے لئے اس قدر مہنگی خوراک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔
سیلاب سے قبل خیرپور میرس سے نوشہرو فیروز کے درمیان نیشنل ہائی وے کے کنارے مورو تک کبھی بڑی تعداد میں بھوسے کی بڑی بڑی ڈھیریاں دکھائی دیتی تھیں جن میں بہت سے سیلابی ریلے میں بہہ چکی ہیں اور جو باقی بچی ہیں ان میں نمی کے باعث بدبو پھیل گئی ہے۔
سیلاب میں مویشیوں کا نقصان گوٹھ فیض محمد لغاری تک ہی محدود نہیں بلکہ اس علاقے کے تمام دیہات میں یہی صورتِ حال ہے۔ اس گاؤں سے ایک کلومیٹر شمال کی جانب گوٹھ علی نواز کے 50 خاندانوں کی تقریباً 30 بکریاں سیلاب میں ہلاک ہوئی ہیں۔ اسی طرح احمد خان لغاری اور گل حسن لغاری نامی گوٹھوں میں تقریباً سو گھرانوں کی ملکیت دو سو بکریاں اور دو درجن سے زیادہ گائیں ہلاک ہو چکی ہیں۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق اگست میں آنے والے سیلاب میں صوبے بھر میں مویشیوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ضلع دادُو میں ہوئی ہیں۔ اس ضلع میں اب تک 57 ہزار 569 مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ دادُو کے بعد بڑی تعداد میں مویشیوں کی ہلاکتیں اس سے متصل ضلع نوشہرو فیروز میں ہوئی ہیں جہاں 36 ہزار 586 مویشی ہلاک ہوئے۔
سندھ بھر میں سیلاب اور اس کے بعد پھوٹنے والی بیماریوں سے مرنے والے مویشیوں کی تعداد چار لاکھ 36 ہزار 435 ہے۔ ادارے کے مطابق سیلاب اور اس کے بعد بلوچستان میں پانچ لاکھ اور ملک بھر میں 11 لاکھ64 ہزار 274 مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق بلوچستان میں پانچ لاکھ اور ملک بھر میں 11 لاکھ 64 ہزار دو سو 74 مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم جوہی میں چھبیس سال سے ویٹرنری (مویشیوں کا) ہسپتال چلانے والے ڈاکٹر ساجد حسین لاشاری سندھ میں مویشیوں کی ہلاکت کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والے مویشیوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ’’گزشتہ چار ماہ میں صرف جوہی میں ہی کئی ہزار گائیں بھینسیں اور بکریاں ہلاک ہو چکی ہیں۔‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں مویشیوں کی اموات کا بڑا سبب آلودہ پانی ہے جس میں فنگس کے علاوہ کئی طرح کے نقصان دہ جراثیم پائے جاتے ہیں جس کے استعمال سے جانوروں کا جگر متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح، ان کا کہنا ہے، لوگ اپنے مویشیوں کو جو بھوسہ کھلا رہے ہیں وہ فنگس زدہ ہے اور سیلابی پانی اترنے کے بعد اگنے والی گھاس بھی جانوروں کی صحت کے لئے مضر ہے۔
ساجد خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر جانوروں میں تیزی سے پھیلتی بیماریوں پر قابو نہ پایا گیا تو اس حوالہ سے کوئی بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ایسی صورتِ حال سے بچنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر جانوروں کے لئے ویکسین کا بندوبست کرے کیونکہ سیلاب میں لوگوں کا روزگار کے ختم ہو جانے کی وجہ سے وہ جانوروں کا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
دوسری طرف مشتاق بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں دور دور تک نہ تو کوئی سرکاری ویٹرنری ہسپتال ہے اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر دستیاب ہے۔ ان کے گاؤں سے 12 کلومیٹر دور جوہی شہر میں جانوروں کا واحد ہسپتال بھی ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے باعث بند رہتا ہے۔ اس گاؤں میں بیشتر خاندان کسی نہ کسی زمین دار کے ہاری ہیں جہاں سے انہیں سال بھر محنت کے عوض تقریباً 25 من گندم، کچھ بھوسہ اور چند ہزار روپے ملتے ہیں۔ اگر ان کے پاس بچے کھچے جانور بھی نہ رہے تو وہ بھوک سے مر جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
خیرپور میں 90 فیصد رقبے پر کپاس کی فصل سیلاب میں بہہ گئی، کسان زندگی کی بحالی کے لیے پریشان
اقوام متحدہ میں امدادی امور کے رابطہ دفتر — یونائیٹڈ نیشنز آفس فار دی کوارڈی نیشن آف ہومینیٹیرین افیئرز — کی 28 اکتوبر کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب کے بعد مویشیوں کی اموات کو روکنے کے لئے ان کی ویکسی نیشن یا دیگر علاج معالجے کے معاملے میں سندھ دوسرے صوبوں سے بہت پیچھے ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فی الوقت صوبے میں صرف تین ہزار لوگ ہی سرکاری اداروں سے اپنے جانوروں کا علاج کروا سکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بلوچستان میں 92 ہزار افراد اپنے جانوروں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے سرکاری سہولیات سے مستفید ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں 81 ہزار افراد اپنے مویشیوں کے لئے سرکاری علاج کی سہولت حاصل کر چکے ہیں۔ اس صوبہ میں مرنے والے جانوروں کی تعداد 21 ہزار تین سو 28 ہے۔
تاریخ اشاعت 2 دسمبر 2022