گُل محمد چالیس سال سے میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے کوٹ چاندنہ مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔ یہ سارا عرصہ انہوں ںے اس خوف میں گزارا ہے کہ کہیں انہیں اس جگہ سے بے دخل نہ کر دیا جائے۔ ان کا تعلق افغانستان میں جلال آباد سے ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جب افغان جنگ عروج پر تھی تو وہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے تھے۔
کوٹ چاندنہ کا یہ مہاجر کیمپ پاکستان میں افغان مہاجرین کی پہلی بستی تھی جو آج بھی قائم ہے۔ گل محمد 1982 میں مہاجر کی حیثیت سے اپنی رجسٹریشن ہونے اور شناختی کارڈ بننے کے بعد یہاں منتقل ہوئے تھے اور پھر اس جگہ کے مستقل رہائشی بن گئے۔
گل محمد تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ ہیں اور اب ان کی عمر 66 سال ہے۔ ان کا بڑا بیٹا قریبی علاقے کالا باغ میں قالین بیچتا ہے، دوسرا ٹریکٹر ٹرالی پر مزدوری کرتا ہے اور تیسرا کیمپ میں کپڑوں کی دکان چلاتا ہے جس میں گل محمد بھی اس کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ 25 سال کی عمر میں اس کیمپ میں آئے تھے۔ اس وقت اکثر لوگ کھلے آسمان تلے رہتے تھے لیکن انہیں یہ سہولت تھی کہ یہاں راشن باقاعدگی سے ملتا تھا۔
"میری آنکھوں کے سامنے یہ کیمپ پہلے ایک بستی اور پھر خیموں کا شہر بن گیا جو کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا جس میں ہزاروں مہاجرین رہتے تھے۔ کیمپ میں سرکاری ٹرک گھی، چینی، دالیں اور چاول لے کر آتے تھے یہاں تک کہ آگ جلانے کے لیےلکڑیاں بھی حکومت فراہم کرتی تھی"۔
گل محمد کہتے ہیں کہ وہ بہت پہلے اپنا سب کچھ افغانستان میں چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے۔ ماضی میں بھی اور اب بھی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی باتیں انہیں پریشان کر دیتی ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی کا بڑا حصہ یہیں گزار چکے ہیں اور ان کے بچے بھی یہیں پلے بڑھے ہیں جن کے لیے افغانستان واپس جا کر نئی زندگی شروع کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
گل محمد کے مطابق جنگ کے مصائب سے جان بچا کر آنے کے بعد انہوں نے کڑی محنت کر کے پاکستان میں اپنی زندگی دوبارہ شروع کی۔ اب اگر حکومت پاکستان نے انہیں افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تو وہ دوسری مرتبہ مہاجر ہو جائیں گے۔
کوٹ چاندنہ مہاجر کیمپ
1979 میں افغانستان پر سوویت یونین (روس) کے حملے سے تین سال بعد افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو میانوالی کے علاقوں کوٹ چاندنہ، ٹولہ منگلی اور موضع کچ تندرخیل میں دو ہزار ایکڑ رقبے پر ایک مہاجر کیمپ بنایا گیا جسے کوٹ چاندنہ کیمپ کا نام دیا گیا۔ کیمپ کے لیے یہ زمین مقامی لوگوں سے کرایے پر لی گئی تھی۔
مہاجر کیمپ کے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر اشفاق حسین نے بتایا کہ یہاں 1982 میں 50 ہزار افغان مہاجرین کو خیمہ بستیوں میں بسایا گیا جس کے بعد حکومت نے کچے گھر بنانے کے لیے ضروری سامان بھی فراہم کیا۔ ہر گزرتے سال کے بعد کیمپ کی آبادی بڑھتی رہی۔ 1988 میں اس کیمپ کی آبادی ایک لاکھ 80 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے تعاون سے کیمپ میں واٹر سپلائی کا انتظام کیا گیا اور تعلیمی و طبی مراکز قائم کیے گئے۔
کمشنوریٹ برائے افغان مہاجرین پنجاب کے مطابق 1995 تک راشن سکیم کے تحت ہر گھرانے کو ماہانہ 15 کلو گرام گندم، 900 گرام کوکنگ آئل، 600 گرام چینی، 45 گرام چائے اور 900 گرام خشک دودھ مہیا کیا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے تعاون سے لالٹینیں روشن کرنے اور دیگر استعمال کے لیے کیروسین آئل بھی تقسیم کیا جاتا تھا۔
راشن سکیم بند ہوئی تو مہاجرین کی بڑی تعداد افغانستان واپس لوٹ گئی۔ باقی بچ جانے والے مہاجرین نے پنجاب کے دوسرے شہروں کا رخ کیا جہاں روزگار کے زیادہ مواقع میسر تھے۔ یوں اس کیمپ کی آبادی کم ہو گئی جس کے بعد کمشنوریٹ نے کیمپ کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ ڈی نوٹیفائی کر دیا۔
کیمپ کی آبادی گھٹنے کے ساتھ اس کا رقبہ بھی 2071 ایکڑ سے کم کر کے 390 ایکڑ کردیا گیا۔ خالی ہونے والی زمین مالکان کو واپس کر دی گئی جبکہ کیمپ کی موجودہ زمین کے مالکان کو پہلے کی طرح کرایہ دیا جاتا ہے۔
تاہم ٹولہ منگلی کے مقامی رہائشی موسیٰ خان افغان بستی کو دی جانے والی زمین کے معاوضے سے مطمئن نہیں ہیں اور اسے نہایت معمولی قرار دیتے ہیں۔
کیمپ کے لیے یہ زمین مقامی لوگوں سے کرایے پر لی گئی تھی
"جب یہ کیمپ بنا تو اس کے لیے مقامی لوگوں کی رضا مندی سے زمین کرائے پر پر لی گئی تھی جس کا کرایہ ہر تین سال کے بعد زمین مالکان کو فصل کی پیداوار کے مقابل ادا کیا جاتا ہے"۔
موسیٰ خان کا کہنا ہے کہ پہلے تو یہ صرف کچی بستی تھی، مگر اب آہستہ آہستہ پکے مکان بھی بننا شروع ہو گئے ہیں جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ مہاجرین یہاں مستقل رہنے کی تیاریوں میں ہیں۔ علاقے میں پہلے ہی روزگار کے مواقع بہت محدود ہیں اور اب انہوں نے یہاں کاروبار بھی جما لیے ہیں۔
اڑتیس سالہ احمد خان کوٹ چاندنہ کے رہائشی ہیں اور ان کی دو ایکڑ زمین کیمپ کے علاقے کا حصہ ہے۔
"ہماری زمین پر جب مہاجر کیمپ بنایا گیا تو اس وقت میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ ہم یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ بس چند سال کے بعد یہ کیمپ ختم ہو جائے گا اور زمین ہمیں واپس مل جائے گی۔ مگر اب بھی زمین مہاجرین کے زیراستعمال ہے جو دن بدن بنجر ہوتی جا رہی ہے''
مقامی افراد افغان مہاجرین کی کاروباری سرگرمیوں سے بھی خوش نہیں ہیں۔
کالا باغ بازار میں الیکٹرانکس کا سامان بیچنے والے 54 سالہ قاسم خان افغانیوں کے مزید قیام کے حامی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "ان لوگوں نے ہمارے کاروبار تباہ کیے ہیں۔ ابتدا میں تو یہ لوگ کیمپوں تک ہی محدود تھے لیکن دو تین دہائیاں پہلے انہوں نے کیمپوں سے باہر کاروبار شروع کر دیے۔ یہ لوگ سمگل شدہ سستا سامان بیچتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔''
یہ بھی پڑھیں
لاہور میں مقیم افغان:' ہم ہر وقت غیر یقینی کیفیت میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمیں واپس نہ بھیج دیا جائے'۔
کچ تندرخیل میں پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے ساٹھ سالہ غلام مصطفیٰ خان کی زمین بھی کیمپ کے علاقے میں آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "اب ہماری اپنی آبادی بھی خاصی بڑھ گئی ہے۔ ہم نے تو پہاڑ کے دامن میں کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا مگر اب ہمیں اپنی زمینوں پر بچوں کے لیے مکان بنانا ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ چند سال کے بعد افغان باشندے یہاں سے چلے جائیں گے لیکن اب ایسا نہیں لگتا کیونکہ انہوں نے مقامی غریب لوگوں کے نام پر مزید زمینیں بھی خریدنا شروع کر دی ہیں۔''
غازی خان کا شمار اس کیمپ میں رہنے والے نسبتاً خوشحال مہاجرین میں ہوتا ہے۔ وہ افغان صوبہ پکتیکا سے ہجرت کر کے آئے تھے اور اب ان کا گوجرانوالا میں ایکسکویٹر مشینوں کاروبار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اب افغانستان واپس جانے کی خواہش نہیں رکھتے۔
''1982ء میں جب میں اس کیمپ میں آیا تو میری عمر 13 سال تھی۔ میں یہیں پلا بڑھا اور میرے بچے بھی یہیں پیدا ہوئے۔ اب یہی ہمارا ملک ہے۔ مجھ سمیت یہاں کے تمام رہائشی انہی کچے گھروں میں خوش ہیں جہاں کم سے کم ہمیں تحفظ تو حاصل ہے۔ افغانستان میں ہماری زمینوں پر قبضے ہو چکے ہیں اور وہاں جائیں تو صرف بھوک ہی ہماری منتظر ہو گی"۔
تاریخ اشاعت 15 مارچ 2023