محکمہ اطلاعات سندھ کے ریکارڈ کے مطابق سندھی زبان میں 78 اخبارات باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں، ماہانہ رسائل ان کے علاوہ ہیں تاہم ان میں سے بہت کم انٹریٹ پر ملتے ہیں۔
50 کے قریب نجی ریڈیو اور آٹھ نجی ٹی وی چینلز بھی سندھی زبان میں نشریات چلا رہے ہیں جن میں کے ٹی این، کشش، سندھ ٹی وی، آواز ٹی وی، مہران ٹی وی اور دھرتی ٹی وی شامل ہیں لیکن ملٹی میڈیا دنیا پر سندھی کی چھاپ کافی مختصر نظر آتی ہے۔
سندھی پاکستان کی واحد مقامی زبان ہے جو صوبے میں ذریعہ تعلیم بھی ہے، جس کا اپنا بھرپور میڈیا بھی موجود ہے اور جس میں ادب بھی تواتر سے تخلیق ہو رہا ہے۔
موہن مدہوش، حیدرآباد میں 1996ء سے سندھی کتابوں کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سندھی زبان میں کتابیں چھاپنے والے تقریباً 35 ادارے ہیں جو سالانہ لگ بھگ ڈھائی سو کتابیں چھاپتے ہیں تاہم سندھی پبلشرز کی ویب سائیٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ سندھی زبان اپنے تمام تر دم خم اور پختگی کے باوجود نئی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے یا پھر اس نئے میدان میں ہونے والی دن دگنی رات چوگنی ترقی کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پا رہی۔

امر فیاض برڑو، 'عبدالماجد بھرگڑی انسٹیٹیوٹ آف لینگویج انجنیئرنگ (امبائل)' کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جن زبانوں میں جدت اور تبدیلیوں کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہو گی وہ نہیں بچیں گی اور جو زبانیں سافٹ ویئر، موبائل ایپلیکیشنز، اور آن لائن لرننگ سسٹمز کا حصہ بنیں گی، وہی باقی رہیں گی۔
پاکستان میں لینگویج انجینئرنگ کے صرف دو ہی ادارے موجود ہیں جن کا کام مقامی زبانوں کو کمپیوٹنگ کی دنیا سے ہم آہنگ کرنا ہے اور ان میں سے ایک - امبائل - کی بنیاد سندھ حکومت نے 2017ء میں رکھی تھی اور اسے عبدالماجد بھرگڑی کے نام کیا تھا جن کی کاوشوں سے سندھی زبان 1987-88 میں کمپیوٹر کی دنیا میں داخل ہو پائی تھی۔
کمپنیوں کو تو صارفین چاہئیں جس بھی زبان کے صارفین زیادہ ہوں گے وہ خود بخود مشینی نظام کا حصہ بنتی جائے گی
ڈاکٹر وزیر علی جامڑو، انسٹیٹوٹ آف بزنس منیجمینٹ کراچی میں ڈیٹا سائنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں اور دس سال سے سندھی زبان کے لیے کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی، گوگل، ڈیپ سیک اور میٹا پر سندھی موجود ہے، سندھی سے انگریزی اور انگریزی سے سندھی میں ترجمہ ہو سکتا ہے۔ سوال کا سندھی میں جواب بھی مل جاتا ہے لیکن اس جواب اور ترجمے کا معیار انگریزی زبان جیسا نہیں۔
"انٹرنیٹ پر سندھی کا زیادہ مواد موجود نہیں جبکہ مشین کو زیادہ سے زیادہ معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ پر کوئی زبان جتنا زیادہ استعمال ہوگی، مشین اس زبان کا اتنا ہی درست استعمال سیکھے گی۔"

ڈاکٹر وزیر علی کا ماننا ہے کہ زبان کا معاملہ مارکیٹ اور بزنس سے جڑا ہوا ہے۔ الگورتھم اور براؤزر کی دنیا 'استعمال' کی محتاج ہے۔ آبادی کا جتنا بڑا حصہ سندھی استعمال کرے گا اتنی زیادہ کمپنیاں اپنی پراڈکٹ ان (سندھی) صارفین کو مدنظر رکھ کر تیار کریں گی۔
لیکن سندھ میں زیادہ تر تعلیم یافتہ صارفین انٹرنیٹ پر سندھی کی بجائے انگریزی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے سندھی زبان ابھی تک انٹرنیٹ پر اپنا مقام نہیں بنا پا رہی یا خوشحال نہیں ہو پائی۔
پروفیسر مطيع الرحمان، کمپیوٹیشنل لسانیات میں پی ایچ ڈی اور حیدرآباد کے نجی تعلیمی ادارے 'اسرا یونیورسٹی' میں شعبہ کمپیوٹر سائنس کے سربراہ ہیں۔ وہ بھی یہی مانتے ہیں کہ آئی ٹی ایپلیکشنز، سافٹ وئیرز اور آلات پر کوئی زبان موجود ہوگی تو ہی وہ محفوظ رہے گی۔ "اب یہ سندھی بولنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی ماں بولی کتنی استعمال کرتے ہیں۔ کمپنیوں کو تو صارفین چاہئیں جس بھی زبان کے صارفین زیادہ ہوں گے وہ خود بخود مشینی نظام کا حصہ بنتی جائے گی۔"
"میٹا، چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک وغیرہ کے لرننگ الگورتھمز نے انٹرنیٹ پر موجود سندھی کے ڈیٹا ہی سے سیکھا ہوا ہے۔ جب ہم ان سے سندھی میں کچھ مانگتے ہیں تو وہ اسی (ڈیٹا) سے متعلقہ معلومات لے آتے ہیں یا پھر انگریزی اور دوسری زبانوں کے ڈیٹا سے لے کر اور مشینی ترجمہ کر کے سندھی میں دکھا دیتے ہیں۔"
'سندھی زبان کا جو بھی کام ہوا وہ انفردی سطح پر ہوا جس میں سرکاری اداروں کا کردار دکھائی نہیں دیتا'

پروفیسر مطيع الرحمان کا خیال ہےکہ مقامی زبانوں کو اپنی ثقافتوں اور اقدار کو مدنظر رکھ کر مشین لرننگ کے اپنے ماڈل تیار کرنا ہوں گے جن میں مقامی لہجے، الفاظ اور معنویت کو ملحوظ خاطر رکھا جا سکے گا۔
پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ مشین لرننگ کے ماڈلز کی تیاری کے لیے سندھی لسانیات کی مہارت اور ڈجیٹل لائبریریاں درکار ہیں جو سندھی مواد کی پروسینگ میں کام آئیں لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی نمایاں کام نہیں ہو سکا۔
"ہمیں ایسے ماڈلز اور سافٹ ویئر بنانا ہوں گے جن میں سندھی ناصرف مشیںوں سے رابطے کی زبان ہو بلکہ معلومات سٹور، پروسیس اور پیش کرنے کی بھی زبان ہو۔"
انسٹیٹوٹ آف بزنس منیجمینٹ کے ڈاکٹر وزیر علی اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں سندھی آوازوں کو رسم الخط میں تبدیل کرنے یا سپیچ ٹو ٹیکسٹ اور ٹیکسٹ ٹو سپیچ پر بھی کوئی کام نہیں ہو رہا۔ یو ٹیوب پر جو اس کی محدود صلاحیت موجود ہے وہ بھی محض رومن سکرپٹ میں لکھی سندھی کو شناخت کر پاتی ہے۔

ڈاکٹر وزیر علی کو شکوہ ہےکہ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی سے جڑا سندھی زبان کا جو بھی کام ہوا وہ انفردی سطح پر ہوا جس میں سرکاری اداروں کا کردار دکھائی نہیں دیتا۔
لیکن سندھی لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اسحاق سمیجو اس کی تائید نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں ادارہ جاتی سطح پر بھی کام بھی ہو رہا ہے۔ "2017ء میں انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج انجنیئرنگ حیدرآباد کا قیام اس کی واضح مثال ہے جو اس ضمن میں اہم کام کر رہا ہے۔"
سندھ حکومت نے سندھی زبان کی تعلیم و ترویج کے ترمیمی قانون کے تحت 1990ء میں 'سندھی لینگویج اتھارٹی' قائم کی تھی۔ ادارے کے چیئرمین بتاتے ہیں کہ اتھارٹی لسانیات،گرامر، لغت اور انڈس سکرپٹ اور زبان کی صحت و ترقی سے جڑے معاملات دیکھ رہی ہے اور ساتھ ہی سندھی زبان کو کمپیوٹیشنل بنانے کی حوصلہ افزائی کے لیے ایوارڈ اور سکالرشپ بھی دے رہی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج انجنیئرنگ کے امر فیاض کا دعویٰ ہے کہ "ہماری محنت سے پچھلے سال سندھی زبان کا آپٹیکل کریکٹر ریکگنیشن(او سی آر) تیار ہوا اور اب لکھائی کو سکین کر کے تصویری شکل میں انٹرنیٹ پر رکھا سندھی مواد بھی پڑھا جاسکتا ہے۔"

(اوسی آر وہ ٹیکنالوجی ہے جو متن کی تصاویر یا سکین شدہ دستاویزات کو مشین ریڈایبل متن میں تبدیل کرتی ہے۔ اسے سب ٹائٹل ٹیکسٹ میں موجود متن کو پہچاننے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔)
سندھی او سی آر سے متعلق دعوے پر ڈاکٹر وزیر علی کا کہنا ہےکہ جس کو بڑی کامیابی کہا جا رہا ہے وہ او سی آر بہت مستعد نہیں ہے۔
پروفیسر مطیع الرحمان کہتے ہیں کہ یہ او سی آر نہ تو زیادہ استعمال ہوا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جدت لائی گئی۔ انٹرنیٹ پر موجود کمپنیز نے اپنے او سی آر تیار کیے ہیں جن سے کام لیا جا رہا ہے۔
تاریخ اشاعت 19 فروری 2025