'اینوں پڑھا کے کیہہ کرنا جے؟' پنجاب کی اعلیٰ تعلیم میں پنجابی زبان

postImg

عبداللہ چیمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'اینوں پڑھا کے کیہہ کرنا جے؟' پنجاب کی اعلیٰ تعلیم میں پنجابی زبان

عبداللہ چیمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

9 مارچ 2024 کو پنجاب کلچر ڈے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجابی زبان کو سکولوں میں بطور مضمون متعارف کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان کے ایک سال بعد پیش رفت کا جائزہ لینے کو شاید جلد بازی کہا جائے لیکن پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پنجابی زبان کو داخل ہوئے 55 سال بیت چکے ہیں، ان اداروں میں یہ زبان آج کہاں کھڑی ہے، اس بات کا جائزہ شاید پنجاب کے تعلیمی نظام میں مادری زبان کی صورت حال کی بہتر عکاسی کر سکتا ہے-

پنجاب کی زبان کو اس کی اپنی سب سے قدیم اور اعلیٰ درس گاہ - پنجاب یونیورسٹی - میں داخلے کا 'اعزاز' آزادی کے 23 سال بعد 1970ء میں اس وقت ملا تھا جب پنجابی زبان و ادب کے بڑے نام فقیر محمد فقیر نے وائس چانسلر کے دفتر میں لیٹ کر احتجاج کیا تھا۔ ان کے سوانح نگار جنید اکرم کے مطابق فقیر محمد فقیر کے اس انوکھے احتجاج کے نتیجے میں یونیورسٹی کے اورینٹل کالج میں ایم اے پنجابی کی کلاسیں شروع ہوئی تھیں۔

پھر پنجابی کو بی اے اور انٹرمیڈیٹ میں بھی متعارف کروایا گیا اور جب اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بین الاقومی معیارات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے گریجوایشن کو چار سالہ کورس میں تبدیل کیا گیا تب بھی یونیورسٹی سطح پر پنجابی بطور مضمون موجود رہی۔

34 یونیورسٹیوں میں سے صرف چھ میں پنجابی پڑھائی جاتی ہے

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق اس وقت صوبے میں 34 سرکاری یونیورسٹیز ہیں لیکن ان میں سے صرف چھ ہی طلبہ کو چار سالہ بی ایس پنجابی پروگرام آفر کر رہی ہیں اور ان میں بھی اس مضمون میں طلبہ کی دلچسپی مسلسل کم ہوتی نظر آ رہی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں امسال بی ایس پنجابی میں صرف پانچ طالب علم ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بھی اتنے ہی ہیں۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں گذشتہ سال ایک بھی نہیں تھا لیکن اس سال آٹھ ہیں۔

پانچ سال قبل پانچ یونیورسٹیوں میں بی ایس پنجابی میں طلبہ کی کل تعداد 142 تھی جو 2024 میں کم ہو کر 55 رہ گئی ہے اور اس میں سے بھی آدھے (28) صرف بابا گرونانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب میں زیرتعلیم ہیں۔

'پنجابی کو میلے ٹھیلوں سے نہیں، روزگار کے مواقعوں سے جوڑ کر بچایا جا سکتا ہے'

فائزہ رعنا پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں ایک تو بی ایس پنجابی محض چند کالجز میں کروایا جا رہا ہے جبکہ اردو اور انگریزی کے بی ایس پروگرام ہر دوسرے کالج میں موجود ہیں۔ "جب بی اے دو سالہ ڈگری تھا تو پنجابی کو اختیاری مضمون کے طور پر رکھا جا سکتا تھا لیکن اب یونیورسٹیوں میں پنجابی کو اختیاری مضمون کے طور پر بھی آفر نہیں کیا جا رہا۔"

ڈاکٹر نگہت خورشید 1996ء سے پنجابی کی درس و تدریس سے منسلک ہیں اور کئی سرکاری کالجوں میں بطور پرنسپل کے خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ ان کے خیال میں بہت سے کالجوں میں پنجابی اس لیے بھی نہیں پڑھائی جاتی کیونکہ وہاں اس کی طلب (ڈیمانڈ) ہی موجود نہیں ہوتی۔ "ہائر ایجوکیشن والے فزیبلٹی دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس علاقے کے کالج میں پنجابی کی نشستیں رکھنی ہیں۔" 

ڈاکٹر اسما غلام رسول گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے پنجابی ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ اپنے زمانہ طالبہ علمی کو یاد کرتے ہوے بتاتی ہیں کہ پنجابی کی کلاسز میں دو، دو سو طلبہ ہوتے تھے مگر اب دس سے بھی کم کی کلاس بنتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر پنجابی کو بچانے کے لیے بہت شور مچایا جاتا ہے، مادری زبان کے نام پر سیمینار اور کانفرنسیں کی جاتی ہیں مگر پنجابی کی ترویج کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔"پنجابی کو میلے ٹھیلوں سے نہیں بلکہ اسے روزگار کے مواقعوں سے جوڑ کر بچایا جا سکتا ہے۔"

ڈاکٹر اسما تجویز کرتی ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن تمام طلبہ کے لیے پنجابی کا کم از کم ایک کریڈٹ آور لازمی قرار دے دے جیسے تمام بی ایس پروگرامز میں انگلش اور پاکستان اسٹڈیز کے لازمی کریڈٹ آورز ہیں۔

انٹرمیڈیٹ میں پنجابی کے طلبہ کی تعداد چھ سال میں نصف رہ گئی

طلبہ کی پنجابی میں دلچسپی میں واضح کمی کی گواہی انٹرمیڈیٹ بورڈز کے ڈیٹا سے بھی ملتی ہے۔

پنجاب کے جن پانچ تعلیمی بورڈز - فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان – کا ڈیٹا لوک سجاگ حاصل کر پایا ہے اس کے مطابق ان میں انٹرمیڈیٹ کے دوسرے سال میں پنجابی کا امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد 2017ء میں 55,112 تھی جو کم ہوتے ہوتے 2024ء میں اس کا نصف (24,528) رہ گئی ہے۔

(2020ء اور 2021ء میں کووڈ کے باعث امتحانات کا نظام تبدیل کر دیا گیا تھا اس لئے ان سالوں کے ڈیٹا کو موزانے میں شامل نہیں کیا گیا۔ پنجاب کے تین دیگر تعلیمی بورڈز یعنی راولپنڈی، سرگودھا اور بہاولپور کا مکمل ڈیٹا دستیاب نہیں ہے لیکن جو ڈیٹا لوک سجاگ حاصل کر پایا ہے وہ بھی پنجابی میں کمی کے رجحانات کو ہی ظاہر کرتا ہے۔)

'اردو کی سرکاری سرپرستی پنجابی کے زوال کی ایک بڑی وجہ ہے'
 

ڈاکٹر نوید احمد شہزاد کا ماننا ہے کہ پنجابی میں طلبہ کی کمی کی ایک وجہ کالجوں میں اساتذہ کا نہ ہونا ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی و کلچرل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ "پنجاب کے کئی کالج ایسے ہیں جہاں پنجابی اساتذہ کی کوئی نشست موجود ہی نہیں۔ ایمرسن کالج ملتان میں پہلے پنجابی کی دو نشستیں تھیں جو اب کم ہو کر ایک رہ گئی ہے جبکہ بہاولپور ایف سی کالج میں پنجابی کی نشست ختم کر دی گئی ہے"۔

کالج انفارمیشن سسٹم کی ویب سائیٹ کے مطابق پنجاب میں کل 876 کالجز میں پنجابی پڑھانے والے اساتذہ کی کل آسامیاں 251 ہیں اور ان میں سے 56 خالی ہیں۔ یعنی تقریباً پانچ کالجز کے لیے پنجابی کا ایک استاد موجود ہے۔

ڈاکٹر نوید یونیورسٹیز میں بھی اساتذہ کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی میں ان کے شعبے میں لیکچررز کی دو نشستیں خالی ہوئی تھیں جن کے لیے چار سال پہلے اشتہار دیا گیا لیکن آج تک ان کے لیے انٹرویو نہیں ہو سکے۔ "گذشتہ چند سالوں میں ہمارے چھ سینئر فیکلٹی ممبران چلے گئے لیکن ان کی جگہ صرف ایک نیا ممبر شامل کیا گیا۔ اس وقت انسٹی ٹیوٹ آف پنجابی اورینٹل کالج  تین پارٹ ٹائم اساتذہ کے ساتھ چل رہا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی ایسا کالج نہیں جہاں اردو نہ پڑھائی جاتی ہو۔ "جہاں اردو کے 80 لیکچرارز کے لیے اشتہار آتا ہے، وہاں پنجابی کے لیے صرف 8 نشستیں آتی ہیں۔ اگر گزشتہ 70 سالوں میں اردو کو اس طرح روزگار سے منسلک نہ کیا گیا ہوتا تو اس کے لیے بھی سروائیو کرنا مشکل ہوتا۔"

ڈاکٹر ظہیر وٹو بھی اردو کی سرکاری سرپرستی کو پنجابی کے زوال کی ایک وجہ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو کی نوآبادیاتی تاریخ اور پاکستانی قومیت کے نظریے کے ساتھ اس کی وابستگی کے باعث پنجاب میں سرکاری سطح پر اردو کو ہی ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ ڈاکٹر ظہیر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

وہ کہتے ہیں: "پنجابی کے حوالے سے ریاست کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پنجابی ادبی بورڈ کی سرکاری فنڈنگ 50 ہزار روپے سالانہ ہے جس میں عمارت کا کرایہ، اسٹاف کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔"
"جب بھی حکومت کی توجہ پنجابی کی جانب کروانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے۔ 'اینوں پڑھا کے کیہہ کرنا جے؟'۔"

'جب انہیں کسی اور مضمون میں داخلہ نہیں ملتا تو وہ پنجابی کا انتخاب کرتے ہیں'

ڈاکٹر مجاہدہ بٹ 1992ء سے پنجابی کی تحقیق و تدریس سے منسلک ہیں اور ان کی والدہ بھی لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے پنجابی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پنجابی کی ڈگری طلبہ کی آخری ترجیح ہوتی ہے۔ "جب انہیں کسی اور مضمون میں داخلہ نہیں ملتا تو وہ پنجابی کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے پیچھے والدین کااحساسِ کمتری ہے۔"

ڈاکٹر فیصل باری لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائینسز کے شعبہ تعلیم کے سربراہ ہیں- ان کا ماننا ہے کہ والدین کے فیصلے کی وجہ احساس کمتری سے زیادہ ان کے روزگار سے جڑے خدشات ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق علم التعلیم میں پنجابی بچوں کو پنجابی میں پڑھانے یا پنجابی پڑھانے کے حق میں ٹھوس دلائل موجود ہیں لیکن والدین یہ پوچھتے ہیں کہ جب ساری اعلیٰ تعلیم یا تو اردو میں ہے یا انگریزی میں اور ہر اچھی نوکری کے لئے بھی انگریزی ہی چاہیے تو پھر وہ اپنے بچے کو پنجابی کیوں پڑھائیں؟

"ہمارے پاس اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہے یا تو ہم یہ طے کر لیں کہ سی ایس ایس جیسی نوکریوں کے لیے امتحان پنجابی میں ہوگا یا پھر یہ تسلیم کر لیں کہ انگریزی بھی اب ہماری زبان بن چکی ہے کیونکہ اسے اس خطے میں آئے ہوئے دو سو سال گزر چکے ہیں۔"

تاریخ اشاعت 21 فروری 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبداللہ سیاست، اقلیتوں کے حقوق اور گورننس کے مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انھوں نے انگریزی ادب میں گریجوایشن کررکھی ہے اور تحریری رپورٹس کے ساتھ ساتھ پوڈکاسٹ اورڈاکومنٹریز بھی تیار کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی

سولر لگانے والے کیوں پریشان ہیں؟

دریاؤں کے لئے کچھ کرنے کے عالمی دن پر دریائے سندھ کو خراج تحسین

مزدور انصاف مانگتا ہے، عدالت تاریخ دے دیتی ہے

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.