عید منانے کے لیے اپنے آبائی گھر جانے کا سفر وزیرستان کے ان لوگوں کے لیے کچھ زیادہ ہی خاص ہوتا ہے جو کاروبار اور ملازمتوں کے لیے سارا سال ملک کے دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں۔ کیوں؟ جاننے کے لیے میرے ساتھ اس سفر پر چلیے۔
پشاور سے دو سو کلومیٹر دور بنوں شہر سے شمالی وزیرستان کی طرف جاتے ہوئے آپ کو بکاخیل کے مقام پر سڑک کے دائیں جانب سبز رنگ کے خیموں سے بھری ایک وسیع آبادی نظر آتی ہے جہاں فوجی چوکی کے باہر کچھ لوگ قطار میں کھڑے اپنے خیموں میں داخلے اور خروج کے لیے اندراج کرا رہے ہیں۔ ساتھ ہی چھوٹے بچے اور بچیاں سروں پر لکڑیاں اٹھائے سڑک کے کنارے چلتے کیمپ کی طرف جارہے ہیں۔
یہ بکاخیل آئی ڈی پیز کیمپ ہے۔
یہاں 2014ء میں آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے شمالی وزیرستان کے متاثرین رہ رہے ہیں۔ دس سال بعد اب یہاں شمالی وزیرستان کے ان علاقوں کے متاثرین رہائش پذیر ہیں جنہیں عسکری حکام نے ابھی تک دہشت گردی سے پاک یا کلیئر قرار نہیں دیا گیا ہے۔
اس کیمپ سے پانچ کلو میٹر مغرب کی جانب سیدگئی کے مقام پر ایک فوجی چیک پوسٹ ہے جہاں پر ہر آنے جانے والے کا شناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے۔آج بھی یہاں پر سکیورٹی اہلکاروں نےنجی ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے تمام مسافروں سے شناختی کارڈ کے بارے میں دریافت کیا جو انہوں نے پہلے سے ہی ہاتھوں میں تھام رکھے تھے۔
یہ اب ان لوگوں کی زندگی کا معمول بن چکا ہے۔
اہلکار ان سے شمالی وزیرستان میں ان کے علاقے کا نام اور جانے کی وجہ بھی پوچھ لیتے ہیں تاکہ کوئی غیر مقامی فرد اس علاقے میں نہ جا پائے۔
غیر مقامی لوگوں کو شمالی وزیرستان میں داخلے کے لیے انتظامیہ سے پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے جس کی اس چیک پوسٹ پر تصدیق کی جاتی ہے۔
اس چیک پوسٹ سے پانچ سو میٹر آگے جائیں تو ایک شاندار ٹول پلازہ نما چیک پوائنٹ آتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ڈرائیور بلند آواز میں تمام سواریوں سے اپنے اپنے شناختی کارڈ اس کے پاس جمع کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ وہ ٹول پلازہ کے کیبن میں بیٹھے سکیورٹی اہلکار سے کمپیوٹر میں ان کی انٹری کروا سکے۔
آج سے چھ سال پہلے یہاں لوگوں کی لمبی قطاریں لگتی تھیں جنہیں گھنٹوں اور کبھی کبھی تو دنوں پر محیط انتظار کرنا پڑتا تھا۔
اُس وقت شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کو قومی شناختی کارڈ کے علاوہ ایک اور کارڈ بھی مہیا کیا جاتا تھا جسے 'وطن کارڈ ' کہا جاتا تھا۔ جن افراد کے پاس شناختی کارڈ کے ساتھ وطن کارڈ نہیں ہوتا تھا وہ وزیرستان میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔
2018ء میں لوگوں کے احتجاج کے بعد یہ طریقہ ختم کر دیا گیا تھا۔
میرے ساتھ بیٹھا ایک مسافر یاد کرتا ہے کہ پہلے تو یہاں قیامت کا منظر ہوا کرتا تھا، بچے بھوک پیاس سے بلک رہے ہوتے تھے، خواتین اور مرد پیاس سے نڈھال اپنے گھر جانے کی اجازت کے لیے لاوارثوں کی طرح کھڑے رہتے تھے لیکن اب گاڑی میں بیٹھ کر آپ کی انٹری ہوجاتی ہے۔ اس لیے اب لوگوں کو یہ تکلیف دہ نہیں لگتا ہے۔
لیکن اب بھی بار بار جگہ جگہ شناختی کارڈ دکھانا لوگوں کو برا لگتا ہے۔
ساتھ بیٹھا ایک اور مسافر کہتا ہے "میں ایک ماہ تک پنجاب کے شہر فیصل آباد میں رہا اور آج وہیں سے آ رہا ہوں، وہاں اس دوران کسی نے ایک بار بھی نہ مجھے شناختی کارڈ دکھانے کو کہا اور نہ آنے جانے کے بارے میں دریافت کیا لیکن یہاں اپنے ہی علاقے میں ہر جگہ یہی سوال کہ شناختی کارڈ دکھاؤ، کہاں سے آئے ہو، کہاں جا رہے ہو، کیا کرتے ہو، اتنی بار پوچھا جاتا ہے کہ توہین محسوس ہوتی ہے۔"
ان دو چیک پوسٹوں سے تقریباً 20 کلومیٹر بعد کھجوری نامی چیک پوسٹ آجاتی ہے جہاں پر تعینات ایف سی اہلکار ڈرائیور سے تمام مسافروں کے شناختی کارڈ مانگنے کے بجائے صرف آنے جانے کی مقام کے بارے میں پوچھتے ہیں اور کچھ دیر بعد جانے کا اشارہ کر دیتے ہیں۔
یہاں سے 40 کلومیٹر مغرب کی جانب میرانشاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جگہ جگہ ایف سی اور فوجی اہلکار کھڑے نظر آتے ہیں، ہر پانچ سو میٹر کی دوری پر چھوٹے چھوٹے پوسٹ بنے ہوئے ہیں۔بم ڈسپوزل سکواڈ بم تلاش کرنے کے لیے اپنے ڈیٹیکٹرز سے سڑک کی دونوں اطراف سکین کرتے رہتے ہیں۔
دن کو سکیورٹی فورسز کے دستوں کو لینڈ مائنز یا آئی ای ڈیز کے پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے لہذا روزانہ صبح صبح یہ سکواڈ سڑک کے دونوں اطراف سے ملحقہ علاقے کو سرچ کرتا ہے۔
شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ سے سات کلومیٹر پہلے ایشاہ کے مقام پر ایک اور چیک پوسٹ پر کھڑے فوجی کے پاس ڈرائیور نے گاڑی روک دی جہاں پر ایک دفعہ پھر اس سے آنے جانے کے مقام کے علاوہ مسافروں کے مقامی ہونے کے بارے میں دریافت کیا گیا۔
ایشاہ سے بائیں طرف ایک سڑک سیر و سیاحت کے لیے مشہور وادی رزمک و شوال کو جاتی ہے جبکہ ایک سیدھی شہر کی طرف نکل جاتی ہے۔
شہر سے ایک کلومیٹر کی دوری پر چشمہ کے مقام پر ایک اور چیک پوائنٹ آتا ہے جہاں پر اس وقت گاڑیوں کا رش ہے۔ گاڑیاں آہستہ آہستہ چیک پوائنٹ کے جانب بڑھتی ہیں اور مسافر اپنے نام اور آنے جانے کے مقام کا سبق دہراتے ہیں۔
یہاں رش ہونے کی ایک وجہ غلام خان بارڈر کے ذریعے افغانستان سے آنے والی بڑی گاڑیاں بھی ہیں۔ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کو موڑ کاٹنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
بلاآخر دو گھنٹے بعد میرانشاہ شہر پہنچ ہی گئے۔
میران شاہ شہر میں ڈسٹرکٹ ہیڈکورٹر ہسپتال کے ساتھ واقع فوج کی بنائی کشادہ مارکیٹ ویران پڑی ہے۔مقامی دکانداروں کے مطابق کہ اس مارکیٹ میں کرائے بہت زیادہ ہے جو لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس لیے لوگوں نے اس سے کچھ فاصلے پر خود مارکیٹیں بنالی ہیں جہاں اب عید کی وجہ سے رش بھی زیادہ ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں میرانشاہ شہر میں ہزاروں دکانیں مسمار کر دی گئی تھیں جن کے معاوضہ کے لیے لوگ اب بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں۔
میرانشاہ سے آگے تحصیل دتہ خیل کی طرف جائیں تو 35 کلومیٹر کی مسافت میں تقریباً سات بڑے چیک پوسٹ آتے ہیں۔جہاں پر مسافروں سے وہی سوال بار بار کیے جاتے ہیں۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے آپ کسی بہت حساس جیل میں داخل ہو رہے ہیں۔
کچھ چیک پوسٹ تو ایسے بھی ہیں جو بالکل آمنے سامنے ہیں جیسے بویہ کے مقام پر پل کے دونوں طرف چیک پوسٹ ہیں اور دونوں ایک ہی طرح کے سوال کرتے ہیں وہی کہ کون ہو، کہاں سے آئے ہو، آپ کو پہلے دیکھا نہیں ہے، کہاں جارہے ہو وغیرہ۔
2014ء میں آپریشن ضرب عضب کے بعد سے تمام چھوٹے بڑے پہاڑوں پر سبز ہلالی پرچم بنائے گئے ہیں۔جہاں پر پرچم کے ساتھ ہی سکیورٹی فورسز کے قلعہ نما بنکر بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود مقامی لوگوں کے مطابق امن و امان کے حالات بہتر نہیں ہوئے اور اب بھی خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔
اس خوف و ہراس کا ذکر لوگ سرگوشیوں میں تو کرتے ہیں لیکن کسی صحافی سے اس موضوع پر گفتگو کرنے سے کتراتے ہیں۔
تاہم کچھ لوگ اس ڈر پر قابو پا چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کی جان بخشی تو ویسے بھی نہیں ہونی ہے اس لیے اچھا ہے کہ یہاں کے حالات پر گفتگو کی جائے تاکہ ملک کے باقی لوگ بھی اس سے آشنا ہو سکیں۔
انہی میں سے ایک اسد داوڑ ہیں۔ درپہ خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے ضلعی صدر، اسد داوڑ علاقے میں ترقی پسند مزاحمتی سیاست کے علمبردار ہیں۔
میران شاہ شہر سے شمال کی سمت تقریباً پانچ کلومیٹر دور ڈانڈے درپہ خیل میں اپنے گھر کے ساتھ ایک غیر آباد سکول کے کمرے میں بیٹھے ہوئے کہتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے وقت یہ یقین دلایا گیا تھا کہ وزیرستان دہشت گردی سے پاک ہو جائے گا لیکن اب دوبارہ حالات کی خرابی باعث تشویش ہیں۔
"فرق صرف یہ ہے کہ تب ہمارے مشیران اور پڑھے لکھے طبقے کو قتل کرکے ان کی لاشیں سڑک پر پھینک دی جاتی تھیں، اب وہ ٹارگٹ کلنگ میں مارے جاتے ہیں۔"
اسد کو ڈر ہے کہ اس علاقے کو ایک دفعہ پھر جنگ کا میدان بنایا جارہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عام لوگ بے بس اور خوفزدہ ہیں۔ ہر وقت بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور کرفیو نافذ رہتا ہے۔
"لوگوں نے میرانشاہ شہر میں بڑی مشکل سے دوبارہ کاروبار شروع کیے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر اس موضوع پر آواز اُٹھائیں گے تو پہلے کی طرح ان کے کاروبار اور جانوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔"
اسد داوڑ بتاتے ہیں کہ اب ایک نیا ٹرینڈ یہ شروع ہوگیا ہے کہ اگر کسی سڑک پر دو گاڑیوں کا فوجی قافلہ جا رہا ہو تو سڑک عام ٹریفک کے لیے بند کردی جاتی ہے۔
"پھر وہاں پر موجود اہلکاروں کی مرضی ہے کہ وہ گھنٹوں آپ کو روکے رکھیں۔ اس دوران اگر اپ کی کوئی ایمرجنسی ہو یا کوئی ضروری کام ہو اور آپ ساتھ اہلکار سے جلدی کرنے کی درخواست کر لیں تو وہ آپ کے لہجے پر اعتراض اٹھا کر آپ کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہیں، کرسکتے ہیں۔"
شمالی وزیرستان میں لوگ رات کو گھروں سے نہیں نکلتے۔ مغرب کی نماز کے بعد گھروں کے دروازے بند کر لیے جاتے ہیں جو پھر کسی کے لیے بھی نہیں کھلتے۔
انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں کوئی دہشت گر کھانے پینے یا سونے کی جگہ کے لیے ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹا دے جو بعد میں ان کے لیے مسئلہ بن جائے۔
وہ ظاہر ہے مسلح ہوتے ہیں اس لیے انہیں کھانے یا حجرے میں سونے کی جگہ دینے سے انکار کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اگر انکار نہ کیا جائے تو صبح سویرے سکیورٹی اہلکار گھر آجاتے ہیں اور گھر کے افراد کو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں اٹھا لیتے ہیں۔
مہمان نوازی کی روایت کی اتنی بھاری قیمت ادا کرنا کسی کے بھی بس میں نہیں لہذا شام کو بند کیے گئے دروازے صبح سے پہلے کسی صورت نہیں کھولے جاتے۔
یہ بھی پڑھیں
بنا ہوا ہے مرا شہر قتل گاہ کوئی: 'اس وقت شمالی وزیرستان میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ اس کا دوست کون ہے اور دشمن کون'۔
وزیرستان کے دیہات میں پوری رات فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ عام لوگوں سے اس بارے میں پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ جس رات یہ فائرنگ نہ ہو تو انہیں نارمل محسوس نہیں ہوتا بلکہ کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
اسلحہ اور تشدد کے نارمل ہو جانے کا ایک شاخسانہ یہ ہے یہاں ہر طرف بچے انہی سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔
تحصیل دتہ خیل کے قصبے لانڈ سید آباد میں بطور میڈیکل ڈسپنسر کام کرنے والے حاجی محمد کہتے ہیں کہ ان کے اپنے مشاہدے اور دکانداروں کے بقول عید پر بچے سب سے زیادہ بندوق کے کھلونے خریدتے ہیں۔ انہوں نے دکانداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کی روک تھام کریں تاکہ بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔
"اس میں وقت لگے گا لیکن اگر ہم سب مل کر امن کے لیے کام کریں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔"
سکیورٹی حکام نے جگہ جگہ لڑکوں کے لئے سکول قائم کئے ہیں اور بویہ کے مقام پر بنائے آرمی پبلک سکول میں دور دراز سے آنے والے لڑکوں کے لیے ہاسٹل بھی بنایا گیا ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں بچے سکول جاتے نظر آتے ہیں۔
تاہم لڑکیوں کے سکول نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو چند ایک ہیں ان پر ہمیشہ حملوں کا ڈر رہتا ہے۔ والدین بچیوں کو اس ڈر سے بھی سکول نہیں بھیجتے۔ حال میں شیوا کے مقام پر عافیہ اسلامک سکول کو بم دھماکوں سے تباہ کردیا گیا۔
وزیرستان سے واپسی سے ایک دن پہلے میں، میرانشاہ پریس کلب گیا جہاں پر کچھ صحافی موجود تھے انہوں نے امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہونے پر تشویش ظاہر کی لیکن اس موضوع پر انٹرویو کے لیے کوئی راضی نہیں ہوا۔
"ہم یہیں رہتے ہیں اور ہمیں جان پیاری ہے اس لیے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔"
تاریخ اشاعت 15 جون 2024