پیٹرول کی قیمتیں: معذور طلبہ کی تعلیم کا پہیہ جام

postImg

محمد ندیم قیصر

postImg

پیٹرول کی قیمتیں: معذور طلبہ کی تعلیم کا پہیہ جام

محمد ندیم قیصر

عالیہ مرتضیٰ ملتان کے جنرل بس سٹینڈ سے ملحقہ آبادی کی رہائشی ہیں۔ وہ اور انکی بڑی بہن سدرہ مرتضیٰ پیدائشی طور پر قوت گویائی و سماعت سے محروم ہیں۔

عالیہ کے والد غلام مرتضی چھوٹے کاشتکار ہیں اور ضلع وہاڑی کے دیہی علاقہ چوک میتلا میں اپنے پانچ ایکڑ رقبے پر خود کاشتکاری کرتے ہیں۔ ان کا خاندان  مستقل طور پر ملتان شہر میں مقیم ہے جبکہ ان کا زیادہ تر وقت گھر سے تقریباً 60 کلو میٹر دور گاؤں میں گزرتا ہے۔

عالیہ اپنے گھر سے کم و بیش سات کلو میٹر دور رائٹرز کالونی میں واقع گورنمنٹ ڈیف اینڈ ڈمب سکول میں زیر تعلیم تھیں۔ وہ گھر سے سکول تک کا سفر اپنے سکول کی بس میں کرتی رہی ہیں۔ انہیں یہ سہولت سکول کی طرف سے مفت مہیا تھی جو مئی 2022ء میں بند کردی گئی۔

وہ اب سکول نہیں جاتیں۔

عالیہ کے سکول میں طلبہ کی تعداد ڈھائی سو کے قریب تھی جو مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم ہونے کے بعد نصف رہ گئی ہے۔ اب صرف وہی طلبہ سکول آتے ہیں جن کے والدین ان کی آمدورفت کا خرچہ  اپنی جیب سے کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔

غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ ان کی بڑی بیٹی سدرہ نے سپیشل سکول اور بعد میں کالج میں تعلیم اس لیے مکمل کر پائیں کہ انہین مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل تھی۔ "میرے ذاتی مالی وسائل اتنے نہیں کہ عالیہ کو اپنے خرچہ پر گھر سے سکول تک آنے جانے کی سہولت فراہم کر سکوں"۔

خادم حسین نے بھی اپنے ذہنی معذور بچے کو سکول سے اٹھا لیا ہے۔ خادم فیکٹری میں مزدور ہیں اور ملتان کے دیہی علاقے مخدوم رشید کے چک چاہ شیروآلہ کے رہائشی ہیں۔

ان کا بیٹا محمد رضوان گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر مخدوم رشید میں زیر تعلیم تھا جہاں ڈیڑھ سو طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ضلع کے دیگر اداروں کی طرح اس سنٹر نے بھی طلبہ کو ٹرانسپورٹ کی مفت سہولت بند کر دی ہے۔

رضوان کے چھوٹے بھائی 22 سالہ محمد عرفان کا آٹھ برس قبل بازو کٹ گیا تھا تاہم انہوں ںے عام سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سکول انتظامیہ کہتی ہے کہ سپیشل سکولز کو دیئے جانے والے پٹرول فنڈز میں اضافہ نہیں کیا گیا اور پٹرول مہنگا ہو جانے کے باعث دستیاب فنڈز میں مفت ٹرانسپورٹ کو جاری رکھنا ممکن نہیں۔

"اس سہولت کی بندش کے بعد صرف میرے بھائی کا تعلیمی سلسلہ ہی منقطع نہیں ہوا بلکہ سکول میں طلبہ کی حاضری نصف سے بھی کم رہ گئی ہے"۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع ملتان میں معذور افراد کی تعداد 20 ہزار ہے جن میں تمام عمروں کے 12 ہزار مرد اور آٹھ ہزار عورتیں شامل ہیں جبکہ ایک سو 20 ٹرانسجینڈر ہیں۔ان کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جہاں ان کی تعداد 12 ہزار ہے۔

ضلع میں معذور بچوں کے لیے 13 سکول اور سینٹر  اور ایک کالج ہے۔ملتان شہر میں 10، تحصیل جلال پور میں دو اور تحصیل شجاع آباد اور مخدوم رشید میں ایک ایک سنٹر ہے۔ ملتان سٹی میں اکلوتا سپیشل کالج شالیمار کالونی میں کرائے کی بلڈنگ میں قائم ہے۔شہر میں واقع چھ سیپشل ایجوکیشن سکول اور سینٹر بھی کرائے کی عمارتوں میں کام کر رہے ہیں جن میں سے ہر عمارت کا کرایہ لاکھوں روپے ہے۔

بیشتر سپیشل سینٹر اور سکولوں میں تمام معذور بچے بچیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ البتہ معذوری کی نوعیت کے لحاظ سے چند علیحدہ سکول بھی بنائے گئے ہیں۔

ضلع ملتان میں قائم سپیشل تعلیمی اداروں کے پاس مجموعی طور پر 31 بسوں کا بیڑا ہے۔

 سپیشل بچوں کی سکولوں میں حاضری کیوں ضروری ہے؟

عمار مسعود اسلام آباد کے سینیئر صحافی ہیں اور پچھلی تین دہائیوں سے مختلف حوالوں سے سپیشل بچوں اور ان کی تعلیم و تربیت کے معاملات سے منسلک رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: "بچہ کسی بھی معذوری کا شکار ہو، ماں باپ کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ 24 گھنٹے اس کی دیکھ بھال کر سکیں۔ بیشتر والدین تو یہ جانتے ہی نہیں کہ سپیشل بچوں کی تربیت کس طرح کی جانی چاہیے؟ اب نابینا بچوں کو گھر پر بریل سے کیسے پڑھایا جاسکتا ہے؟"

بریل نابینا افراد کے لیے ایک مخصوص طرز تحریر و طباعت ہے جس میں مخصوص حروف تہجی میں لکھے الفاظ صفحات پر ابھرے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں نابینا افراد انگلیوں سے محسوس کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

عمار کہتے ہیں کہ سکول جانے والے سپیشل بچے زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں۔ سپیشل سکولوں میں بچوں کی معذوری کے لحاظ سے نصاب اور غیر نصابی سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ "سپیشل سکول کچھ کیٹیگری کے بچوں کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ چھوٹی موٹی نوکری کرسکیں۔ جیسے ٹیلی فون آپریٹر، ریسپشنسٹ، نائب قاصد وغیرہ۔ کچھ بڑی مثالیں بھی ہیں۔ جیسے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب صائمہ سلیم نابینا ہیں۔ بہت سے معذور افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور اب اچھی نوکریاں کررہے ہیں۔"

عمار کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ معذور بچوں کو بوجھ سمجھتا ہے۔ لوگ ایسے بچوں کو دھتکارتے رہتے ہیں لیکن جب ان میں سے کوئی 20، 25 ہزار کی نوکری کر لیتا ہے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے۔

ملتان کے محمد آصف اقبال بھی ایسے ہی ایک 'ہیرو' ہیں۔ پولیو کے باعث وہ ٹانگوں سے معذور ہیں۔انہوں نے ٹیلرنگ کا ہنر سیکھا ہے اور وہ جسمانی معذوری کے شکار بچوں کو ہنر مند بنانے والی ایک این جی او سے بھی وابستہ ہیں۔

آصف بتاتے ہیں کہ سپیشل سکولوں میں بچوں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے، بیٹھنے اٹھنے، ٹیم ورک کرنے یہاں تک کہ واش روم استعمال کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔"اس طرح کی تعلیم و تربیت کا ماحول گھروں میں نہیں مل پاتا"۔

<p>ٹرانسپورٹ کی بندش سے سپیشل سکولوں میں بچوں کی  حاضری نصف رہ گئی ہے<br></p>

ٹرانسپورٹ کی بندش سے سپیشل سکولوں میں بچوں کی  حاضری نصف رہ گئی ہے

ان کا کہنا ہے کہ سپیشل افراد کی زندگی بہت کٹھن ہوتی ہے۔ انہیں عام افراد کے ماحول میں جینے کا ہنر سکھانے کے لیے بہت زیادہ محنت اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو گھر پر ممکن نہیں ہوتی۔

سپیشل سکولوں کے 'مجبور' افسر

ملتان کے ایک سپیشل سکول کی سربراہ نے اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث ان کے ادارے میں بچوں کی تعداد میں 60 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ٹرانسپورٹ فنڈز کی ادائیگی اقساط میں کی جاتی ہے۔ قسط ملنے میں تاخیر ہو جائے تو پٹرول پمپ سے ادھار پر فیول لینا پڑتا ہے۔ جس کے لیے پٹرول پمپ انتظامیہ کی منت سماجت بھی کرنا پڑتی ہے۔

ملتان کے ایک اور سپیشل سکول کی نگران پرنسپل نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بتایا کہ دسمبر 2022ء میں انہیں سالانہ امتحانات کے موقع پر چند روز کے لیے مفت ٹرانسپورٹ سروس فراہم کرنے کی ضرورت تھی تو رقم دیگر مدوں سے نکالنی پڑی۔

"نئے سال کے آغاز کے بعد سکول نہ آنے والے بچوں کے والدین کے تعاون سے گھروں میں کلاس ورک مکمل کروانے کے لیے آن لائن تعلیم کا سلسلہ اختیار کیا ہے"۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ آن لائن تعلیم مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے سکول میں بھی حاضری صرف 45 فیصد رہ گئی ہے اور اس میں مزید کمی ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

طبی تعلیم کی نج کاری: حکومتی پالیسیوں کے باعث ڈاکٹر بننے کی قیمت میں شدید اضافہ۔

ڈسٹرکٹ سپیشل ایجوکیشن آفیسر میاں محمد ماجد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سپیشل ایجوکیشن اداروں کے لیے پٹرول فنڈز میں ایمرجنسی اضافے کی سمری اعلی حکام کو بھجوا دی گئی ہے اور فنڈز ملتے ہی مفت ٹرانسپورٹ سہولت بحال کردی جائے گی۔

سمری پر کب عمل ہوگا؟ اس پر کچھ کہنے سے وہ قاصر تھے۔

ٹرانسپورٹ فنڈز کی بندش کے بعد سپیشل اداروں کی بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں سے صفائی ستھرائی، نائب قاصد یا چوکیداری کا کام لیا جارہا ہے۔

عالیہ مرتضیٰ اب اپنی بڑی بہن سدرہ کے ساتھ ایک این جی او کے زیرنگرانی چلنے والے ہنرمندی سنٹر میں بیوٹیشن کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ یہاں انہیں مفت پک اینڈ ڈراپ کی سہولت میسر ہے۔

عالیہ کے والد غلام مرتضیٰ کی اب بھی خواہش ہے کہ ان کی بیٹی کا تعلیمی سلسلہ بحال ہو اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔ لیکن پٹرول کی قیمتوں اور حکومت کی بے اعتناعی کو دیکھتے ہوئے ان کی امیدیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔

 

* اس سٹوری میں شامل ویڈیو کے لیے ہم 'ڈیف ٹاک' اسلام آباد کے مشکور ہیں۔

تاریخ اشاعت 8 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد ندیم قیصر کا تعلق ملتان سے ہے۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز چینلز کے ساتھ وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.