مہمند کے پتھر پیسنے کے کارخانوں میں مہلک گرد کے شکار مزدور: کسی کو بہرِسماعت نہ وقت ہے نہ دماغ۔

postImg

شاہنواز ترکزئی

postImg

مہمند کے پتھر پیسنے کے کارخانوں میں مہلک گرد کے شکار مزدور: کسی کو بہرِسماعت نہ وقت ہے نہ دماغ۔

شاہنواز ترکزئی

جب راحت شاہ کا انتقال ہوا تو ان کی 26 سالہ بیوی ثمینہ بی بی بہت پریشان تھیں کہ وہ اپنے پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کیسے پالیں گی۔ 

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند کے گاؤں راول کور کے محلہ برج کلے کے رہنے والے راحت شاہ مرنے سے پہلے ایک قریبی علاقے پرچاوی میں ایک ایسے کارخانے میں کام کرتے تھے جہاں مقامی کانوں سے نکالے جانے والے سفید پتھر کو پیس کر پاؤڈر کی شکل دی جاتی ہے۔ یہ پاؤڈر بعد ازاں پنجاب اور کراچی میں واقع مختلف فیکٹریوں کو بھیجا جاتا ہے جہاں اس سے میک اپ کا سامان، خاص طور پر ٹالکم پاؤڈر، بنایا جاتا ہے۔ اسے چینی کے برتن بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ثمینہ بی بی کا کہنا ہے کہ راحت شاہ نے اس کارخانے میں ڈھائی سال کام کیا لیکن اس دوران ان کی صحت مسلسل خراب رہی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کو "سانس لینے میں بہت دقت ہوتی تھی اور ان کے جسم میں بھی شدید درد رہتا تھا"۔ اگرچہ انہوں نے پرچاوی کے نزدیک واقع ایک سرکاری بنیادی مرکزِ صحت سے کافی علاج کرایا لیکن اس سے انہیں کوئی افاقہ نہ ہوا یہاں تک کہ جولائی 2020 میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 29 سال تھی۔

ثمینہ بی بی اب اپنے بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر میں رہتی ہیں۔ ان کے دو نوعمر بھائی، 14 سالہ سلمان اور 15 سالہ ابراہیم، ایک مقامی ریستوران میں کام کر تے ہیں لیکن ان کی آمدن اتنی کم ہے کہ انہیں اپنا گھر چلانے کے لیے ہر ماہ ایک مقامی خیراتی ادارے سے پانچ ہزار روپے بطور امداد لینا پڑتے ہیں۔

برج کلے کی 65 سالہ خاتون لاجبرہ بی بی کے خاندان کو بھی اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے دو داماد، صدام حسین اور رحمان اللہ، اور دو بیٹے، اسلام نبی اور رحمت نبی، پچھلے ڈھائی سالوں میں ایک ایک کر کے موت کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ چاروں پرچاوی کے اسی کارخانے میں نوکری کرتے تھے جہاں کام کرتے کرتے راحت شاہ کا انتقال ہوا۔

لاجبرہ بی بی کا کہنا ہے کہ 2018 میں ان کے بیٹوں اور دامادوں کو معمولی سی مشقت سے بھی سانس چڑھنے لگی جس کے علاج کے لیے انہیں کئی بار مقامی بنیادی مرکزِ صحت میں لے جایا گیا۔ لیکن، ان کے مطابق، وہاں موجود ڈاکٹر انہیں صرف کھانسی اور سینے میں سوزش کی دوا دے کر گھر بھیج دیتے تھے جس سے ان کی صحت میں کوئی بہتری نہیں آتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ "آخر کار ہم نے ان کے ٹیسٹ کرائے جس سے پتہ چلا کہ ان کے پھیپھڑوں میں پتھروں کی گرد کی تہیں بن چکی ہیں"۔ 

لیکن بیماری کا پتہ چل جانے کے باوجود لاجبرہ بی بی کو نہ تو یہ معلوم تھا کہ اس کا علاج کہاں سے کرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس چاروں مریضوں کا معائنہ کسی ماہر ڈاکٹر سے کرانے کے لیے درکار مالی وسائل موجود تھے۔ نتیجتاً ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹوں اور دامادوں کی طبیعت دن بدن بگڑتی گئی اور آہستہ آہستہ ان کے لیے کام کاج کرنا تو کجا چلنا پھرنا بھی دوبھر ہو گیا۔ 

اس حالت میں ایک سال بسترِ علالت پر رہنے کے بعد 27 سالہ صدام حسین کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت سے ان کی بیوہ، بس بیگم، اپنے دو کم سن بیٹوں کے ساتھ انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کی موت کے بعد ان کے سسرال والوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا حالانکہ بچے پالنے کے لیے "میرے پاس ایک مرغی تک نہیں تھی جس کے انڈے بیچ کر میں گزارا کر سکوں"۔

ان کے بچے جب ان سے کسی چیز کی فرمائش کرتے ہیں تو وہ جھنجھلا کر انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیتی ہیں اور خود رونے لگتی ہیں۔ ان کی گزر بسر کا واحد ذریعہ مقامی لوگوں کی طرف سے ملنے والے صدقات اور خیرات ہیں۔
صدام حسین کی موت کے کچھ ماہ بعد بس بیگم کی بڑی بہن نور بیگم کے خاوند رحمان اللہ کی بھی موت ہو گئی۔ اس وقت ان کی عمر 39 برس تھی۔ 

نور بیگم کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے سسرال کے ساتھ رہتی ہیں لیکن ان کی آمدن کا واحد ذریعہ سات مرغیاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان سے ہونے والی آمدنی اس قدر قلیل ہے کہ انہیں ہر وقت گھر کے اخراجات پورے کرنے کی فکر رہتی ہے۔ وہ کپڑوں کی سلائی کا کام جانتی ہیں لیکن، ان کے بقول، "میرے پاس اتنی رقم نہیں کہ میں ایک سلائی مشین خرید سکوں"۔

لاجبرہ بی بی کے خاندان میں مرنے والے تیسرے شخص ان کے 30 سالہ بیٹے اسلام نبی تھے۔ ان کا انتقال جولائی 2020 میں ہوا۔ تین ماہ بعد ان کے 29 سالہ بھائی رحمت نبی بھی فوت ہو گئے۔ وہ دونوں اپنے پیچھے جواں سال بیوائیں اور تین تین چھوٹے بچے چھوڑ گئے ہیں جن کی پرورش اب ان کے بوڑھے والدین کے ذمے ہے۔ 

لاجبرہ بی بی اور ان کے 65 سالہ شوہر محمد شفیق کے پاس چار کنال اراضی ہے جس پر انہوں نے اپنا گھر بنا رکھا ہے اور چھوٹی موٹی فصلیں کاشت کی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر میں کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان بھی کھولی ہوئی ہے اور چند بکریاں بھی پال رکھی ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان تمام ذرائع سے ہونے والی ان کی مجموعی آمدن ان کے اخراجات سے بہت کم ہے۔

یہ فرق پورا کرنے کے لیے ہر ماہ ایک مقامی خیراتی ادارہ انہیں پانچ ہزار روپیہ فراہم کرتا ہے۔ 

اضافی اجرت، اضافی مصیبت

جنوری 2022 کے ایک سرد دن دو مزدور ضلع مہمند کے علاقے ڈھنڈ میں قائم پتھر پیسنے کے ایک کارخانے میں کام کر رہے ہیں۔ مشینوں سے اڑنے والی سفید گرد ان کے چاروں طرف گہری دھند کی طرح چھائی ہوئی ہے جس سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے منہ کے گرد کس کر کپڑا باندھ رکھا ہے۔ 

ان میں سے ایک قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والا 16 سالہ نسیم گل ہے۔ اس کے والد دوائی گل بھی اسی کارخانے میں کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پتھر سے پاوڈر بنانے کا کام بہت مشکل اور خطرناک ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس میں جتے ہوئے ہیں کیونکہ، ان کے مطابق، اس کی "اجرت دوسرے کاموں سے زیادہ ہے"۔ جہاں ایک عام مزدور کو دن بھر کام کرنے کا معاوضہ سات سو روپے ملتا ہے وہاں پتھر سے پاوڈر بنانے والا مزدور ایک دن میں 13 سو روپے تک کما لیتا ہے۔ 

تاہم دوائی گل کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور مزدور، شاہ ولی، کا کہنا ہے کہ اس اضافی اجرت کی قیمت ان مزدوروں کو صحت کی خرابی کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اپنی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلسل کھانسی اور سینے کی درد میں مبتلا رہتے ہیں جس سے نجات کے لیے انہیں روزانہ دوا کھانا پڑتی ہے۔

مہمند میں قائم پتھر سے پاوڈر بنانے والے کارخانوں کے مالکان کی تنظیم، کوارٹز فیکٹریز اونرز ایسوسی ایشن،  کے سابق سربراہ ناصر خان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں کام کرنے والے مزدوروں کی صحت کو سنگین خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق پچھلے 20 سالوں میں لگ بھگ ایک سو ایسے مزدور ہلاک ہو چکے ہیں جو ان کارخانوں میں کام کرتے تھے۔

لیکن پاکستان ورکرز فیڈریشن نامی مزدوروں کی تنظیم کے مرکزی کوآرڈی نیٹر شوکت علی انجم کہتے ہیں کہ "ہلاک شدہ مزدوروں کا ریکارڈ نہ تو کسی سرکاری محکمے کے پاس موجود ہے اور نہ ہی مزدوروں کی کسی انجمن نے ان کے بارے میں کوئی اعداوشمار اکٹھے کیے ہیں"۔ اس لیے انہیں خدشہ ہے کہ ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

احتیاط علاج سے بہتر

ناصر خان کہتے ہیں کہ مہمند میں پتھر پیسنے والے کارخانے اکیسویں صدی کے آغاز میں لگنے شروع ہوئے تھے۔ اِس وقت ضلعے میں مجموعی طور پر ایسے ایک سو سے زیادہ کارخانے موجود ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد مہمند کی تحصیل پنڈیالئی کے علاقے ڈھنڈ میں واقع ہے جبکہ کچھ یکہ غنڈ تحصیل میں بھی موجود ہیں۔ 

یکہ غنڈ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محمد افضل شنواری کا کہنا ہے کہ وہ کئی ایسے مریضوں کا معائنہ کر چکے ہیں جو اِن کارخانوں میں کام کرنے کی وجہ سے سانس اور سینے کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "پتھر پیسنے کے عمل میں جو گردوغبار اڑتا ہے وہ سانس کے ذریعے مزدوروں کے پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے جس سے ان میں شہد کی مکھیوں کے چھتے سے ملتے جلتے چھوٹے چھوٹے سوراخ بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً متاثرہ مزدور کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور اسے خشک کھانسی اور جسمانی درد جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔

اس بیماری کو طبی زبان میں سلی کوسز کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد افضل شنواری کے مطابق تاحال اس بیماری کا کوئی علاج موجود نہیں ہے لیکن پیشگی احتیاطی تدابیر کی بدولت اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "اگر مزدور چہرے پر مخصوص ماسک پہنیں، ناک اور منہ کو کپڑے سے اچھی طرح ڈھانپ کر رکھیں، کام کے دوران ناک اور منہ کو چھونے سے پرہیز کریں اور کام کے فوراً بعد نہا کر کپڑے تبدیل کر لیں تو وہ بڑی حد تک اس سے بچ سکتے ہیں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پتھر پیسنے والے کارخانوں میں موت پھانکتے مزدور: 'یہ کام ہم سب کو کھا گیا ہے'۔

لیکن شوکت علی انجم کا کہنا ہے کہ "کارخانہ دار نہ تو  مزدوروں کو کوئی حفاظتی سامان مہیا کرتے ہیں اور نہ ہی وہ کام کی وجہ سے بیمار پڑنے والے مزدوروں کا علاج معالجہ کراتے ہیں"۔ 

دوسری طرف یکہ غنڈ کے اسسٹنٹ کمشنر قیصر خان کا کہنا ہے کہ مہمند کی ضلعی انتظامیہ، محکمہ ماحولیات اور محکمہ صنعت نے ابھی تین ہفتے قبل ایسے کارخانوں کے خلاف کارروائی کی ہے جہاں گردوغبار پیدا ہوتا ہے لیکن مزدوروں کی حفاظت کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کارروائی میں 17 کارخانوں کو بند کیا گیا تھا لیکن، ان کے بقول، "بعد میں ان میں کام کرنے والے مزدوروں کے مطالبے پر انہیں دوبارہ کھولنا پڑا"۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کارخانوں کو آلودگی کا پھیلاؤ روکنے اور مزدوروں کی صحت و سلامتی یقینی بنانے کے اقدامات اٹھانے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے جس کے ختم ہونے کے بعد متعلقہ محکمے اور ضلعی انتظامیہ کارخانوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیں گے۔ ان کے مطابق "جو کارخانے اس جائزے میں متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث پائے جائیں گے ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی"۔

تاریخ اشاعت 11 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شاہ نواز ترکزئی خیبر پختونخوا کے ایک منجھے ہوئے صحافی ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.