ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا: خیبر پختونخوا میں صحت سہولت کارڈ مریضوں کے لیے کیسے تکلیف کا باعث بن گیا۔

postImg

وسیم سجاد

postImg

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا: خیبر پختونخوا میں صحت سہولت کارڈ مریضوں کے لیے کیسے تکلیف کا باعث بن گیا۔

وسیم سجاد

اورنگزیب خان کو اگست 2020 میں ایک ہی دن میں دو مرتبہ دل کا دورہ پڑا تو ان کے اہلِ خانہ انہیں پشاور کے ایک نجی ہسپتال میں لے گئے۔ وہاں موجود ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد تجویز کیا کہ ان کی جان بچانے کے لیے فوری طور پر ان کے دل کا بائی پاس آپریشن کرنا ضروری ہے۔ 

لیکن ان کے خاندان کے لیے اُس ہسپتال کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کا آپریشن حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے صحت سہولت کارڈ کے ذریعے کرایا جائے۔ لیکن جب اس مقصد کے لیے انہیں پشاور ہی کے ایک اور نجی ہسپتال لے جایا گیا تو انہیں پتہ چلا کہ کارڈ استعمال کر کے آپریشن کرانے کے لیے انہیں تین ماہ انتظار کرنا ہو گا جبکہ نقد رقم کی ادائیگی پر یہ کام تین دن میں ہو جائے گا۔ 

خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے ستر سالہ اورنگزیب کے بیٹے یاسر زیب کا کہنا ہے کہ اس دوران ان کے والد کی صحت تیزی سے بگڑ رہی تھی اور آپریشن میں مزید تاخیر ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی۔ لہٰذا انہوں نے "نقد رقم ادا کر کے ان کا آپریشن کرا لیا"۔ 

اس پر ان کے چار لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ یاسر زیب کے بقول "اس رقم کا انتظام کرنے کے لیے مجھے اپنی دو گائیں فروخت کرنا پڑیں"۔ 

خیبر پختونخوا میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ انتظام کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ نجی ہسپتالوں سے فوری علاج کرانے کے بجائے صحت سہولت کارڈ کے استعمال پر مجبور ہیں چاہے اس کے لیے انہیں مہینوں انتظار کیوں نہ کرنا پڑے۔

مفت علاج معالجے کے اس سرکاری پروگرام کے بارے میں لوگوں کو اور بھی بہت سی شکایتیں ہیں۔ ان میں سے سب سے عام شکایت یہ ہے کہ اس کے ذریعے فراہم کی جانے والی طبی سہولتیں غیرمعیاری ہوتی ہیں۔ پشاور کے ایک معروف نجی ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ماہر امراض چشم اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ "اس کے تحت آنکھوں کے مریضوں کو لگائے جانے والے لینز عام طور پر گھٹیا معیار کے ہوتے ہیں" جو ان کے لیے کئی طبی مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ 

خیبر پختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، نے بھی صحت سہولت کارڈ کے استعمال سے جنم لینے والے اسی طرح کے کئی مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ اس کے عہدیداروں نے اس سال جنوری میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کارڈ پر آپریشن کرانے کے لیے مریضوں کو نہ صرف طویل انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ انہیں دی جانے والی ادویات اور ان کی سرجری میں استعمال ہونے والے آلات بھی غیرمعیاری ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کارڈ کا استعمال کرنے والے مریضوں کو عام طور پر ناتجربہ کار ڈاکٹروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صوبائی ترجمان ڈاکٹر فیصل بارکزئی اس الزام کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں ایسے مریضوں کا علاج اور سرجری کرنے کی ذمہ داری جونیئر ڈاکٹروں کو اس لیے دے دی جاتی ہے کہ سینئر ڈاکٹروں کو اس پروگرام کے تحت ملنے والی فیس قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نجی ہسپتال پیسے بچانے کے لیے صحت سہولت کارڈ پر کی جانے والی سرجری میں سستے اور غیرمعیاری آلات استعمال کرتے ہیں جس سے مریضوں کو نہ صرف دورانِ سرجری شدید تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ بعد میں بھی انہیں کئی طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے پشاور کے ماہر امراض چشم کہتے ہیں کہ صحت سہولت کارڈ میں مختلف قسم کے آپریشن کرنے کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے اس میں یہ آپریشن ہو ہی نہیں سکتے۔ مثلاً، ان کے مطابق، "آنکھوں سے موتیا نکالنے کے لیے درکار فیکو سرجری کے لیے 16 ہزار آٹھ سو روپے رکھے گئے ہیں لیکن اس پر کم از کم 25 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں"۔ 

ڈاکٹر فیصل بارکزئی یہ بھی کہتے ہیں کہ نجی شعبے کے بعض ہسپتال اس سرکاری پروگرام سے ناجائز مالی فائدہ اٹھانے کے لیے غیر ضروری آپریشن بھی کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، ان کے بقول، "ایسی حاملہ خواتین کی بھی سیزیرین سرجری کر دی جاتی ہے جو ایک نارمل طریقے سے بچے کو جنم دے سکتی ہیں"۔ 

ایک شہری کی جانب سے 10 جنوری 2022 کو خیبر پختونخوا کے سیکرٹری صحت کو بھیجی گئی ایک درخواست میں بھی اس پروگرام میں پائی جانے والی اسی طرح کی بدعنوانی کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صوبے کے شمالی ضلع اپردیر کے ایک نجی ہسپتال نے ایک ماہ میں شرینگل کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے نو بچوں کا اپینڈکس کا آپریشن کر دیا ہے جو یا تو غیرضروری تھا یا پھر اسے محض کاغذوں میں ہی کیا گیا۔ اسی ہسپتال میں 2021 کے آخری چھ مہینوں میں مجموعی طور پر نو ہزار آپریشن کیے گئے۔ درخواست گزار کے خیال میں ان میں سے زیادہ تر غیر ضروری تھے۔ 

تاہم ان الزامات کے غلط یا صحیح ہونے کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس پر محکمانہ تفتیش کا عمل ابھی جاری ہے۔

حکومتی دعوے بمقابلہ عوامی شکایات

صحت سہولت کارڈ صحت انصاف پروگرام کا حصہ ہے جو خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے 2015 میں شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد ایسے شہریوں کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنا تھا جو مالی وسائل نہ ہونے کے باعث اچھے ہسپتالوں میں علاج نہیں کرا پاتے۔ اس وقت پورے صوبے کے 76 لاکھ چھ ہزار خاندان اس پروگرام سے استفادہ کرنے کے اہل ہیں۔

اس کے تحت علاج معالجے کو بنیادی، اعلیٰ اور اضافی درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بنیادی درجے کے تحت ہر مستحق خاندان مجموعی طور پر ایک سال میں دو لاکھ روپے مالیت کا مفت علاج کرا سکتا ہے جبکہ اس کے ہر فرد کے لیے علاج کے سالانہ اخراجات کی حد 40 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ اس درجے میں معمولی نوعیت کے حادثات، ہنگامی طبی مسائل، معمولی بیماریوں، عام سرجری، ہڈیوں کی بیماریوں، زچگی، اور آنکھ کان ناک اور گلے کے امراض کا علاج شامل ہے۔ 

دوسرے درجے میں ایک خاندان کو ہر سال چار لاکھ روپے کی مالیت کا مفت علاج کرانے کی سہولت حاصل ہے۔ ضرورت پڑنے پر خاندان کے کسی ایک شخص کے علاج پر بھی یہ تمام رقم خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس درجے میں بڑے حادثات، شدید ہنگامی طبی صورتحال، امراض قلب، ذیابیطس، کینسر، گردے اور مثانے کی بیماریوں (بشمول ڈائیلیسس)، دماغ کی سرجری اور چھاتی کے کینسر کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ اس میں مصنوعی اعضا کی مفت تبدیلی بھی کی جاتی ہے۔ 

آخری درجے کے تحت کوئی شخص بھی یکمشت چار لاکھ روپے مالیت کا علاج کروا سکتا ہے تاہم اس کے لئے اسے صحت انصاف پروگرام کے دفتر سے خصوصی اجازت لینا ہوتی ہے۔ اس درجے میں ہر قسم کے کینسر کا علاج کیا جاتا ہے، گردوں کی پیوند کاری کی جاتی ہے، شدید حادثوں کا شکار لوگوں کو درکار طبی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں علاج کا خرچہ دیا جاتا ہے۔

صحت سہولت کارڈ کے صوبائی انچارج ریاض تنولی کا دعویٰ ہے کہ اس پروگرام کے خلاف منفی تنقید حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ اسے بدنام کرنے کی سیاسی کوشش ہے۔ مریضوں کو غیر معیاری ادویات کی فراہمی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ، ان کے مطابق، اس کارڈ پر علاج کرنے والے ڈاکٹروں پر لازم ہے کہ وہ مریضوں کو صرف ایسی کمپنی کی دوا تجویز کریں گے جو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) سے منظورشدہ ہو۔ 

وہ اس شکایت کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ کارڈ کے استعمال سے صرف نجی شعبے کے ہسپتال فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کے بقول "اس پروگرام کی ابتدا میں 90 فیصد لوگ معیاری علاج کے لیے نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے تھے تاہم اب یہ شرح کم ہو کر 67 فیصد پر آ گئی ہے جس سے سرکاری ہسپتالوں پر لوگوں کے اعتماد میں اضافے کی عکاسی ہوتی ہے"۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت مختلف سہولیات کی موجودگی یا عدم موجودگی کی بنا پر صوبے کے درجنوں سرکاری اور نجی ہسپتالوں کی درجہ بندی کر دی گئی ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ انہیں کس قسم کا علاج معالجہ فراہم کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اعلیٰ ترین درجے میں نہیں آتا "اس لیے صوبے کے کسی ہسپتال سے بھی سو فیصد تسلی بخش علاج کی توقع نہیں رکھی جا سکتی"۔  

لیکن صحت سہولت کارڈ کے ناقدین کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت اس پر ہونے والی تنقید اور اس سے پیدا ہونے والی شکایات کا کوئی تدارک نہیں کرتی۔ ان کی نظر میں اس حکومتی رویے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس پروگرام پر کسی ایسے صوبائی قانون کی عمل داری نہیں جس کے تحت اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے لوگوں کا محاسبہ کیا جا سکے۔ ڈاکٹر فیصل بارکزئی کے الفاظ میں چونکہ یہ سارا پروگرام کسی قانون کے بغیر ہی چلایا جا رہا ہے اس لیے "اس کے غلط استعمال سے متاثر ہونے والے لوگ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی عدالت میں بھی نہیں جا سکتے"۔ 

ریاض تنولی تسلیم کرتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی ابھی تک صحت انصاف پروگرام کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ پروگرام کسی قانون کی منظوری کے بغیر بھی چلایا جا سکتا ہے کیونکہ، ان کے مطابق، "صوبائی حکومت عوامی مفاد میں کسی بھی وقت کوئی بھی منصوبہ شروع کر سکتی ہے جس کے لیے ضروری قانون سازی بعد میں کی جا سکتی ہے"۔ 

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صحت سہولت کارڈ استعمال کرانے والے 97 فیصد لوگ اپنے علاج معالجے سے مطمئن ہیں۔ ان کے مطابق یہ عوامی رائے ایک حکومتی ادارے، نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، کے ذریعے اکٹھی گئی ہے۔

تاہم پروگرام کے ناقدین اسی بنا پر اس دعوے کو درست تسلیم نہیں کرتے کہ اس رائے کا ماخذ کوئی غیرجانبدار فرد یا ادارہ نہیں بلکہ حکومت خود ہے۔

تاریخ اشاعت 26 اپریل 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وسیم سجاد پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور آرٹ، کلچر، گورننس اور انسانی حقوق پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.