سندھ کے ضلع دادو کی اونچی نیچی پہاڑیوں میں گھری تحصیل جوہی کے گاؤں عطا محمد رستمانی میں رہنے والا 13 سالہ صداقت علی پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے جس کا سکول حالیہ بارشوں میں تباہ ہو گیا ہے۔ جس کے باعث وہ آج کل سکول کے سامنے ایک چھپر تلے اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے۔
صداقت کے والد بصر الدین آبادگار اور پانچ ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں اور اسی زمین کی کاشتکاری سے اپنے خاندان کے لیے روزی کماتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر افسر بنے اور ان کی غربت خوشحالی میں تبدیل ہو۔
صداقت علی کا گھر سکول سے دو کلومیٹر دور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمارت کی مرمت تک یہ چھپر ہی ان کا سکول ہے۔
صداقت کی طرح دس سالہ بے نظیر بھی تحصیل جوہی کے گاؤں رشید جمالی کی ہی رہائشی ہیں اور پہلی جماعت کی طالبہ ہیں۔ ان کے والد رزاق جمالی دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ بے نظیر کا گاؤں تحصیل جوہی سے 20 کلومیٹر دور ہے۔ وہ اپنے گاؤں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر گرلز پرائمری سکول پریو جمالی میں پڑھنے کے لیے جاتی تھیں مگر بارشوں میں سکول کی عمارت کو نقصان پہنچنے کے بعد اب وہ لڑکوں کے سکول میں پڑھتی ہیں۔
بے نظیر کے ساتھ ان کے گاؤں کی 73 بچیاں گرلز پرائمری سکول بند ہونے کی وجہ سے اپنے تعلیمی مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔
دادو کا تعلقہ (تحصیل) جوہی ضلعے کا سب سے پسماندہ علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس کے بیشتر سکول حالیہ بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ تحصیل جوہی پہاڑی علاقے کاچھو کا حصہ ہے۔ کاچھو چھوٹے چھوٹے پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جن میں کھیر تھر رینج سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے۔ کاچھو ضلع قمبر شہداد کوٹ سے شروع ہو کر ضلع دادو کی تحصیل سیہون کے گاؤں باجارا تک پھیلا ہوا ہے۔
دادو کے باقی علاقے بئراجی حدود میں واقع ہیں جبکہ صرف جوہی تحصیل جو بلوچستان سے ملنے والی سندھ کی سرحد پر واقع ہے، اس پہاڑی سلسلے میں آتی ہے۔ کاچھو میں سب سے اونچی پہاڑی چوٹی گورکھ ہل سٹیشن ہے جسے سندھ کا کوہ مری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ہزار 734 میٹر بلند پہاڑی ہے جہاں پر گرمیوں میں بھی موسم سرد اور خوشگوار رہتا ہے۔
جوہی تعلقہ کی بیشتر آبادی قدیم برساتی ندی نالوں کی گذر گاہ میں رہتی ہے۔ مون سون میں پہاڑوں پر ہونے والی بارشیں ان گزر گاہوں میں پانی کے بڑے ریلے لاتی ہیں۔ یہ پانی اوپر سے اتنی تیزی سے آتا ہے کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا اور اس کی راہ میں آنے والی ہر چیز تباہ ہو جاتی ہے۔
ان میں سب سے بڑا نالا گاج ندی کے نام سے معروف ہے۔
بلوچستان کے علاقے خضدار سے نکلنے والی ندیاں تنگ، زیدی، کرخ اور کولاچی، کھیر تھر رینج میں آکر گاج ندی میں شامل ہو جاتی ہیں۔ گاج ندی جوہی تحصیل کے میدانی علاقوں سے ہوتی ہوئی منچھر جھیل میں آکر ختم ہوتی ہے۔ جوہی میں نری اور ٹکی بھی بڑی برساتی ندیاں ہیں جبکہ دیگر چھوٹی بڑی بہت سی ندیاں ان کے علاوہ ہیں۔
ندی نالوں میں آنے والی طغیانی کے نتیجے میں نہ صرف یہاں کچی سڑکیں بہہ جاتی ہیں بلکہ آبادیوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ تعلقے کی سڑکیں ویسے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہیں لیکن حالیہ بارشوں نے یہاں تباہی مچا دی ہے۔
بارہ سالہ صدام حسین ببر کا تعلق تحصیل جوہی کے گاؤں رانجھو ببر سے ہے۔ صدام پانچویں جماعت میں پڑھتے ہیں۔ ان کے والد عبدالرزاق کھیت مزدور ہیں۔کھیت سیلاب میں ڈوبے تو وہ بھی بے روز گار ہوگئے اور اب دیہاڑی پر چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں۔
صدام کے گاؤں کا سکول اساتذہ کی عدم تعیناتی کی وجہ سے پہلے ہی بند تھا۔ وہ گاؤں کے 34 بچوں کے ساتھ تین کلومیٹر دور جادم ببر کے سکول جاتے تھے کہ اب بارشوں اور سیلاب کے باعث نئے سکول کی عمارت بھی گر گئی لہذا بچے درخت کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جوہی تعلقہ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے کل 398 سکول ہیں جن میں زیرِتعلیم بچوں کی تعداد ساڑھے 26 ہزار ہے۔
حالیہ بارشوں کی وجہ سے جوہی تعلقہ کی متعدد یونین کونسلوں بشمول ساوڑو، یوسی ڈرگھ بالا، یوسی چھنی، یوسی ٹنڈو رحیم خان اور ملحقہ علاقوں میں 15 سے زیادہ سکولوں کی عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔
تعلقہ کے ایجوکیشن آفیسر منظور سمیجو کے مطابق یونین کونسل ساوڑو میں گوٹھ بہاول ببر، گوٹھ جام ببر، گولو فقیر، ساوڑو، چھڈی رستمانی، میہوں چانڈیو، میہوں جمالی، عزیز اللہ جمالی، گوٹھ پٹ سلیمان، ولی محمد لونڈ، جادو طالبانی اور عبداللہ رودنانی کے سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں تاحال بند ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف گوٹھ راضی رودنانی، مولوی نور محمد، گوٹھ عیسیٰ پنھور، گوٹھ نندو جمالی، گوٹھ بلو جمالی اور گوٹھ عرس جمالی میں عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سے طالب علم درختوں کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
دوسری طرف یونین کونسل ڈرگھ بالا میں بند پڑے سکولوں کی تعداد 15 ہے جن میں گوٹھ چاکر کوٹ، گوٹھ حیات چانڈیو، گوٹھ سیوو جمالی، گوٹھ غزیانی لونڈ، گوٹھ بری لغاری اور شکلانی لونڈ کے سکول شامل ہیں۔
منظور سمیجو کے بقول متاثرہ سکولوں کے بچوں کی تعداد چار ہزار 300 ہے۔ "سکولوں کی تعمیر نو میں ابھی وقت لگے گا۔ اس لیے ہم نے مقامی لوگوں کی مدد سے چھپر وغیرہ ڈال کر یا درختوں کے نیچے بچوں کی تعلیم دوبارہ شروع کر دی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
سکول پہنچنے کے لئے تحصیل گنداخہ کے بچوں کو روزانہ کھڑے سیلابی پانی میں سے گزر کر آنا پڑتا ہے
وہ کہتے ہیں کہ بہت سارے تحصیل کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں اور پکے راستے بہہ گئے ہیں جس کے باعث اساتذہ کی سکولوں تک رسائی مشکل ہے مگر جہاں تک اساتذہ پہنچ سکتے ہیں وہاں تعلیمی عمل کو بحال کروا دیا گیا ہے۔ بعض سکولوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا ہے لیکن بچوں کے لیے طویل فاصلے طے کرنا مشکل ہے۔
اُدھر سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن دادو کے عہدیدار راجیش کمار ہیرانی کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران اور اس کے بعد راستے کھلنے تک فاونڈیشن کے سکولوں میں تعلیمی عمل معطل رہا مگر سکول زیادہ متاثر نہیں ہوئے اس لیے تعلیمی عمل دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
کاچھو میں تعلیمی بہتری کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ولیج شاد آباد تحصیل جوھی میں سندہ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تعاون سے 10 سکول چلا رہی ہے۔
شاد آباد کے ترجمان اکبر لاشاری کا کہنا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کے باعث تدریسی عمل کچھ عرصے کے لیے متاثر ہوا تھا مگر اب ان کے زیر انتظام تمام سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں۔ تاہم سرکاری سکولوں کی عمارتیں گر جانے کے بعد ان کی مرمت کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔
بعض سماجی تنظیموں نے عارضی سکولوں کا بندوبست کیا ہے مگر یہ اس مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہے۔
تحصیل ہیڈکوارٹر جوہی سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع گاؤں گوٹھ پٹ سلیمان کی آبادی 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس گاؤں میں صرف ایک پرائمری سکول ہے جو اساتذہ کی غیر موجودگی کے باعث بند پڑا ہے۔
گاؤں کے سابقہ کونسلر محمد علی رودنانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بارہا محکمہ تعلیم کے حکام سے سکول میں اساتذہ بھرتی کرنے کی درخواست کی ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ بارشیں جہاں ان کی زندگی میں دیگر بہت سی مشکلات لائی ہیں وہیں ان کے باعث بچوں کی تعلیم کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔
تاریخ اشاعت 8 جنوری 2023