کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

postImg

خالدہ نیاز

postImg

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

خالدہ نیاز

خیبر پختونخوا کے ضم شدہ  اضلاع میں "سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام" کی منظوری دے دی گئی ہے۔ جس کے تحت سکولوں سے باہر بچوں کو سرکاری خرچ پر پڑھایا جائے گا۔ مگر بہت سے لوگ اس پروگرام کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار ہیں۔

پروگرام کے مطابق جس علاقے میں کوئی بھی سرکاری یا نجی سکول موجود نہیں ہے وہاں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام کے تحت سکول قائم کیے جائیں گے۔ ابتدائی مرحلے میں ساتوں قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند، خیبر ، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں 25 سکول بنائے جائیں گے۔ انفرادی طور پر بھی سکول قائم کیے جا سکتے ہیں۔

ایم ڈی قبائلی اضلاع ایجوکیشن فاونڈیشن عبدالکرم نے لوک سجاگ کو بتایا  سکولوں میں طلبہ کا انتخاب کرنے کا اختیار ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے زیر قیادت بننے والی کمیٹیوں کو ہو گا جنہیں باقاعدہ گائیڈ لائنز جاری کردی گئی ہیں۔ وہ علاقے جہاں کوئی سرکاری یا نجی سکول نہ ہو وہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان کو ایک لاکھ روپے تک گرانٹ دی جائے گی تاکہ وہ سکول کھولیں۔

بچوں کی فیس حکومت ادا کرے گی۔ پرائمری تک فی بچہ ایک ہزار روپے، سیکنڈری کے لیے 15سو  اور مڈل کے طلبا کی فیس کی مد میں دو ہزارروپے ادا کیے جائیں گے۔

ٹرائبل یوتھ موومنٹ کے سینئر نائب صدر مصباح الدین اتمانی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سابق حکومت نے اس سے پہلے بھی کئی پروگرام شروع کیے تھے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

مثال کے طور پر تحریک انصاف نے قبائلی اضلاع کے سکولوں میں سیکنڈ شفٹ پروگرام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت کنٹریکٹ پر اساتذہ کو  بھرتی کیا گیا، ان اساتذہ نے نو ماہ تک کام کیا اور انہیں بروقت تنخواہیں بھی دی گئیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ٹیچر بہتر روزگار اپناتے گئے اور سکول بند ہو گئے تو پروگرام فلاپ ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے داخلہ مہم والا منصوبے کے بھی خاظر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

"ایسے منصوبے صرف میڈیا اور سوشل میڈیا تک محدود ہوتے ہیں عملی طور پر اس کا قبائلی بچوں کو کوئی فائدہ نہیں ملتا کیونکہ ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی طریقہ کار ہی موجود نہیں ہوتا"۔

مصباح الدین اتمانی نے مزید بتایا کہ ضم شدہ اضلاع میں تعلیم کی صورتحال بدترین ہے، وہاں موجود مسائل کے حل میں نہ تو حکومت سنجیدہ ہے نہ محکمہ تعلیم اور نہ باقی متعلقہ ادارے۔

منصوبہ کب شروع ہو گا؟

ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ جاوید اقبال نے  لوک سجاگ کو بتایا کہ اس منصوبے پر پچھلے سال اکتوبر سے کام شروع ہو گیا ہے۔ اس کے لیے تین کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جن میں ڈسٹرکٹ سکروٹنی کمیٹی، سنٹرل سکروٹنی اینڈ ایوالوایشن کمیٹی اور سلیکشن کمیٹی شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ سکروٹنی کمیٹی کا کام قبائلی اضلاع میں ایسے علاقوں کی نشاندہی کرنا ہے جہاں پر دو  کلومیٹر میں کوئی سرکاری یا پرائیویٹ سکول موجود نہ ہو۔ کمیٹی نے آدھا کام مکمل کیا ہے تاہم ابھی تک رپورٹ نہیں بھیجی۔

انہوں نے کہا کہ جب ڈسٹرکٹ سکروٹنی کمیٹی رپورٹ بھیجے گی اس کے بعد متعلقہ علاقوں کے امیداواروں کو درخواست دینے کے لیے اشتہار دیا جائے گا۔ درخواستیں ملنے کے بعد باقی دونوں کمیٹیاں اس کی جانچ پڑتال کریں گی اور 25 سکولوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
"ہم اپریل میں کلاسز شروع کرنا چاہ رہے تھے لیکن کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے"۔

پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس کی 2021 کی رپورٹ ’’دی میسنگ تھرڈ‘‘ کے مطابق خیبر پختونخوا میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی کل تعداد  ایک کروڑ 17 لاکھ 98 ہزار ہے۔ جن میں سے 30 لاکھ سے زائد یعنی 32 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔

خیبرپختونخوا ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی کی سالانہ رپورٹ 2021-22 کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع کے سرکاری پرائمری سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد ایک لاکھ 89 ہزار 315 تھی جو مڈل سکولوں تک جاتے جاتے صرف 9 ہزار 943 رہ گئی یعنی 95 فیصد لڑکیاں  سرکاری سکولوں سے ڈراپ آؤٹ ہو گئیں۔

مصباح الدین اتمانی نے بتایا کہ پہلے کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھنے والے قبائلی اضلاع کے طلباء کو سالانہ چھ ہزار روپے سکالر شپ دیا جاتا تھا جو اب نہیں ملتا۔

"پنجاب کے مخلتف کالجز میں قبائلی اضلاع کے پندرہ سو سے زائد طالبعلم تعلیم حاصل کررہے تھے، فاٹا انضمام کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ ان سیٹوں کو ڈبل کر دیا جائے گا لیکن فاٹا انضمام کے بعد کچھ تعلیمی اداروں میں یا تو کوٹہ ختم کر دیا گیا یا سیٹس کم کر دی گئی"۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ایک پروگرام کے ذریعے قبائلی اضلاع کے سو طلباء کو ایٹا ٹیسٹ  کے ذریعے منتخب کیا جاتا تھا اور ان کو ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھنے کا موقع ملتا تھا لیکن بدقسمتی سے اب وہ سیٹیں بھی 25 کر دی گئی ہے۔

منصوبوں کا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا

ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نوشین فاطمہ نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سباون سکولز انشی ایٹو اگرچہ ایک اچھا اقدام ہے تاہم قبائلی اضلاع کے لیے جب بھی کوئی منصوبہ بنتا ہے تو وہ اسلام آباد کے بند کمروں میں بنایا جاتا ہے۔ اسی لیے وہ چند مہینوں شہہ سرخیوں میں رہنے کے بعد ناکام ہو جاتا ہے۔

پالیسی سازی میں وہ لوگ شامل ہیں جو قبائلی اضلاع کی ثقافت، مسائل، روایات اور حالات سے واقف نہیں ہوتے۔ سرکاری منصوبوں کا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا نہ ہی کسی سے پوچھ گچھ ہوتی۔ کئی منصوبے آئے اور ختم ہو گئے لیکن کوئی خاطر خواہ  نتیجہ نہیں نکلا۔ فنڈز کا آڈٹ تک نہیں کیا جاتا۔

خیبر پختونخوا کی حکومت نے مالی سال 2022ء میں 172 جاری اور 39 نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 24.6 ارب روپے مختص کیے تھے جس میں سے پرائمری تعلیم کے لیے 4.3 ارب روپے، ثانوی تعلیم کے لیے 12.1 ارب روپے، ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے لیے 1.2 ارب روپے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 7.0 ارب روپے رکھے گئے تھے۔

نوشین کہتی ہیں کہ سباون سکولز انشی ایٹو میں بچوں کو فیس کے پیسے دیے جائیں گے، اس سے کیا فرق پڑے گا؟

سرکاری سکولوں میں تو پہلے ہی سے فیس نہیں لی جاتی لیکن پھر بھی بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اگر صرف اورکزئی کی بات کی جائے تو وہاں لڑکوں کے لئے سکول ہی نہیں ہے، لڑکیوں کے سکول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

خیبر پختونخوا ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق کے پی کے نئے ضم شدہ اضلاع میں غیر فعال سکولوں کی تعداد 194 ہے، جن میں سے لڑکیوں کے سکولوں کی تعداد 137 ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ننگر پارکر کے ہائر سیکنڈری سکول، جہاں پرائمری اور ایلیمنٹری اساتذہ انٹر کی کلاسیں پڑھاتے ہیں

نوشین کہتی ہیں کہ آپ سرکاری اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں گے تو کاغذوں میں سکول شاید مل جائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیرستان، اورکزئی اور دیگر پسماندہ علاقوں میں سکولز نہیں ہیں، جو موجود ہیں ان میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

"ایسا نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ بچیوں کو پڑھانا نہیں چاہتے لیکن جب وہاں سکول ہی نہیں ہیں تو وہ کیسے پڑھائیں گے۔ اس پراجیکٹ کے تحت انفرادی طور پر سکول سسٹم کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ وہ لوگ جنہیں سالوں دہشت گردی نے سانس نہیں لینے دیا  اور دو وقت کی روٹی سے عاجز ہیں،  وہ نئے سکول سسٹم کہاں سے لائیں گے"۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف سکولز بنانے سے بھی کام نہیں ہو گا، ان سکولوں کو سہولیات دینے اور اساتذہ کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت ہے، چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے، تعلیمی اصلاحات اور  لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب  آسان نہیں ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔

عبدالکرم کہتے ہیں کہ  پہلے والے منصوبوں کی ناکامی کی جو بھی وجوہ رہی ہوں، وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے، البتہ اس پروگرام کو کامیاب بنانا ان کی ذمہ داری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس پروگرام سے نہ صرف چار ہزار سے زائد طلبہ و طالبات کو مفت تعلیم کرنے کا موقع ملے گا بلکہ  100 نوجوانوں کو روزگار بھی میسر آئے گا۔

تاریخ اشاعت 27 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

خالدہ نیاز کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے، وہ خواتین، مذہبی آزادی، بچوں کے حقوق اور موسمیاتی تبدیلی کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.