ضلع نوشہرہ کی رہائشی، زینت کی عمر 52 برس ہے۔کچھ عرصے سے وہ سانس کی تکلیف میں مبتلا تھیں لیکن اب ان کے ایک پھیپھڑے نے مکمل طور پر کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ پچھلے دو ماہ سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ زینت بتاتی ہیں، کہ ان کے گھر میں لکڑیاں جلا کر کھانا بنایا جاتا ہے، لیکن لکڑیوں کا دھواں ہمیشہ ان کی تکلیف میں اضافے کا سبب بنتا تھا۔
’’مسلسل کھانسی کی شکایت کی وجہ سے میں منہ پر کپڑا لپیٹ کر کھانا بناتی تھی لیکن مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ دھواں اندر ہی اندر مجھے کھا رہا تھا۔"
قبائلی اضلاع میں خواتین کی مشکلات کہیں زیادہ ہیں کیونکہ پہلے تو وہ پہاڑوں سے لکڑیاں چن کر لاتی ہیں اور پھر انہیں جلا کر کھانا بناتی ہیں۔
اسی طرح ضلع خیبر لنڈی کوتل کی 53 سالہ گل پری پھیپھڑوں کے ایک دائمی مرض، ’’کرانک آبسٹریکٹو پلمونری‘‘ کا شکار ہیں۔ وہ بتاتی ہیں انہوں نے زندگی بھر گھر میں کھانا لکڑیاں جلا کر بنایا ہے ، لیکن کچھ عرصے سے انہیں خشک کھانسی کی شکایت تھی۔
کسی دوا سے جب انہیں آرام نہیں آیا تو مزید ٹیسٹ کرنے پر معلوم ہوا وہ پھیپھڑوں کے اس خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا، ان کے علاقے میں گیس کی سہولت موجود نہیں ہے اسی لئے گھروں میں خواتین گوبر اور لکڑیاں جلا کر کھانا بناتی ہیں۔
"کافی عرصہ پہلےڈاکٹر نے مجھے آگ اور دھویں سے پرہیز کا کہا تھا لیکن یہ ممکن نہیں تھا ،میرے چار بیٹے ہیں اور بیٹی نہیں ہے اگر میں کھانا نہیں بنائوں گی تو کون بنائے گا؟"
پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق ضلع خیبر میں 91.25 فیصد گھرانے لکڑیاں جلا کر کھانا بناتے ہیں، جبکہ محض 6.20 فیصد گھروں میں گیس کی سہولت موجود ہے۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی پلومونولوجسٹ ڈاکٹر سعدیہ اشرف نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، فضائی آلودگی انسانی صحت پر بہت زیادہ منفی اثرات ڈالتی ہے۔ خواتین انڈرو ائیر پولوشن( گھروں کے اندر فضائی آلودگی) سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
’’دیہی علاقوں میں آج بھی خواتین کھانا بنانے کے لیے لکڑی، کوئلہ اور گوبرکے اپلے بطور ایندھن استعمال کرتی ہیں۔ ان کے دھویں سے نکلنے والے مضر پارٹیکلز جلد، آنکھوں اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ آگ جلانے کے دوران کچھ چھوٹے ذرات سانس کی نالی کے ذریعے خون میں شامل ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خواتین کارڈیو ماسکولر ڈزیزز، سٹروک، لنگز، کینسر اور شوگر کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو رہی ہیں۔"
دیہی علاقوں میں تو گیس کی سہولت ہی دستیاب نہیں ہے جبکہ شہری علاقوں میں گیس کے میٹر تو موجود ہیں لیکن وہاں بھی گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث لوگ ایل پی جی یا لکڑیاں جلانے پر مجبور ہیں۔
نوشہرہ کی 42 سالہ رخسانہ جس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں وہاں کی نوے فیصد خواتین گوبر اور لکڑیاں جلا کرکھانا بناتی ہیں۔ رخسانہ بتاتی ہیں علاقے میں گیس کنکشنز تو کئی سالوں سے آئے ہیں لیکن اس میں گیس نہیں آتی۔امیر لوگ سلنڈر کی گیس استعمال کر لیتے ہیں لیکن ہم جیسے غریب لوگ غربت اور مہنگائی کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے اس لئے ہمیں آگ جلانے کے لیے لکڑی اور گوبر پر پہ اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن سردیوں میں خشک ایندھن کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
رخسانہ بتاتی ہیں، ان کا زیادہ تر وقت کچن میں گزرتا ہے۔ دھوئیں کی وجہ سے ان کی جلد بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے۔
"میں تو اب آئینہ بھی نہیں دیکھتی کیونکہ میری جلد بہت خراب ہو چکی ہے ڈاکٹر نے اس کا علاج دھویں سے پرہیز بتایا تھا لیکن اسے بچنا میرے لیے ممکن نہیں۔"
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے تحت سال 2020ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ترقی پذیر ممالک میں تقریبا تین ارب لوگ توانائی کے حصول کے لئے آلودگی پھیلانے والے ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں۔ آلودگی کا سبب بننے والے یہ ذرائع دنیا بھر میں سالانہ 40 لاکھ اموات کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں کے 94 فیصد گھرانے کھانا پکانے اور گرم کرنے کے لیے ٹھوس بایوماس استعمال کر رہے ہیں۔ کھانا بنانا چونکہ خواتین کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے اسی لئے وہ اس خطرناک آلودگی سے براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔
پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا پاکستان کی بانی ڈاکٹر صائمہ عابد نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں 40 فیصد بچے مناسب انداز میں نشوونما نہیں حاصل کر پاتے اور چولہوں سے خارج ہونے والے آلودہ دھواں اس بیماری کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔
’’بہتر یہی ہے کہ خواتین کھانا پکانے کے لیے گیس کے چولہے استعمال کریں، اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو کچن میں کھانا بناتے وقت ماسک کا استعمال ضرور کریں۔"
ڈاکٹر عادل ظریف میڈیکل کے شعبے سے وابستہ اور ایک میڈیکل کالج میں پڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر عادل ظریف نے بتایا کہ فضائی آلودگی دو اقسام کی ہوتی ہے: ایک انڈور پلوشن جبکہ دوسری آؤٹ ڈور پلوشن۔ گھروں میں کھانا بنانے کیلئے لکڑی اور کیروسین آئل کا استعمال بہت خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس سے کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتے ہیں اور یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ گیسز ہیں۔
ڈاکٹر عادل ظریف نے بتایا کہ یہ ساری گیسز شریانوں کے ذریعے یا سانس کی نالی کے ذریعے جسم میں داخل ہوتی ہیں جس سے دماغ، سینے اور پھیپڑوں کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
نہ ڈاکٹر نہ دوائیں: کشمور میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال مریضوں کے لیے زحمت بن گیا
خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے ترجمان سجاد خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی اور ایمرجنسی میں 7 ہزار تک مریض آتے ہیں۔ ان مریضوں میں چار سو تک سانس کی بیماریوں والے مریض شامل ہوتے ہیں۔ ان مریضوں میں 40 فیصد بچے جبکہ 30 فیصد خواتین اور 30 فیصد مرد شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح 200 تک مریض جلد کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں 60 فیصد خواتین جبکہ 40 فیصد مرد شامل ہوتے ہیں۔
سماجی کارکن شفیق گگیانی پشاور کلین ایئر الائنس تنظیم کے بانی ہیں۔ وہ کہتے ہیں پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں میں سانس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔گھروں میں بطور ایندھن لکڑیوں کا استعمال خواتین کی صحت کا بڑا دشمن ہے۔ جبکہ دوسری جانب سے یہ فضا کو بھی آلودہ کرتا ہے۔
دنیا اب گھریلو توانائی کے لئے چولہوں کو الیکٹریفائی کر رہی ہے لیکن پاکستان میں جب بجلی اور گیس مہنگی بھی ہے اور کم بھی ہے تو ایسی صورت میں ہمیں مل کر توانائی کے متبادل ذرائع کے بارے میں سوچنا ہوگا۔جیسا کہ بائیو گیس مختلف قسم کی خوراک کے ذخیرے کے ذریعے سے تیار کی جا سکتی ہے جس میں جانوروں کا فضلہ، زرعی فضلہ، گندے پانی کا کیچڑ اور نامیاتی فضلے پر مشتمل زمین کی بھرائی شامل ہیں۔
اگر پیداواری جگہوں سے پائپ لائنیں بچھا لی جائیں تو بائیو گیس گھروں میں توانائی کی فراہمی اور کھانا پکانے کے لیے قدرتی گیس کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہ ایندھن گرین ہاؤس گیسوں کےاخراج کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
تاریخ اشاعت 1 جون 2024