نئی حلقہ بندیوں میں کچھ دیگر اضلاع کی طرح ضلع راولپنڈی بھی ایک صوبائی نشست سے محروم ہو گیا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر تحریک انصاف بطور پارٹی اور سیاسی کارکن انفرادی سطح پر تنقید کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی جانب سے اس اقدام کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
سابقہ حلقہ بندیوں کے وقت ضلع راولپنڈی(بشمول تحصیل مری) کی آبادی 54 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں یہاں سات قومی اور 15 صوبائی حلقے بنائے گئے تھے۔ قومی حلقوں کے سیریل نمبر این اے 57 سے این اے 63 تک تھے جبکہ صوبائی حلقے پی پی 6 سے شروع ہو کر پی پی 20 پر ختم ہوتے تھے۔
حالیہ مردم شماری میں ضلع راولپنڈی کی آبادی(بشمول مری) 61 لاکھ 18 ہزار 911 گنی گئی۔ مری کو ضلعے کا درجہ ملنے کے باعث اب ضلع راولپنڈی (مری کے بغیر) کی آبادی 57 لاکھ 45 ہزار 964 بنتی ہے جبکہ مری کی آبادی 3 لاکھ 72 ہزار 947 ہے۔
الیکشن کمیشن ابتدائی رپورٹ کے مطابق آبادی اور کوٹے کو مد نظر رکھتے ہوئے فارمولے کے تحت مری کو الگ قومی نشست نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے دونوں اضلاع یعنی مری اور راولپنڈی کر کلب کر (جوڑ دیا) دیا گیا ہے اور دونوں اضلاع کی مجموعی سات قومی نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں۔ ان کے نئے نمبر این اے 51 سے این اے 57 تک ہیں۔
اب ضلع مری کے ساتھ ضلع راولپنڈی کی تحصیلوں کہوٹہ اور کلر سیداں کو شامل کر کے قومی حلقہ این اے 51 مری کم راولپنڈی بنا دیا گیا ہے۔ 2018ء میں مری کے اس حلقے سے صداقت علی عباسی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔ ان کے مد مقابل ن لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہار گئے تھے۔
نئی ابتدائی حلقہ بندیوں میں ضلع مری کو الگ صوبائی حلقہ (اس کا سیریل نمبر پی پی 6 برقرار ہے) ڈیکلئر کر دیا گیا ہے۔ اس نشست سے تحریک انصاف کے محمد لطاسب ستی کامیاب ہوئے تھے جبکہ ن لیگ کے راجہ اشفاق سرور ہار گئے تھے۔
ضلع راولپنڈی کی اب صوبائی نشستیں 13 رہ گئی ہیں۔الیکشن کمیشن کے فارمولے کے تحت ضلع راولپنڈی کی آبادی پر اس ضلعے کا حصہ 13.36 نشستیں بنتا تھا۔ تاہم 0.36 کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اب یہ صوبائی حلقے پی پی 7 سے شروع ہو کر پی پی 19 پر ختم ہو جاتے ہیں۔
ضلع کے صوبائی حلقوں کی نئی حد بندی میں کئی پٹوار سرکلز اور قانونگوئی حلقے ادھر ادھر کر دیئے گئے ہیں۔ تحلیل ہونے والے حلقے کی آبادیوں کو متصل حلقوں میں شامل کر دیا گیا ہے اور شہر کے حلقوں کی آبادی حصے کے مطابق بڑھا دی گئی ہے۔
ایک اور پیشرفت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کی کچھ آبادیاں چکری والے حلقے پی پی 10 اور ٹیکسلا والے پی پی 18 (پرانا پی پی 19) کے ساتھ شامل کر دی گئی ہیں۔
نئے منظر نامے میں ضلع مری سے حلقہ بندی پر کوئی اعتراض الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر نہیں آیا۔ تاہم ضلع راولپنڈی کے حلقوں سے متعلق اعتراضات پر مبنی کل 29 درخواستیں الیکشن کمیش میں جمع کرائی گئی ہیں۔
ان درخواستوں میں راولپنڈی کے مختلف صوبائی حلقوں سے اِکّا دُکّا آبادی نکالنے اور دوسری آبادی ان میں شامل کرنے سے متعلق ہیں۔ لیکن بظاہر کسی معروف سیاسی رہنما یا پارٹی کی طرف سے کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا۔
البتہ ایک درخواست کرنل یوسف ستی کے صاحبزادے اظہر اقبال ستی کی طرف سے جمع کرائی گئی ہے جس میں پانچ صوبائی حلقوں پی پی 11 سے پی پی 14 اور پی پی 16 میں رد و بدل کی تجاویز دی گئی ہیں۔
تحریک انصاف نے نئی حلقہ بندی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی مطمئن دکھائی دیتی ہیں۔
پیپلزپارٹی کی امیدوار مہرین انور راجہ کا کہنا ہے کہ مری کے حلقہ کو الگ کرنے سے علاقوں کی تقسیم میں خاص فرق نہیں آیا بلکہ وہ تمام علاقے جو 2018ءمیں غلط تقسیم کئے گئے تھے ان کو واپس جوڑ دیا گیا ہےجس سے پیپلزپارٹی کو فائدہ ہو گا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال چوہدری نے راولپنڈی کے قومی حلقوں کی تقسیم پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حلقوں میں تھوڑا بہت رد و بدل ہوا ہے لیکن اس سے بھی فائدہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ہو گا۔
تحریک انصاف شمالی پنجاب کی ترجمان عنبرین ترک بتاتی ہیں کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے مردم شماری کے نتائج کو تسلیم کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔ مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی چھ نشستیں کم کرنا پہلی ناانصافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پشاور میں ایک صوبائی نشست کم ہونے سے حلقوں میں تبدیلیاں، کس کا حلقہ ختم ہو گیا؟
وہ کہتی ہیں کہ راولپنڈی میں بھی مردم شماری کے بعد مناسب تعداد میں سیٹوں کو بڑھانے کی بحائے غیر ضروری اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے۔ یہ مساوی حق رائے دہی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام راولپنڈی کے ترجمان حافظ ضیاء اللہ نے بھی نئی حلقہ بندی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بعض حلقوں میں کافی گڑ بڑ چل رہی ہے۔ انہیں ان حلقہ بندیوں پر تشویش ہے۔
"لوگوں کو آگے پیچھے پھینکا جا رہا ہے الیکشن کمیشن کے اقدامات پر ہمیں بہت زیادہ اعتراضات ہیں۔ ہم اپنے وکلاء کے ساتھ قانونی مشاورت کر رہے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ راولپنڈی کا حلقہ پی پی 11 یکسر بدل دیا گیا ہے۔ تمام پرانی یونین کونسلز کو اس حلقے سے نکال دیا گیا ہے جبکہ راولپنڈی کے ایک صوبائی حلقہ کو پہلے ہی کم کیا جا چکا ہے۔
"آبادی بڑھی ہے لیکن حلقے کم کر دیئے گئے ہیں یہ یہاں کے عوام سے نا انصافی ہے"۔
تاریخ اشاعت 16 نومبر 2023