خوشحال خان خٹک ایکسپریس 16 ستمبر 2018 کو معمول کے مطابق کراچی سے پشاور کے لیے روانہ ہوئی۔ کئی گھنٹے بعد جب یہ ریل گاڑی پنجاب کے شمالی ضلعے اٹک سے گزر رہی تھی تو اس کے نو ڈبے پٹڑی سے اتر گئے جس سے 20 کے قریب مسافر شدید زخمی ہوگئے۔
جب اس حادثے کی تصاویر نیوز میڈیا پر نشر ہوئیں تو اس وقت کے وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہو گا۔ لیکن محض 11 دن بعد اسی ریل گاڑی کے 13 ڈبے مغربی سندھ کے علاقے سیہون کے قریب پٹری سے اتر گئے۔ جبکہ اگلے ہی ماہ یہی گاڑی شمالی سندھ کے علاقے کندھ کوٹ میں ایک پھاٹک پر رکشے سے ٹکرا گئی جس سے دو خواتین اور پانچ بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔
یکے بعد دیگرے ہونے والے ان واقعات سے پہلے بھی خوشحال خان خٹک ایکسپریس متعدد خطرناک حادثات کا سبب بن چکی تھی۔ 2017 میں سیہون کے قریب اس کے دو ڈبوں میں آگ لگ گئی جس سے گیارہ مسافر زخمی ہوگئے۔ اسی طرح 2013 میں اسی علاقے میں اس کا ایک رکشے سے تصادم ہو گیا جس میں رکشا ڈرائیور، ایک مکینک اور چھ طلبا ہلاک ہوگئے۔
ان حادثات کے باوجود ریلوے انتظامیہ نے نہ تو کبھی اس گاڑی کی اچھی طرح جانچ کی ہے اور نہ ہی اسے کبھی بند کیا ہے۔ اس کے برعکس چند ملازمین پر ذمہ داری ڈال کر ہر حادثے کی اصل وجوہات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال اٹک میں ہونے والے حادثے کے بعد دیکھنے میں آئی جب وزیرِ ریلوے نے فوری طور پر پشاور میں تعینات ریلوے کے ڈپٹی اور اسسٹنٹ مکینیکل انجینیروں کو حادثے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں معطل کر دیا۔ لیکن بعد ازاں محکمانہ تحقیقات سے پتہ چلا کہ حادثہ دراصل تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آیا تھا جس کے ذمہ دار گاڑی کے ڈرائیور اور گارڈ تھے۔
'حادثہ ایک دم نہیں ہوتا'
نذیر احمد اعوان ٹرین ڈرائیورز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے 1974 میں انجن کی صفائی کرنے والے اہل کار کے طور پر ریلوے میں ملازمت اختیار کی اور آہستہ آہستہ اسسٹنٹ ڈرائیور اور پھر مکمل ڈرائیور بن گئے۔ اپنی 41 سالہ ملازمت میں انہوں نے پاکستان کے طول و عرض میں تمام پٹڑیوں پر ریل گاڑی چلائی ہے۔
ان کے نزدیک ریل حادثات کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان ریلوے مختلف گاڑیوں کے لیے مختلف ملکوں میں اور مختلف ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے انجن استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے "ریلوے ڈرائیوروں کو ہر بار ایک مختلف انجن چلانا پڑتا ہے لہٰذا وہ کبھی بھی اپنے کام میں مکمل مہارت حاصل نہیں کر پاتے"۔
وہ اس گجنلک صورتِ حال کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انجنوں کی خریداری کرتے وقت حکومتی اہل کاروں کی ترجیحات انجن کی ٹیکنالوجی پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ ان کی بنیاد یا تو ذاتی پسند نا پسند ہوتی ہے یا مالی فائدہ۔
انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ کون سے انجن کس دورِ حکومت میں اور کہاں سے خریدے گئے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاوید اشرف قاضی کے دورِ وزارت (02-2000) میں خریدے ہوئے چینی انجنوں کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان انجنوں نے پانچ سال قبل کام کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن دوسری طرف پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے دور میں خریدے گئے انجن ابھی تک کام کر رہے ہیں۔
نذیر احمد اعوان کے مطابق حادثے اس لیے بھی ہوتے ہیں کہ پٹڑیوں اور انجنوں کی جانچ کے لیے نہ تو موثر ضوابط بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی موجودہ ضابطوں پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریل کی پٹڑیاں پورے ملک میں خراب ہیں جبکہ کئی ایسی جگہوں پر کوئی پھاٹک موجود نہیں جہاں سڑکیں اور راستے ان پٹڑیوں کے آر پار گزرتے ہیں۔ یوں ریل گاڑی کی آمد کے وقت ان سڑکوں اور راستوں پر چلنے والی ٹریفک کوپٹڑی پر آنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ ریلوے سگنلوں کا نظام، ٹریفک کنٹرول کے قواعد اور سٹیشن کا انتظام چلانے کے لیے بنائے گئے ضوابط ملک کے طول و عرض میں یکساں نہیں۔ ان کے بقول "آپ کہہ سکتے ہیں کہ لالہ موسیٰ ریلوے سٹیشن کے ایک طرف کام کرنے کے قواعد اس کے دوسری طرف کام کرنے کے قواعد سے بالکل مختلف ہیں۔ اسی طرح جب آپ لاہور سے رائے ونڈ سٹیشن کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو قواعد بدل جاتے ہیں لیکن جب آپ رائے ونڈ سے آگے نکلتے ہیں تو ان میں ایک بار پھر تبدیلی آجاتی ہے"۔ دوسرے لفظوں میں "پاکستان میں ریلوے کا نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس میں ایک چھوٹی سی بھول چوک بھی بڑے بڑے حادثات کا باعث بن جاتی ہے"۔
سرکاری اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ریل حادثات پاکستان میں بہت عام ہیں۔ ریلوے کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق 2016 اور 2019 کے درمیان ملک بھر میں 386 ریل حادثات ہوئے ہیں۔ اسی طرح 2018 میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد کم از کم 13 بڑے ریل حادثات ہو چکے ہیں جن میں کم از کم ایک سو 78 لوگ ہلاک اور کہیں زیادہ لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔
ان اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی ریل گاڑیاں دنیا کے دیگر ملکوں کی ریل گاڑیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ اس تقابل کو سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں: پاکستان کے پاس چار سو 72 ریل انجن ہیں جنہوں نے 19-2018 میں مجموعی طور پر دو کروڑ 60 لاکھ کلومیٹر سفر طے کیا جبکہ انڈیا کے پاس 12 ہزار سات سو 29 ریل انجن ہیں جنہوں نے اسی سال ایک ارب 10 کروڑ کلومیٹر سفر طے کیا۔ لیکن 19-2018 میں پاکستان میں ایک سو 38 ریل حادثے ہوئے جبکہ انڈیا میں ان کی تعداد محض 59 تھی۔ اس سے اگلے سال (20-2019) پاکستان میں ریل حادثوں میں مرنے والے لوگوں کی تعداد 36 تھی لیکن انڈیا میں اس سال ریل حادثوں میں ایک بھی موت نہیں ہوئی۔
ان اعداد و شمار سے ایک اہم سوال جنم لیتا ہے: ایک ریل حادثہ آخر ہوتا کیا ہے؟ پاکستان اور انڈیا دونوں میں ایک ایسے واقعے کو ریل حادثہ قرار دیا جاتا ہے جس میں ایک ریل گاڑی پٹڑی سے اتر جائے، اس میں آگ لگ جائے یا وہ کسی دوسری ریل گاڑی، عمارت، کھمبے، کار، بس، ٹرِک، ٹریکٹر، موٹر سائیکل یا سائیکل وغیرہ سے ٹکرا جائے۔ لیکن جو لوگ ریل کی پٹریوں کو پیدل عبور کرتے ہوئے گاڑیوں کے نیچے آ کر مر جاتے ہیں ان کی موت کو سرکاری طور پر حادثہ نہیں سمجھا جاتا حالانکہ انڈیا میں اس طرح مرنے والے لوگوں کی اوسط سالانہ تعداد 12 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
یہ تعداد حال ہی میں اس وقت سامنے آئی جب مدھیہ پردیش میں انسانی حقوق کے ایک کارکن نے ریلوے بورڈ کو معلومات کے حق کے قانون کے تحت دی گئی ایک درخوست میں اسے ظاہر کرنے کو کہا۔ اگرچہ یہ قانون پاکستان میں بھی موجود ہے لیکن یہاں یہ سوال ابھی تک نہ تو کسی نے پوچھا ہے اور نہ ہی کسی نے اس کا جواب دیا ہے۔
تاہم نذیر احمد اعوان اس ہولناک حقیقت سے واقف ہیں کہ ایسی اموات کب، کہاں اور کتنی بار ہوتی ہیں۔ ان کا "مشاہدہ ہے کہ شمالی لاہور کے علاقے شاہدرہ سے گزرنے والی پٹڑیوں پر ہر روز کوئی نہ کوئی شخص ریل گاڑی کے نیچے آ کر مارا جاتا ہے"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "نہ تو ان اموات کا کوئی حساب رکھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے تدارک کے لیے کچھ کیا جاتا ہے"۔
حادثوں کی تحقیقات موثر کیوں نہیں ہوتیں؟
لاہور میں واقع پاکستان ریلوے ہیڈ کوارٹرز کے زیادہ تر دفاتر پرانی طرز کی سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں لیکن ایک دفتر ایسا بھی ہے جس کی بیرونی دیواروں پر ہلکے گلابی رنگ کا پینٹ کیا گیا ہے۔ دوسرے دفاتر کے برعکس اس کے اندر بھی فرش اور دیواروں پر ٹائلیں لگی ہوئی ہیں اور اسے شیشے کی دیواروں کے ذریعے مختلف حصوں میں بانٹا گیا ہے۔
یہاں وفاقی حکومت کے انسپکٹر ریلوے (ایف جی آئی آر) بیٹھتے ہیں جن کا کام ریل حادثوں کی تحقیقات کرنا ہے۔
اس دفتر اور پاکستان ریلوے کے دیگر دفاتر میں ایک قدرِ مشترک بھی ہے جو یہ ہے کہ ان میں تعینات اعلیٰ ترین اہل کار کبھی کبھار ہی موجود پائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کبھی وہ اپنے دفتر میں ہوں بھی تو ان کا ماتحت عملہ کسی کو بغیر اجازت ان سے ملنے نہیں دیتا۔
پچھلے ایک ماہ میں سجاگ نے جب بھی ایف جی آئی آر کے عہدے پر متیعن فرخ تیمور غلزئی سے ملنے کی کوشش کی تو ان کے ماتحت عملے کا یہی کہنا تھا کہ یا تو وہ دفتر میں موجود ہی نہیں یا وہ تحقیقات میں اتنے کھوئے ہیں کہ رات کے ایک ایک بجے تک انہی میں پھنسے رہتے ہیں۔ ایک روز تو ان کے ایک ماتحت نے یہ کہہ دیا کہ غلزئی صاحب کسی کام سے دفتر سے نکلے تھے لیکن پھر وہ "کہیں سے کہیں" چلے گئے ہیں اور اب ان کی دفتر واپسی کا کوئی امکان نہیں۔
لیکن سرکاری دستاویزات سے کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ ایف جی آئی آر اور ان کا عملہ اتنا کام کرتے ہیں کہ ان کے پاس کسی سے ملنے کا وقت ہی نہیں۔ پاکستان ریلوے کی اپنی سالانہ رپورٹ کے مطابق ایف جی آئی آر نے 2016 اور 2019 کے درمیان مجموعی طور پر صرف 10 حادثات کی تحقیات کی ہیں حالانکہ اس عرصے میں ریل حادثات کی کل تعداد تین سو 86 رہی۔
ان 10 تحقیقات کے نتائج بھی عام لوگوں کو دستیاب نہیں کیونکہ انہیں 'خفیہ' سرکاری دستاویزات قرار دے کر محض متعلقہ سرکاری اہلکاروں اور محکموں کو ہی فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم ایف جی آئی آر کے دفتر میں کام کرنے والا عملہ اس قانون کا نام بتانے سے قاصر ہے جس کے تحت ان تحقیقات کو 'خفیہ' قرار دیا جاتا ہے۔
نتیجتاً ان تحقیقات کے بارے میں عوامی معلومات مختصر سرکاری اور وزارتی بیانات اور غیر تصدیق شدہ خبروں تک محدود رہتی ہیں جن میں زیادہ تر ایسے اہل کاروں کی تعداد اور عہدے درج ہوتے ہیں جنہیں کسی حادثے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر چند ہفتے پہلے صوبہ سندھ کے شمالی ضلعے گھوٹکی میں دو ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں جس کے نتیجے میں کم از کم 65 افراد ہلاک ہوگئے۔ گزشتہ ہفتے اس حادثے کی تحقیقات مکمل ہوئیں تو فوراً ہی ایک غیر تصدیق شدہ پیغام واٹس ایپ پر گردش کرنے لگا کہ 20 کے قریب ریلوے اہل کار اس حادثے کے ذمہ دار پائے گئے ہیں۔
نذیر احمد اعوان کا کہنا ہے کہ ایف جی آئی آر کی تحقیقات کا مقصد ریلوے کے نظام اور اس کے ڈھانچے میں پائی جانے والی ان خرابیوں کا کھوج لگانا نہیں ہوتا جو مہلک حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ بلکہ، ان کے بقول، یہ تحقیقات اس لیے کی جاتی ہیں کہ حادثے کے بعد عوام الناس کے بھڑکے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایسے اہل کاروں کی نشان دہی کی جائے جن پر حادثے کی ذمہ داری ڈالی جا سکے۔
تحقیقاتی نظام کا یہ پہلو گھوٹکی میں ہونے والے حالیہ حادثے کے بعد ابھر کر سامنے آیا ہے جس کے فوراً بعد ریلوے کے سکھر میں متعین ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ میاں طارق لطیف نے نیوز میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے جائے حادثہ کے اردگرد پٹریوں میں لگے ہوئے جوڑوں کی دگرگوں صورتِ حال کے بارے میں ریلوے کے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا ہوا تھا۔ ان کے اس دعوے کی تصدیق سینیٹ کی ایک ایسی کمیٹی کے ارکان نے بھی کی ہے جو اس حادثے کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے باوجود پٹڑی کی نگرانی اور اس کی مرمت کے ذمہ دار افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
دوسری طرف ایسی غیر متصدقہ خبریں گردش میں ہیں کہ طارق لطیف ان اہل کاروں میں شامل ہیں جنہیں ایف جی آئی آر نے گھوٹکی حادثے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ریلوے کے سینئر جنرل منیجر نثار میمن نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ طارق لطیف ذہنی طور پر متوازن نہیں ہیں اس لیے انہیں ریل کی پٹڑیوں کے بارے میں یہ انکشاف کرنے سے پہلے ہی ان کے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے تھا۔
تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اگر ریلوے حکام کو طارق لطیف کی ذہنی حالت کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا تو انہیں ایک اہم عہدے پر تعینات ہی کیوں کیا گیا اور اگر کسی طرح ان کی تعیناتی ہو ہی گئی تھی تو حادثے سے پہلے ان سے یہ عہدہ واپس کیوں نہیں لیا گیا۔
تاریخ اشاعت 13 ستمبر 2021