بے 'بس' لاہوری اور پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کا لاہور شہر تک محدود پنجاب

postImg

سدرہ چودھری

postImg

بے 'بس' لاہوری اور پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کا لاہور شہر تک محدود پنجاب

سدرہ چودھری

لاہور کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ کی رابعہ بی بی وحدت روڈ پر ایک بینک میں ملازمت کرتی ہیں اور روزانہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کر کے اپنے کام کی جگہ پر پہنچتی ہیں۔ تین چار سال پہلے جب لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی (ایل ٹی سی) کی بسیں چلتی تھیں تو وہ ایک ہی بس کے ذریعے باآسانی اپنے بینک پہنچ جایا کرتی تھیں۔ لیکن جب سے یہ بسیں بند ہوئی ہیں تو انہیں دفتر جانے کے لیے رکشہ لینا پڑتا ہے جس سے کرائے کی مد میں ان کا خرچ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

ان کے پاس دفتر جانے کے لیے دوسرا ذریعہ چنگ چی رکشہ ہے جو عام رکشے سے قدرے سستا پڑتا ہے لیکن انہیں دفتر کی راہ پر ایسے کئی رکشے بدلنا پڑتے ہیں جس سے انہیں خاصی کوفت اور تاخیر کا سامنا رہتا ہے۔

رابعہ بی بی کا کہنا ہے کہ رکشہ ڈرائیور پٹرول مہنگا ہونے کا بہانہ بنا کر آئے روز اپنی مرضی سے کرائے بڑھا دیتے ہیں لیکن نوکری کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ سہنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے وہ عام لوگوں خصوصاً خواتین مسافروں کے بارے میں سوچے اور ان کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام کرے۔

لاہور شہر کی 80 لاکھ آبادی کو پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس وقت شہر میں جتنی پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہے وہ زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس لاکھ افراد کی ضرورت پوری کرتی ہے۔

لاہور میں مختصر فاصلے پر سفر کے لیے نجی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے بعد چنگ چی رکشہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سواری ہے جو دو تا تین کلومیٹر سفر کا 40 سے 50 روپے تک کرایہ لیتے ہیں۔ آٹو رکشے میں اتنے ہی سفر کا کرایہ دو تا تین سو روپے ہے جبکہ آن لائن ایپس کے ذریعے ٹیکسی منگوانے پر اس سے بھی زیادہ کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

اس وقت شہر میں چنگ چی رکشوں کی تعداد 90 ہزار کے قریب اور آٹو رکشوں کی تعداد قریباً 70 ہزار ہے جن پر روزانہ 20 سے 25 لاکھ لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ شہر کی 20 سے 25 فیصد آبادی ذاتی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرتی ہے۔

گاڑیوں کی تعداد میں یہ اضافہ آبادی میں اضافے سے منسلک ہے لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتیں نہ ہونے کے باعث لوگ نجی گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں۔ کئی محکموں کی جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق لاہور کے شہریوں کو بہتر سفری سہولت فراہم کرنے کے لیے اس وقت تین تا پانچ ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے 10 سال

لاہور کے باسیوں کو سستی اور معیاری سفری سہولیات فراہم کرنے کے لئے 2012 میں لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی (ایل ٹی سی) بنائی گئی تھی۔ اس کمپنی نے البراق نامی ترک کمپنی کے ساتھ پانچ سال کے لئے معاہدہ کیا اور شہر کے 19 روٹس پر مجموعی طور پر 400 بسیں چلائی گئیں جن میں سے 172 البراق اور 228 مقامی نجی آپریٹروں کی تھیں۔

2017 میں البراق کمپنی سے معاہدہ ختم ہوا تو اس میں تین سال کی توسیع کر دی گئی لیکن بجٹ مسائل کی وجہ سے ایل ٹی سی کی جانب سے بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث اس کے البراق کمپنی کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے۔ خراب ہونے والی بسوں کو بروقت ٹھیک نہ کرائے جانے سے ان کی تعداد کم ہوتی گئی اور صرف دو سال میں ہی تمام بسیں خراب ہونے کے باعث تمام 19 روٹ بند کر دیے گئے۔

بعدازاں ایل ٹی سی نے دو روٹس پر کوسٹر بسیں چلائیں جن میں 22 نمبر روٹ جناح ٹرمینل سے جلو موڑ اور 10 نمبر روٹ ویلنیشا ٹاؤن سے ریلوے سٹیشن تک تھا۔ لیکن چند ہی مہینوں  میں یہ دونوں روٹ بھی بند ہو گئے۔ اس طرح عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی گئیں چار سو بسیں غیرفعال ہونے کے بعد لاری اڈہ بادامی باغ، بند روڈ اور ہمدرد چوک بس سٹینڈ پر کھڑے کھڑے خراب ہو گئیں اور انہیں کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا۔

نومبر 2020 میں اس وقت کے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے کلین اینڈ گرین پاکستان کے منصوبے کے تحت لاہور میں گرین الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری دی۔ انہوں ںے اعلان کیا تھا کہ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کو پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی میں ترقی دے کر اسے پورے پنجاب کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔

<p>لاہور کے شہریوں کو بہتر سفری سہولت فراہم کرنے کے لیے اس وقت تین تا پانچ ہزار بسوں کی ضرورت ہے<br></p>

لاہور کے شہریوں کو بہتر سفری سہولت فراہم کرنے کے لیے اس وقت تین تا پانچ ہزار بسوں کی ضرورت ہے

اکتوبر 2021 میں لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کو پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی بنا دیا گیا اور کہا گیا کہ پہلے مرحلے میں یہ لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں پبلک ٹرانسپورٹ چلائے گی۔ لیکن ڈیڑھ سال بعد بھی یہ کمپنی بسیں نہیں چلا سکی اور نہ ہی اس حوالے سے کسی بس کمپنی سے کوئی معاہدہ کر پائی ہے۔

لاہور کے علاقے آر اے بازار سے ملحقہ آبادی کے رہائشی وقاص علی بادامی باغ لاری اڈے پر ملازمت کرتے ہیں جس کے لئے وہ روزانہ تین مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ بدل کر اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ اس طرح آنے جانے میں انہیں روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ وقت لگتا ہے۔

وقاص علی بتاتے ہیں کہ پانچ سال پہلے تک ان کے اس راستے پر ایل ٹی سی کیB12  نمبر بس چلتی تھی جس کے ذریعے وہ کم وقت اور کم کرایے میں اپنی ملازمت پر پہنچ جاتے تھے۔ جب سے یہ بس بند ہوئی ہے ان کے لیے نوکری پر آنا جانا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔

اس وقت لاہور شہر میں ماس ٹرانزٹ اتھارٹی شہریوں کو میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین اور سپیڈو بس کی صورت میں ہی لوکل ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کر رہی ہے۔ ان میں میٹرو بسوں کی تعداد 64 اور فیڈر بسوں کی تعداد 200 ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں: مالی اور انتظامی تنازعات کیسے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کو لے ڈوبے۔

پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کے ڈی جی انفورسمنٹ فیصل یوسف بتاتے ہیں کہ صوبے میں نگران حکومت آنے کے بعد کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کر دیا گیا جس کی وجہ سے فیصلے کرنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی سی نے لاہور میں 100 الیکٹرک بسیں چلانے کا پلان بنایا ہے جو آئندہ چھ ماہ میں سڑکوں پر ہوں گی۔

ایل ٹی سی بسیں بند ہونے اور مناسب پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث شہر میں رکشوں، چنگ چی اور نجی گاڑیوں/ موٹرسائیکلوں کی بھرمار ہے جس کے باعث پٹرول کی کھپت میں اضافے، ماحولیاتی آلودگی، شور اور ٹریفک جام جیسے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ لاہور گزشتہ کئی سال سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو رہا ہے اور محکمہ ماحولیات کے مطابق شہر میں 43 فیصد ماحولیاتی آلودگی ٹرانسپورٹ کے شعبے سے آتی ہے۔

محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز کہتے ہیں کہ اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافہ کیا جائے اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دیا جائے تو آلودگی کے مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر کی آبادی اور گاڑیوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں فوری ماحول دوست اقدمات نہ کرنے کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔

تاریخ اشاعت 17 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.