ساہیوال جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) میں سینئر پوسٹ ماسٹر صوفیہ قاسم کو ان کے دفترمیں گھس کر مبینہ طور پر تھپڑ مارنے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے ضلعی انفارمیشن سیکرٹری میاں نوید اسلم کو ایک مقامی عدالت نے اس واقعے کے اگلے ہی دن ضمانت پر رہا کر دیا ۔ صوفیہ قاسم کے مطابق میاں نوید اسلم نے 24 ستمبر 2020 کو ان کے دفتر میں داخل ہوتے ہی انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور بازو سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا. انھوں نے مزید بتایا کہ نوید اسلم انھیں پوسٹ آفس کے عملے کی موجودگی میں جان سے مارنے اور اغوا کرنے کی دھمکی بھی دیتے رہے اور برملا کہتے رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رکن ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
صوفیہ قاسم نے سجاگ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ پولیس نے ان کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے لیکن ان کے اصرار کرنے کے باوجود پولیس نے جان بوجھ کر ایسی دفعات شامل کی ہیں جن میں ضمانت حاصل کرنا آسان ہوتا ہے جس کے باعث نوید اسلم ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر میں شامل دفعات میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 354 (کسی عورت پر اسکی عزت پر حرف ڈالنے کے لئے تشدد کرنا)، دفعہ 186 (سرکاری ملازم کے کام میں خلل ڈالنا) اور دفعہ 506 (کسی کو دھمکانا) شامل ھیں۔
اس مقدمے کے حوالے سے انسانی حقوق سے منسلک وکیل نور اعجاز چوہدری نے سجاگ کو بتایا کہ اس میں تعزیراتِ پاکستان کی مزید شقیں شامل ہونی چاہیئں تھیں جن میں دفعہ 349 (کسی کے خلاف بے جا طاقت کا استعمال)، دفعہ 350 (کسی کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے مجرمانہ طاقت کا استعمال کرنا )، دفعہ 351 (کسی پر حملہ کرنا) اوردفعہ 509 (کسی عورت کو ہراساں کرنا) شامل ہیں۔ انھوں نے پولیس کی طرف سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ پر اصرار نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جسمانی ریمانڈ کی صورت میں تفتیشی آفیسر ملزم سے مقدمے کے بارے میں مزید تفتیش کر کے مسئلے کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مقدمے میں ملزم کے جسمانی ریمانڈ کا مطالبہ کوئی بے جا بات نہیں تھی بلکہ مدعی کا قانونی حق تھا۔
صوفیہ قاسم کے محکمے کے اعلیٰ افسران بھی موجودہ صورتِ حال سے نا خوش ہیں۔ جنوبی پنجاب کے جنرل پوسٹ ماسٹر آفیسر چوہدری اکرم اس بات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ قابلِ ضمانت دفعات کے ہوتے ہوئے بھی تفتیشی آفیسر عدالت میں ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اس کی بجائے جوڈیشل ریمانڈ کی درخواست کیوں کی۔
نور اعجاز چوہدری کا مزید کہنا ہے کہ ایسے مقدمات میں خواتین کو یہ قانونی حق بھی حاصل ہے کہ وہ متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس تعزیراتِ پاکستان کی دفعات A22 اور B22 کے تحت ایف آئی آر میں مزید دفعات کی شمولیت کی درخواست بھی دائر کر سکیں۔
اس ضمن میں جب سجاگ نے صوفیہ قاسم کے شوہر سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ان کی بیوی اب اپنا میڈیکل معائنہ کروا چکی ہیں جس کے بعد انھیں امید ہے کہ ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کر لی جائیں گی۔
دوسری طرف میاں نوید اسلم نے صوفیہ قاسم کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئےسجاگ کو بتایا کہ پوسٹ آفس کے ساتھ ان کا کاروباری تعلق ہے اور وہ کئی روز سے صوفیہ قاسم سے اپنے معاوضے اور ترسیلات کی تفصیلات طلب کر رہے تھے۔ ان کے مطابق 24 ستمبر کو جب وہ صوفیہ قاسم کے دفتر میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے پوسٹ آفس کا عملہ موجود تھا جس نے ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازے کو تالا لگا کر ان پر تشدد کیا اور ان کے سامنے ان کی پارٹی اور وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کو گالیاں دیں۔ اس کے بعد اس عملے نے پولیس کو بلا کر ان پرصوفیہ قاسم پر تشدد کرنے کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق پولیس نے ان کا مؤقف نہیں سنا جس کے باعث وہ اپنی شکایت درج نہیں کروا پائے۔
تاہم سجاگ کو ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں وہ پولیس اہلکاروں کے موجودگی میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اس پوسٹ آفس میں کوئی مرد بھی موجود ہوتا تو اسے بھی تھپڑ ہی مارا جاتا۔ جب ان سے اس ویڈیو کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں وہ اقبالِ جرم نہیں کر رہے بلکہ سرکاری عملے کا عمومی طریقۂ کار واضح کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے تحت یہ عملہ ضرورت پڑھنے پر کسی کو بھی تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ انھوں نے ایک ڈیجیٹل چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ ان کا مقصد ایسے سرکاری ملازمین کی کرپشن کو بے نقاب کرنا ہے جس کی وجہ سے حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کی پالیسیاں نافذ نہیں ہو پاتیں اور' یہ خاتون (صوفیہ قاسم) بھی اپنی کرسی کے زعم میں آکر مجھ پر جھوٹی الزام تراشی کر رہی ہیں'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 28 ستمبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 7 جون 2022