پاکستان ریلوے کے حفاظتی شعبے کے سربراہ کے بارے میں خبر آئی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں اور دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر اپنے گھر میں رہ رہے ہیں۔ تاہم ان کا ایئرکنڈیشنڈ دفتر ان کے ماتحت عملے کے لیے جولائی کی سخت گرمی سے بچنے کے لیے گویا پناہ گاہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اپنے افسر کی موجودگی میں وہ یہ 'عیاشی' نہیں کر سکتے تھے۔
لاہور کی ایمپریس روڈ پر سرخ اینٹوں سے بنی ایک پرانی عمارت میں قائم ریلوے ہیڈکوارٹر کی طویل راہداریوں میں عملے کے ارکان کا اس طرح وقت گزارنا عام بات ہے۔ عمارت کے اُس حصے میں قالین سے ڈھکی سیڑھیاں ایک برآمدے کو جاتی ہیں جہاں پاکستان ریلوے کے اعلیٰ افسران کے دفاتر ہیں۔ شاہانہ طرز کے ان بڑے بڑے دفاتر میں سے بیشتر خالی پڑے ہیں۔ ان میں بیٹھنے والے افسر یا تو چھٹیوں پر گئے ہوئے ہیں، یا سرکاری دوروں پر شہر سے باہر ہیں، یا طبی رخصت پر گئے ہوئے ہیں اور یا ماتحت عملے کے مطابق ''کسی ضروری کام کے سلسلے میں ابھی باہر نکلے ہیں''۔
ہر غیر حاضر افسر کا ذاتی عملہ اس کے دفتر کی بغل میں ایک چھوٹے سے کمرے میں پھنسا بیٹھا ہے۔ باہر سے آنے والے ہر فرد کو دفتر میں داخل ہونے سے پہلے اس عملے کی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسے نہ صرف ماتحت عملے کو قائل کرنا پڑتا ہے کہ اسے ان کے افسر سے بہت ضروری کام ہے بلکہ ان کی خوشامد بھی کرنا پڑتی ہے تاہم اس کے باوجود افسر سے ملاقات کی اجازت ملنا یقینی نہیں ہوتا۔
عام شہریوں، نچلے درجے کے ملازمین اور افسروں کے درمیان نوآبادیاتی دور کا یہ تفاوت اس لیے برقرار رکھا جا رہا ہے تاکہ عظمت کے تیزی سے دھندلے ہوتے جھوٹے احساس کو برقرار رکھا جا سکے۔ تاہم پاکستان ریلوےکو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے کیونکہ حکومت پاکستان کے اربوں روپے ہر سال ریلوے ہیڈکوارٹر میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کی تفصیل آئندہ سطور میں پیش کی جائے گی۔
ریلوے کو درپیش مالی اور انتظامی مسائل کے بارے میں کوئی سوال پوچھا جائے تو جواب میں مستقل خاموشی ملتی ہے۔ ریلوے کے ایک اعلیٰ سطحی عہدیدار کے ذاتی عملے کے ایک رکن کہتے ہیں ''اگر آپ ریلوے کے ادارہ جاتی اور مالیاتی مسائل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کارکنوں کی یونین کے دفتر میں کسی سے ملنا چاہیے۔ وہ ان افسروں کی نسبت ہر بات بہتر طور سے جانتے ہیں اور یہ افسر آپ کو کبھی کچھ بتائیں گے بھی نہیں''۔
محمود ننگیانہ ریلوے کی یونین کے باخبر ترین ارکان میں شمار ہوتے ہیں تاہم وہ ریلوے ہیڈکوارٹر میں کام نہیں کرتے۔ ان کی ریٹائرمنٹ میں آٹھ مہینے باقی ہیں اور وہ لاہور کے علاقے مغلپورہ میں پھیلی ریلوے کی ورکشاپوں میں سے ایک کے انتظامی عملے میں شامل ہیں۔
جولائی کی ایک دوپہر کو وہ ریلوےکے عروج و زوال کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ جس انداز میں حقائق و واقعات بیان کرتے ہیں اسے سن کر یوں لگتا ہے جیسے انہوں ںے یہ تمام تفصیل زبانی یاد کر رکھی ہو۔ وہ 1970 کی دہائی کو ریلوے کا سنہری دور کہتے ہیں جب یہ محکمہ منافع کما رہا تھا۔ تاہم اس گزرے دور کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی ہونے کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ریلوے کا تنزل اس کے افسروں اور نچلے درجے کے ملازمین کے مابین بڑھتے ہوئے فرق سے جڑا ہوا ہے۔
محمود ننگیانہ کا کہنا ہے کہ ''1970 کی دہائی میں پاکستان ریلوے کے پاس ایک لاکھ 18 ہزار سات سو 80 ملازمین اور 107 افسر تھے۔ اب افسروں کی تعداد تو تیرہ سو سے زیادہ ہے لیکن ملازمین 70 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں''۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ''اب بیشتر افسروں کے پاس ریلوے کا نظام چلانے کے لیے درکار تکنیکی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے''۔
ان کے الفاظ یہ کھلا راز آشکار کرتے ہیں کہ پاکستان ریلوے ایک ناکام ادارہ ہے جہاں بدعنوانی عام ہے اور اس کی افسرشاہی کے کام کاج کے طریقہ ہائے کار دنیا کے دوسرے ممالک سے کم از کم 50 سال پرانے ہیں۔ نتیجتاً یہ ادارہ چوتھائی صدی سے زیادہ عرصہ سے خسارے میں جا رہا ہے۔
حکومت کی اپنی دستاویزات سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ 21 مئی 2021 کو قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور نے انکشاف کیا کہ پاکستان ریلوے کو گزشتہ تین برس میں تقریباً ایک سو 19 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تیار کردہ رپورٹوں کے مطابق ریلوے کی انتظامیہ گزشتہ دو سال میں ایک سو ارب روپے کے اخراجات کا ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس بدعنوانی اور مالیاتی بدانتظامی کے نتیجے میں ریلوے وفاقی حکومت کی جانب سے دی گئی 137 ارب روپے کی سالانہ امداد اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے تقریباً 40 ارب روپے کے اوورڈرافٹ (یہ وہ رقم ہے جو کسی فرد یا ادارے کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم سے زیادہ مقدار میں نکلوائی جاتی ہے) پر چل رہا ہے۔ اس امداد کی ضرورت حالیہ عرصے میں ریلوے کے مالیات کا ایک مستقل حصہ رہی ہے حالانکہ 19۔2018 میں اس محکمے کی آمدنی میں 9.96 فیصد اضافہ بھی ہوا تھا۔
ریلوے کا بے سمت سفر
ریلوے اب ملکی آبادی کے بڑے حصے کے لیے سفر کا ترجیحی ذریعہ نہیں رہا جو کہ اس کے زوال کی ایک اور اہم وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس 1960 کی دہائی کے آخر تک ریل ملک بھر میں آمدورفت اور سامان برداری کا بنیادی ذریعہ تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس دہائی میں اندرون ملک 41 فیصد مسافر ٹرین کے ذریعے سفر کرتے تھے جبکہ 73 فیصد سامان بھی اسی ذریعے سے ایک سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔اب یہ شرح بالترتیب 10 فیصد اور 4 فیصد رہ گئی ہے۔
2017 کے اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملک بھر میں رہنے والے لوگ مختلف ذرائع سے جتنے کلومیٹر طے کرتے ہیں ان کا صرف پانچ فیصد ریل کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ مال برداری میں یہ شرح دو فیصد پر آ گئی ہے۔
ریلوے میں کام کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اس صورتحال کا ذمہ دار نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری سبھی پر عائد ہوتی ہے۔
دوسری طرف ریلوےکے پیچیدہ بحران پر حکومت کا ردعمل بھی اتنا ہی پیچیدہ (اور دراصل انتہائی سادہ) رہا ہے چنانچہ موجودہ حکومت نظام کے تحت ہر شخص وہ کام کر رہا ہے جو اسے دے دیا جاتا ہے لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ ایک واضح بے سمتی پاکستان ریلوے کی شناخت بن چکی ہے جس کی بڑی وجہ اس کا انتظامی ڈھانچہ ہے جو انتظام و انصرام کے جدید طریقہ ہائے کار اور کاروباری تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس محکمے کو اسلام آباد میں موجود ایک وفاقی وزیر کی قیادت میں وزارت ریلوے کے تحت چلایا جاتا ہے۔ ایک وفاقی سیکرٹری اور بہت سے ایڈیشنل سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری، سیکشن افسر اور سیکڑوں افراد پر مشتمل دیگر عملہ ریلوے کے وزیر کی معاونت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے کا اپنا چیئرمین اور متعدد جنرل مینجر بھی ہوتے ہیں جو لاہور میں قائم ریلوے ہیڈکوارٹر میں بیٹھتے ہیں۔
نقل و حمل کے نظام کا تجزیہ کرنے کا 35 سال سے زیادہ تجربہ رکھنے والے ماہر رچرڈ بُلاک سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو فوری طور پر ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک ویبینار سے خطاب میں بتایا کہ بہت سے ممالک افسرشاہی پر مشتمل ایسے قدیم نظاموں کو چھوڑ چکے ہیں اور اس کی جگہ انہوں نے متحرک ادارہ جاتی انتظامات کیے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں وفاقی وزارت ریلوے کو وزارت ٹرانسپورٹ میں شامل کرنے کی بات بھی کی اور تجویز پیش کی کہ حکومت کے انتظامی کردار کو ریلوے کی نقل و حمل سے متعلق خدمات کے کاروبار سے علیحدہ کر دیا جانا چاہیے۔
تاہم اس سمت میں حکومت کی کوششیں یا تو بہت کمزور ہیں یا سرے سے وجود ہی نہیں رکھتیں۔
پاکستان ریلوے میں بالائی ترین سطح پر کام کرنے والے انتظامی افسران پر اس ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہوتا کیونکہ ان میں سے کسی کو کام نہ کرنے پر نوکری کھونے کا کوئی ڈر نہیں ہے اور ریلوے حکام کی ترقی و تنزلی ان کی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں ہوتی ہے۔
اس صورتحال کا براہ راست نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان ریلوے میں کسی طرح کے داخلی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ دو سال میں اس محکمے میں دھوکہ دہی، غبن اور بے قاعدگیوں کے بہت سے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ریلوے کے حسابات سے متعلق 20-2019 کی رپورٹ میں بدعنوانی کے کم از کم ایک سو 26 واقعات کی نشاندہی کی ہے۔ ان تمام واقعات میں غبن کی گئی رقم کی مجموعی مالیت پانچ کروڑ 10 لاکھ روپے بنتی ہے۔ 19-2018 کی آڈٹ رپورٹ میں بھی نو کروڑ 70 لاکھ روپے کی بدعنوانی کا تذکرہ ہے جس کی نشاندہی کرنے کے ساتھ آڈیٹر جنرل نے تجویز کیا تھا پاکستان ریلوے میں اندرونی مالیاتی اختیارات کی تشکیل نو کرنے کی ضرورت ہے۔
اس آڈٹ رپورٹ میں کئی دیگر مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ ان میں لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں ریلوے کی سینکڑوں ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ بھی شامل ہے۔ ریلوے کے موجودہ اور سابق ملازمین، کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگ اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ بعض افراد نے اس زمین پر گھر اور عمارتیں تعمیر کر رکھی ہیں جبکہ محکمے کے پاس نہ تو اس زمین کو واگزار کرانے کا عزم ہے اور نہ ہی اس کی طاقت۔
ریلوے کی زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات سے متعلق سب سے بڑا کیس ایک سو تین ایکڑ پر بنائے گئے رائل پام گالف کلب کا ہے۔ یہ نجی کلب جس زمین پر تعمیر کیا گیا ہے وہ بنیادی طور پر ریلوے کے افسروں کے لیے مخصوص تھی۔ 2000 کی دہائی میں تین سابق فوجی افسروں ۔۔ اس وقت کے وزیر ریلوے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاوید اشرف قاضی، اس وقت کے چیئرمین ریلوے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) سعید الظفر اور اس وقت کے جنرل مینجر ریلوے میجر جنرل (ریٹائرڈ) حامد حسن بٹ ۔۔ نے یہ زمین لیز پر ایک نجی کمپنی کو دے دی۔ جب اس لیز کی حتمی تفصیلات سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ کمپنی کو 41 ایکڑ اضافی زمین مہیا کرنے کے علاوہ اس کی لیز کی مدت 33 سال سے بڑھا کر 49 سال کر دی گئی ہے اور یہ سب کچھ کوئی اضافی معاوضہ وصول کیے بغیر ہوا۔
بہت سی سرکاری رپورٹوں کے مطابق ان تبدیلیوں سے قومی خزانے کو 9 ارب 60 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا لیکن پاکستان ریلوے کا دفتر برائے تعلقات عامہ یہ نہیں بتاتا کہ آیا اس اقدام کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی یا نہیں۔ اس دفتر کی ڈائریکٹر نازیہ جبیں کا صرف یہی اصرار ہے کہ ریلوے میں ''بدعنوانی پر کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جاتی''۔
ان کے دفتر سے دیگر امور کے بارے میں بھی سوالات پر ایسے ہی گول مول جواب سننے کو ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ماتحت عملہ کہتا ہے کہ محکمے کے کسی مخصوص سیکشن کی کارکردگی کے بارے میں معلومات صرف اسی سیکشن سے ہی مل سکتی ہیں۔ جب ان سے ریلوےکے حادثات سے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو دفتر اطلاعات کے ایک ملازم کہتے ہیں کہ ''اس بارے میں تمام معلومات میڈیا کو دی جا چکی ہیں اور اس بارے میں کچھ پوچھنا ہو تو میڈیا سے پوچھا جائے''۔یہ بات ایسے ہی ہے کہ جیسے حادثات کے بارے میں معلومات صحافیوں کو دینے کے بعد دفتر کے ریکارڈ سے تلف کر دی گئی ہوں۔
محنت کشو، گھر کو جاؤ
اپریل 2021 میں پاکستان ریلوے کے چند سابق ملازمین نے پینشن کی عدم ادائیگی کے خلاف سندھ کے کوٹری ریلوے سٹیشن پر احتجاج کیا۔ اس دن ریلوے کے وزیر اعظم خان سواتی سرکاری دورے پر وہیں موجود تھے اور ملازمین چاہتے تھے کہ وہ ان کے مسائل سنیں۔ اس کے بجائے وزیر نے انہیں کہا کہ ''آپ لوگوں کو یہ دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں کہ آپ کو پینشن نہیں ملی کیونکہ آپ نے میرے ملک کو 1.2 ٹریلین روپے کا نقصان پہنچایا ہے''۔
ان کی باتوں پر ریلوے کے تمام موجودہ اور سابقہ ملازمین کو بہت غصہ آیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ریلوے کو ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کرنے سے بھی نقصان پہنچا ہے۔ اسلام آباد میں قائم سرکاری تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی ایک حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1970 کی دہائی میں ریلوے کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار تھی جو اب کم ہو کر 70 ہزار تک آ گئی ہے۔ تاہم یہ تعداد بھی ہمسایہ ممالک میں ریلوے کے ملازمین کی تعداد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
اس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ 2018 میں پاکستان ریلوے کے ملازمین کی تعداد 72 ہزار 78 تھی جبکہ اس سال چھ کروڑ افراد نے ٹرینوں کے ذریعے سفر کیا۔ باالفاظ دیگر ریلوے کے ایک ملازم نے اوسطاً آٹھ سو 32 مسافروں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اس سے برعکس 2020 میں انڈیا میں ٹرینوں پر سفر کرنے والے اس سے ساڑھے سات گنا زیادہ مسافروں کے لیے ایک ملازم تعینات تھا۔
پاکستان ریلوے اس دلدل سے نکلنے کے لیے ملازمین کی تعداد میں کمی کے علاوہ اکثر و بیشتر اپنے کاروبار کے کچھ حصوں کو نجی شعبے میں دینے کا طریقہ تواتر سے استعمال کرتا ہے۔ یہ سلسلہ 1998 میں شروع کیا گیا تھا جب عالمی بینک نے پاکستان کو اپنے ریلوے کے نظام کی تشکیل نو کرنے کے لیے 46 کروڑ ڈالر فراہم کیے تھے جس کے تحت ریلوے میں مال برداری، مسافر برداری اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق شعبوں کو نئے خطوط پر استوار کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ریلوے کے تمام فاضل اثاثہ جات اور واجب الادا رقومات، بشمول افرادی قوت، زمینوں، قرض اور ماحولیاتی صفائی سے متعلق ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے ایک ری سیٹلمنٹ ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا جانا تھا۔
لیکن یہ منصوبہ ناکام رہا۔
اس کے تحت اگرچہ نجی شعبے کو بہت سی ٹرینیں چلانے کی اجازت دی گئی لیکن اس کے نتیجے میں غیرادا شدہ معاوضوں کی مد میں ریلوے کو الٹا نقصان ہوا جبکہ نجی شعبے نے اپنے ٹھیکوں کو مقررہ مدت سے پہلے ہی منسوخ کرنا شروع کر دیا۔ 2000 اور 2010 میں چلائی جانے والی نجی دو ٹرینیں بھی غیرمنافع بخش ثابت ہوئیں۔
حالیہ عرصہ میں حکومت نے ریلوے کے چند مخصوص حصے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کے حوالے کر کے ریلوے کی نجکاری کے منصوبے کو پھر سے بحال کیا ہے۔ صرف اکتوبر 2020 میں ہی آٹھ ٹرینوں کا انتظام نجی شعبے کو دیا گیا ہے۔ ایسے مزید اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ نازیہ جبیں کے مطابق ان اقدامات سے پاکستان ریلوے کو اپنی افرادی قوت کا حجم مزید گھٹانے میں مدد ملے گی۔
دوسری جانب محمود ننگیانہ اور ریلوے یونین کے دیگر رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو وسیع تناظر میں نہیں دیکھ پا رہی۔ ان کی رائے میں ملازمین کی تعداد کم کرنے اور ریلوے کو نجی شعبے میں دینے سے یہ محکمہ اپنی کارکردگی کو بہتر تو نہیں کر سکے گا مگر تجربہ کار انسانی وسائل سے ضرور محروم ہو جائے گا۔ محمود ننگیانہ کہتے ہیں کہ ''حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ریلوے کے چند مخصوص شعبے بند کر کے اخراجات میں کمی لا سکتی ہے۔ لیکن وہ محکمے کو منافع بخش بنانے کے نئے طریقے ڈھونڈنے پر غور کیوں نہیں کرتی؟''
یہ بھی پڑھیں
حادثوں کا ہجوم: پاکستان ریلوے میں بد انتظامی اور نا اہلی نے ریل کے سفر کو کتنا غیر محفوظ کر دیا ہے۔
ان کے مطابق ضرورت سے زیادہ ملازمین کی موجودگی سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ریلوے کے پاس اپنی افرادی قوت کو مختلف منصوبوں اور سرگرمیوں میں کام پر لگانے کے لیے درکار رقم عام طور پر بروقت دستیاب نہیں ہوتی۔ اپنی اس بات کے حق میں دلیل پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ ریلوے کی ورکشاپ کے جس حصے کی نگرانی کرتے ہیں وہاں تین سو کارکن ملازمت کرتے ہیں جن سے پوری طرح کام لینے کے لیے ہر سال پانچ کروڑ روپے کا سامان درکار ہوتا ہے۔ تاہم گزشتہ سال اس کو صرف 12 لاکھ روپے موصول ہوئے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت تمام کارکنوں کو مصروف رکھنے کے لیے درکار سامان ہی فراہم نہیں کر سکتی تو وہ فارغ ہی بیٹھے رہیں گے۔
ایم ایل ون: ریلوے کی آخری امید؟
پاکستان ریلوے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے حکومت کی زیادہ تر امیدیں 'ایم ایل ون' سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ پشاور کو کراچی سے جوڑنے والا نیا دو رویہ ریلوے ٹریک ہے۔ ایک ہزار آٹھ سو 72 کلومیٹر طویل یہ ٹریک چین۔پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے جس کی تعمیر کے لیے مالی وسائل چین نے مہیا کیے ہیں۔ اس کی تکمیل کے بعد مسافر اور مال بردار گاڑیوں کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا جبکہ اس پر سگنل اور ٹریفک کنٹرول کے نظام کمپیوٹرائزڈ ہوں گے۔
اس ٹریک پر ہونے والی سرمایہ کاری سے پاکستان میں ٹرانسپورٹ کی پالیسیوں میں ایک بڑے عدم توازن پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ گزشتہ تین دہائیوں میں ان پالیسیوں میں سڑکوں کو ریل پر ترجیح دی جاتی رہی ہے۔
سماجی ترقی کے موضوعات پر کام کرنے والی ایک نجی کمپنی رینرجیا کے سربراہ عامر ظفر درانی کہتے ہیں کہ ریل کا سفر سڑکوں کے سفر سے چھ گنا زیادہ سستا، صاف ستھرا اور محفوظ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں نقل و حمل کی پالیسیوں میں سڑکوں کو اب بھی ترجیح حاصل ہے۔ پاکستان ریلوے سے متعلق 20-2019 کی آڈٹ رپورٹ میں اس سے پچھلے سال تشکیل دی گئی نیشنل ٹرانسپورٹ پالیسی کے حوالے سے بھی یہی کچھ بتایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس پالیسی میں ریلوے حکومت کی ترجیح نہیں ہے اس لیے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں دوسرے شعبوں کے مقابلے میں اس کے لیے بہت کم مالی وسائل رکھے گئے ہیں۔
ریلوے ہیڈکوارٹر میں بیشتر حکام نئی ٹرانسپورٹ پالیسی سے ہی واقف نہیں ہیں۔ وہ سست روی اور عدم دلچسپی سے اپنا روزانہ کا کام کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے انہیں 'اوپر کی کمائی' کے طریقوں پر غور کرنے کے علاوہ دیگر باتوں سے کچھ زیادہ دلچسپی ہی نہیں۔
حال ہی میں ریلوے ورکشاپ کے ایک سپروائزر کو موصول ہونے والی فون کال سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ جب اس نے فون اٹھایا تو دوسری جانب موجود اس کے افسر نے اسے حکم دیا کہ وہ سامان کی خریداری کی رسید پر سیلز ٹیکس کی مد میں 17 فیصد کے بجائے 40 فیصد رقم کا اندراج کر دے۔ سپروائزار نے یہ جواب دیتے ہوئے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا کہ ''تمام رقم آپ کو مل جائے گی اور میں رسید پر اپنے دستخط ہونے کی وجہ سے پکڑا جاؤں گا''۔
سپر وائزر کا کہنا ہے کہ اس کے انکار سے کوئی خاص فرق تو نہیں پڑے گا تاہم ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ خود اس پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ ''اب میرا افسر کسی ایسے اہلکار سے بات کرے گا جو اس کا حکم ٹالنے کی جرات نہ کر سکے اور یوں اس کے ذریعے وہ اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کر لے گا''۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 28 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 جون 2022